31

غیر ملکی سرمایہ کاری اور پی آئی اے کی نجکاری

ایک طویل عرصہ سے مختلف ادوار میں پاکستانی حکومتوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ ریاست کے ملکیتی اداروں کی نجکاری کردی جائے تا کہ خسارے میں چلنے والے ان اداروں کے نقصانات سے قومی خزانے کو بچایا جا سکے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے ہمیشہ سرکاری اداروں کی نجکاری کا مطالبہ سر فہرست رکھا ہے ۔ مختلف حکومتوں کے دور میں نے متعدد اداروں کی نجکاری کی لیکن اس کا ریاست اور حکومت فائدہ نہیں ہوا، البتہ نجی خریداروں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔

حکومت کو نجی سرمایہ کاری سے ہونے والی ادائیگیوں میں قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل مل ، ریلوے اور پی آئی اے ایسے بڑے قومی ادارے ہیں، جن کے بارے میں تواتر سے کہا جاتا ہے کہ ان کی ہ نجکاری وقت کی ضرورت ہے ، ممکن ہے، آرگومنٹ میں وزن ہو لیکن اس سچ کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان کے مقامی سرمایہ کاروں کے پاس نہ تو اتنی فنانشل قوت ہے کہ وہ ان اداروں کو خرید سکیں اور نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت و قابلیت ہے کہ وہ اتنے بڑے نیٹ ورک رکھنے والے اداروں سنبھال سکیں ۔ ہاں! کسی منظور نظر کو مفت سلامی دینے کا ارادہ ہو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

عالمی ساہو کار چونکہ اپنا قرضہ واپس لینے کا تقاضا کرتے ہیں، اس حوالے سے حکومت کو ان کے دباؤ کا سامنا ہے ، اس لیے حکومت قومی ملکیتی اداروں کو جلد از جلد فروخت کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کو بڑے قومی اداروں کو فروخت کرنے کے لیے عالمی انوسٹرز کی تلاش ہے لیکن فی الوقت حکومتی کوششیں کامیاب نظر نہیں آتیں اور کسی بھی بیرونی سرمایہ کار نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں عملاًدلچسپی ظاہر نہیں کی۔

 حکومت پاکستان نے وزیر اعظم کی سربراہی میں مختلف دوست ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی اور نجی کاری کے لیے شرائط میں انتہائی نرمی کا وعدہ بھی کیا لیکن بد قسمتی سے ابھی تک حکومت کسی بیرونی سرمایہ کار کو اپنی جانب راغب نہیں کر سکی۔پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کا سرمایہ کاری سے گریز کرنے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں معاشی، سیاسی ، سماجی، انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے عوامل شامل ہیں۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اصلاحات کی جو شرائط تجویز کررکھی ہیں، اس حوالے سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی اپنی سوچ ہوسکتی ہے ، انھیں خدشہ ہوسکتا ہے کہ اگر پاکستان ان شرائط کو پورا نہ کر سکا تو ان کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہوگا؟ پاکستان کی معیشت کئی برسوں سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی، مہنگائی کی بلند شرح اور کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کو کم پُرکشش بناتے ہیں۔ ملک میں جمہوری حکومتوں کا آنا جانا اور قانون سازی میں رکاوٹیں بیرونی سرمایہ کاروں کو پریشانی میں مبتلاء کرتی ہیں۔

 پاکستان میں نجکاری کی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان ہے۔ مختلف حکومتیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں اور نجکاری کے عمل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار ایک مستحکم اور طویل مدتی حکومتی پالیسی کی توقع رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ہر حکومت کا نجکاری کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر ہوتا ہے جس سے سرمایہ کار غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے ۔

کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار چاہتا ہے کہ اس کے حقوق اور سرمایہ کا تحفظ کیا جائے لیکن پاکستان میں ایسا نظام کمزور ہے جو سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس ضمانت فراہم نہیں کر سکااور اکثر سرمایہ کاروں کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں غیر متوقع سرکاری اقدامات، ٹیکس کے مسائل اور سرمایہ کی واپسی میں رکاوٹیں شامل ہیں ۔ اب آتے ہیں پی آئی اے کی نجکاری کی طرف جو اس وقت حکومت کے نجکاری پلان کا سب سے اہم اور اولین حصہ ہے۔ سب سے بڑا سوالیہ نشان غیر ملکی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کا ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پی آئی اے باآسانی منافع بخش ادارہ بن جائے گا لیکن اس کے باوجود وہ اس کی نجکاری کا حصہ نہیں بن رہے۔ اس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔

پی آئی اے کے مالی اور انتظامی مسائل سرمایہ کاروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ بلا شبہ پی آئی اے کو سالانہ خسارے کا سامنا ہے لیکن اس کا برانڈ امیج بہت بلند اور مقبول ہے، اس کے مسافر ہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں جن کی سالانہ تعداد کا تخمینہ کروڑوں میں ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ ادارہ زوال پذیر ہوا۔ نئے طیاروں کی بروقت خریداری نہ ہونا، بیوروکریسی اور دیگر بااثر طبقات کے افراد کے لیے مفت یا ڈسکاونٹڈ ٹکٹ کی فراہمی،ادارے پر تنخواہوں اور مراعات وسہولیات کا بوجھ وغیرہ کا نتیجہ پی آئی اے ناکام ادارہ بن گیا ۔

غیر ملکی سرمایہ کار کی بات کی جائے تو وہ کسی ایسے ادارے میں سرمایہ کاری سے گریز کرتا ہے جو پہلے سے مالی طور پر غیر مستحکم اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو۔چونکہ پی آئی اے ایک سرکاری اداراہ ہے تو لامحالہ اس کے فیصلے بھی سرکار کرتی ہے، غیر ملکی سرمایہ کار ایک آزاد اور غیر جانبدار انتظام چاہتے ہیں مگر پی آئی اے میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے سرمایہ کار محتاط رہتے ہیں۔ائر لائن کے فضائی بیڑے میں اگر جدید اور کم ایندھن خرچ کرنے والے طیارے شامل نہ ہوں تو اس کی کارکردگی کے علاوہ آمدن بھی متاثر ہوتی ہے، پی آئی اے کے پاس موجود طیاروں کا بیڑا زیادہ تر پرانے طیاروں پر مشتمل ہے جن کی دیکھ بھال اور مرمت پر بھاری لاگت آتی ہے۔

سرمایہ کاروں کو خدشات ہیںکہ بھاری سرمایہ کاری کرنے کے باوجود ادارے کو جدید خطوط پر استوار کرنا مشکل ہو گا۔ عالمی ہوا بازی کے شعبے میں موجود بڑی اور مستحکم ایئر لائنز کے مقابلے میں پی آئی اے کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر ایوی ایشن انڈسٹری حالیہ برسوں میں مالی مسائل کا شکار رہی ہے COVID-19 کے بعداب اس انڈسٹری میں کسی حد تک بہتری نظر آرہی ہے ۔

ایوی ایشن انڈسٹری میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی سطح پر مسافروں کی تعداد میں کمی اور ایئرلائنز آپریشنز کی زیادہ لاگت کی وجہ سے سرمایہ کار اس شعبے میں نئی سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے جیسے مالی طور پر کمزور ادارے کی بحالی میں طویل المدتی سرمایہ کاری ایک خطرہ ہو گا ۔

یہ وہ چند و جوہات ہیں جن کی بنا پر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستانی حکومت کی نجکاری پالیسی میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ اگر حکومت پاکستان ان عوامل کو حل کر سکے اور سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ، شفاف، اور مستحکم ماحول فراہم کرے تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں