35

شرح سود میں کمی، معیشت پر مثبت اثرات

[ad_1]

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 2.5 فیصد کمی کردی ہے، رواں برس 10جون کے بعد سے شرح سود میں مجموعی طور پر 5.5 فیصد کمی کی گئی ہے، شرح سود 22.5 کی بلند سطح سے کم ہوکر اب 15 فیصد پر آگئی ہے۔

 شرح سود میں مسلسل کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اب معاشی استحکام آ گیا ہے۔ ادھر مہنگائی میں جو کمی ہوئی ہے، وہ بھی آئی ایم ایف اور حکومت کی توقع سے زیادہ ہے۔ اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کنٹرول میں ہے، صرف ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہیں ہو رہا، اس کے علاوہ تمام معاشی اشارے درست جانب ہیں۔

چار ماہ میں سات فیصدکمی بڑی کمی ہے، مگر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت بھی خطے کے تمام ممالک میں شرح سود کے لحاظ سے اوپر ہے۔ بھارت اور نیپال میں شرح سود 6.5 فیصد ہے، سری لنکا میں 8.25 فیصد اور بنگلہ دیش میں 10 فیصد۔ ملک میں افراطِ زرکی شرح سنگل ڈیجیٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے، اس طرح پاکستان علاقائی ممالک کے قریب آ جائے گا۔ ملک میں کاروباری حلقوں کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کیونکہ بلند ترین شرح سود نے قرضوں کا حصول نجی طبقے کے لیے مشکل بنا دیا تھا۔

گو نگران اور موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کے حوالے سے کافی سخت فیصلے کیے، پاکستان میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے ایک بلیک مارکیٹ تشکیل پا گئی تھی جوکہ ڈالرکی قدر میں سٹے بازی کر رہی تھی جب کہ یہاں سے ڈالر افغانستان اور ایران اسمگل ہو رہا تھا۔

روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے ڈالر کی اسمگلنگ پر ہونے والی سٹے بازی کو روکنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی سطح پر فیصلہ کیا گیا جس میں مسلح افواج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈالر کی غیر قانونی خرید و فروخت اور بلیک مارکیٹ پر کریک ڈاؤن کیا۔ ڈالر کی قدر میں تیزی سے کم ہوئی اور وہ 280 روپے کی سطح پر آگیا۔ اس وقت بھی ڈالر اوپن مارکیٹ میں 277 سے 280 روپے کے درمیان ٹریڈ ہورہا ہے۔ سخت مانیٹری پالیسی کے بجائے انتظامی سطح پر اقدامات نے روپے کی قدر کو مستحکم کیا ہے۔

شرح سود میں کمی ہونے کا مڈل کلاس کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ذاتی گھر، گاڑی اور ذاتی قرض لینے والوں کو ریلیف ملے گا۔ صنعتوں میں مہنگے مشینری آلات استعمال ہوتے ہیں اور اکثر صنعتیں قرض لے کر یہ آلات اور مشینری کی خریداری کرتی ہیں اور جیسے جیسے وہ ان آلات اور مشینری سے منافع کماتے ہیں ویسے ویسے قرض پر سود اور اصل سرمایہ کی واپسی ممکن ہوتی ہے۔ جب افراط زر کی وجہ سے بنیادی شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ کاروبار اور صنعت کو چلانے کی لاگت بڑھا دیتا ہے جب کہ صارفین بھی مصنوعات کی خریداری کم کردیتے ہیں۔

بنیادی شرح سود بڑھنے سے پاکستان میں بھی یہی عمل دیکھنے میں آیا کہ صنعتوں نے اپنی پیداوار کو روک دیا۔ گو معیشت درست سمت میں گامزن ہے لیکن پاکستان جیسے ملک کو آبادی میں اضافے، مہنگائی، بے روزگاری سمیت جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں اس وقت ان چینلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اب اگر حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کر لے اور زراعت کو فروغ دے تو ملک بڑی ترقی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بڑے سرمایہ کار بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھتے تھے، اب شرح سود میں کمی کے بعد وہ سرمایہ بھی مارکیٹ میں لائیں گے۔

 ایک رائے یہ بھی ہے کہ شرح سود کم ہونے سے بینکوں میں پڑا پیسہ صنعت لگانے پر نہیں لگے گا بلکہ ملک سے باہر چلا جائے گا کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا نہیں ہے اور ہمارے ملک میں پیسہ باہر جانے سے روکنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے، یعنی صرف شرح سود کم کرنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ کاروبار کرنے کے لیے سہولیات بھی دینا ہوں گی۔ پاکستان سے پیسہ منتقل کر کے آج بھی دبئی میں دھڑا دھڑ پراپرٹیز خریدی جا رہی ہیں،کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے کاروبار کرنے کا خرچ اتنا بڑھا دیا ہے کہ شرح سود کم ہونا اب زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح سنگل ڈیجٹ شرح سود ہونے سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر تیزی پکڑ سکتا ہے۔ گو کہ حکومت نے غیر ضروری ٹیکسزکی بھرمارکر رکھی ہے لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ شرح سود کم ہونے سے رئیل اسٹیٹ سے جڑی 50 سے زیادہ صنعتیں بھی چل پڑیں گی اور عام آدمی کی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔

گوکاروباری طبقے کو بھی فائدہ ہوگا لیکن وہ یہ فائدہ عوام کو منتقل کرتے ہیں یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس حوالے سے کاروباری طبقے کا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے، اگر شرح سود دس فیصد تک آجائے اور آئی پی پیزکو ایک ٹریلین کپیسٹی چارجز دینے بند کردیے جائیں تو کاروباری طبقے اور عام عوام کی معاشی حالت بدل سکتی ہے۔

پاکستان میں گندم، خوردنی تیل، دالیں اور ایندھن بڑے پیمانے پر درآمد ہوتا ہے جب کہ بجلی کے کارخانوں میں بھی بعض ادائیگیاں ڈالرز میں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر شرحِ افراط زر پر پڑتا ہے۔  پاکستان میں بلند شرح سود کی وجہ سے صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ ٹیکسٹائل، موبائل اور ٹی وی مینو فکچرنگ، کیمیکلز، فوڈ، بیوریج اور دیگر صنعتوں کو بھی بلند شرح سود کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ دوسری جانب ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہیے ۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کھولنی چاہیے۔

انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کے وسائل سے بہت تجارتی فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ جیسے انڈیا میں لائم اسٹون نہیں لیکن پاکستان کے پاس ہے تو انڈیا پاکستانی سیمنٹ کی ایک بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے۔ ہم انڈیا سے جدید ایگریکلچر کی تکنیک حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم پانی ضایع کر رہے ہیں اور ہمیں اپنے آبی وسائل کے لیے ایسی پالیسیاں لانے کی ضرورت ہے جس سے لوگ پانی کو ضایع کرنے سے اجتناب کریں۔ ہماری مصنوعات کے لیے انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہے اور ہم مقابلہ جاتی فضا میں زیادہ تجارتی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت ٹیکسٹائل کی چار سو سے زائد انڈسٹریز کام کر رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسابقتی رکھنے اور اس شعبے کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کل برآمدات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لیے مارکیٹس کو تلاش کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان کوکپاس کی کاشت کے لیے بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی معیشت کو اپ گریڈ کرنے اور کسانوں کو سہولیات دینے کی بھی ضرورت ہے۔

 ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکنگ کی سہولت کے استعمال کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ہی صارفین کی بینکوں سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے بینک ان معیارات پر پورا اترنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجوہات میں ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی، سیکیورٹی کے مسائل اور موثر کسٹمر سپورٹ کی کمی شامل ہیں۔ پہلی ششماہی تک بینکنگ محتسب کو ملنے والی شکایات گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 80فیصد تک زائد رہی تھیں۔ بینکنگ محتسب نے رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بینک صارفین کو ایک ارب سے زائد روپے کا ریلیف فراہم کیا۔

دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی صنعتی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقابلاتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی، جدید صنعتی انفرا اسٹرکچر اور مواصلاتی نیٹ ورک، ہنر مند، تجربہ کار ورکرز، جدید بینکنگ، دوستانہ ٹیکس نظام نہ پایا جاتا ہو۔ سبسڈی بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ صرف ٹارگٹڈ ہونی چاہیے۔ ہمیں سبسڈی دینے کے عمل کو روکنا ہو گا کیونکہ سبسڈی مڈل مین کی جیبوں میں جاتی ہے۔ ٹیکس در ٹیکس لگانے سے معیشت کا مزید نقصان ہو گا اور کاروبار تباہ ہوں گے۔

 ہمیں اس وقت اقتصادی ترقیاتی ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں کو بزنس فرینڈلی ماحول پیدا کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، ہماری بیوروکریسی کا رول مشاورتی نہیں حاکمانہ ہے اس لیے روایتی افسر شاہی کو اکیسویں صدی کے مطابق ڈھالنے کی بہت ضرورت ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں