38

اقبال اور مغربی فکر… – ایکسپریس اردو

اقبال نے مغربی فکر کو محض تقلید کے بجائے ایک تنقیدی نگاہ سے دیکھا، اور ان کی شاعری اور فلسفے میں مغربی تہذیب کی فکری خرابیوں کو اْجاگر کیا۔ تاہم، انھوں نے مغربی فکر کو مکمل طور پر رد کرنے کے بجائے اس کے بعض پہلوؤں کو تسلیم کیا، خاص طور پر علمی اور سائنسی ترقی کے میدان میں۔ ان کی فکری جستجو کا مقصد مغربی علوم و فلسفہ کو اسلامی طرزِ فکر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور ایک متوازن نظریہ پیش کرنا تھا۔

اقبال کی فکر کا ایک اہم پہلو مغربی فکر اور اسلامی فکرکا موازنہ تھا۔ ان کے نزدیک مغربی تہذیب نے انسان کو مادیت اور خود غرضی کی طرف مائل کیا ہے جب کہ اسلامی تعلیمات انسان کو روحانی بلندی، خدمت اور خودی کی تعمیرکی طرف راغب کرتی ہیں۔ اقبال کے نزدیک مغرب کی سب سے بڑی کمی یہ تھی کہ اس نے روحانیت کو نظر اندازکیا اور انسان کو محض مادی خوشحالی کا محور بنا دیا۔ ان کے نزدیک مغرب کا یہ رویہ ایک غیر متوازن معاشرے کی بنیاد بناتا ہے جس میں افراد اپنی اصل پہچان کھو دیتے ہیں اور معاشرتی رشتے بے معنی ہوجاتے ہیں۔

 اقبال کی تنقید کا ایک بڑا محور مغربی فلسفہ اور اس کی مادیت پر مبنی فکریات ہیں۔ اقبال نے نطشے (Friedrich Nietzsche) اور ہیگل (Georg Wilhelm Friedrich Hegel)جیسے مغربی فلاسفہ کے افکار پر تنقید کی، جنھوں نے انسان کو خود مختاری اور انفرادیت کی بلندی پر فائز کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا کی اہمیت اور روحانی پہلو کو نظر انداز کیا۔ اقبال کے نزدیک یہ خود غرض انفرادیت انسان کو اس کی حقیقی مقصد سے دورکردیتی ہے اور اسے صرف اپنی ذات تک محدود رکھتی ہے۔ ان کی نظر میں یہ فکر انسان کو یکجہتی اور اجتماعیت کے بجائے ایک ایسی زندگی کی طرف لے جاتی ہے جس میں اپنی ذات ہی سب کچھ ہوتی ہے۔

 اقبال نے مغربی جمہوریت پر بھی گہری تنقید کی اور اسے ایک دھوکا قرار دیا۔ ان کے نزدیک مغربی جمہوریت کا اصل مقصد عوام کی فلاح نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنا ہے۔ ان کے نزدیک اس جمہوریت میں عوام کو فیصلہ سازی میں حقیقی اختیار نہیں دیا جاتا بلکہ انھیں ایک محدود آزادی دی جاتی ہے جو بالآخر سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو تقویت پہنچاتی ہے۔ اقبال نے اپنے اشعار میں مغربی جمہوریت کو ایک ایسی چال قرار دیا جس میں اصل اقتدار چند افراد کے ہاتھ میں رہتا ہے اور عام آدمی محض ایک تماشائی کی حیثیت رکھتا ہے۔

 اقبال نے مغربی قوم پرستی کے نظریے کو بھی رد کیا اور اسے اسلامی تصورِ اْمت کے مخالف قرار دیا۔ ان کے نزدیک قوم پرستی انسان کو تنگ نظری کی طرف لے جاتی ہے اور اسے عالمی انسانیت کے تصور سے پھیر کر محض ایک قوم تک محدود کر دیتی ہے۔ اقبال نے اسلامی فکرکو مغربی قوم پرستی کے مقابلے میں بہتر قرار دیا کیونکہ اسلامی فکر میں رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کے بجائے ایک عالمی بھائی چارے کا تصور ہے جو تمام مسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا تصورِ اْمت ایک ایسی قوت ہے جو مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند مضبوط اور متحد رکھتا ہے، جب کہ مغربی قوم پرستی تقسیم اور فساد کا سبب بنتی ہے۔

 اقبال کی فکر میں مغرب کی سائنسی اور تعلیمی ترقی کی بھی اہمیت ہے لیکن وہ اسے اسلامی اقدار سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے تعلیمی نظام میں تحقیق اور تجربات کی حوصلہ افزائی کو سراہا، لیکن وہ اسے ایک مکمل فکرکے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے کیونکہ اس میں روحانی تربیت کا فقدان تھا۔ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان مغرب کے سائنسی اور تکنیکی علم سے فائدہ اٹھائیں لیکن اسے اپنے روحانی اور اخلاقی اصولوں کے ساتھ مربوط کریں۔

 اقبال کی فکری کاوشوں کا ایک اہم حصہ مغرب کی تہذیب و تمدن کے اندرونی تضادات کو واضح کرنا تھا۔ ان کے نزدیک مغربی تہذیب میں ظاہری چمک دمک کے پیچھے ایک کھوکھلا نظام موجود ہے جس میں انسانی اقدار کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اقبال نے مغرب کے اسی تضاد کو اپنی نظموں میں ’’ باطن‘‘ اور ’’ ظاہر‘‘ کے فرق سے بیان کیا۔ ان کے نزدیک مغربی معاشرتی نظام محض ظاہری شان و شوکت اور مادی ترقی پر قائم ہے، جس کے پیچھے اخلاقی زوال اور انسانیت سے دوری پوشیدہ ہے۔ اقبال نے مغربی معاشرت کی اس کمزوری کو بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو خبردارکیا کہ وہ اس نظام کو اپنا کر اپنی روحانی اقدار کو نہ کھو دیں۔

 اقبال کی شاعری میں مغربی فکر پر تنقید اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ انھوں نے مغرب کی اندھی تقلید کے بجائے اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ ان کے نزدیک ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو اپنے فکری اور عملی زندگی کا محور بنائے اور مغرب کے علوم کو اسلامی نظریات کے مطابق استعمال کرے۔ اقبال نے اپنی فکر کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ایسی راہ دکھائی جس میں وہ مغربی علوم اور سائنس سے استفادہ کرسکتے ہیں لیکن ان کی روحانی اور مذہبی شناخت کو قائم رکھ سکتے ہیں۔

 اقبال کے نزدیک مغربی فکر اور اسلامی فکر میں اصل فرق یہ ہے کہ مغرب میں انسان کو خالق کائنات سے کاٹ کر خود مختار بنایا گیا ہے، جب کہ اسلام میں انسان کو اپنے خالق سے مربوط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ مغرب کی فکری غلامی سے آزاد ہو کر اپنے دین کے مطابق زندگی گزاریں اور اپنی فکرکو اسلامی اصولوں کی روشنی میں استوارکریں۔ اقبال کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے اور اس سے بڑھ کر کسی اور فکر کی ضرورت نہیں۔

 اقبال کا مغربی فکر کے بارے میں یہ نقطہ نظر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ مغربی تہذیب کی ظاہری ترقی سے متاثر ہونے کے بجائے اس کے اندرونی نقائص کو سمجھتے تھے۔ اقبال کی فکر ایک ایسی متوازن راہ پر قائم ہے جو مسلمانوں کو مغربی علوم و فنون سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتی ہے لیکن انھیں مغرب کے فکری زوال سے بچاتی ہے۔ ان کے نزدیک مغرب کی ترقی سے سیکھنا ضروری ہے لیکن اس کے نظام زندگی کو اپنانا نقصان دہ ہے۔

 الغرض علامہ اقبال کی یہ فکر ان کی شاعری اور فلسفے میں واضح طور پر موجود ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ اقبال کا یہ پیغام آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک فکری روشنی ہے، جو انھیں یہ سکھاتا ہے کہ وہ مغرب کی اندھی تقلید سے بچ کر اپنی تہذیب اور اپنے دین کی اصل روح کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو تشکیل دیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں