30

’’اسکول اور ریسٹورنٹ بند کرنا اسموگ کا حل نہیں‘‘

[ad_1]


لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ میں اسموگ ختم کرنے کے اقدامات کو بالکل مان جاتا اگر یہ پچھلے سال کے مقابلے میں کچھ تو کم ہو جاتی، کبھی دلی نمبر ون اور کبھی لاہور نمبر ون، اس سال دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے شہروں میں مقابلہ ہو رہا ہے،کبھی لاہور نمبر ون، کبھی ملتان نمبر ون حتی کہ پشاور تک حالات خراب ہیں،

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ درخت مستقل کٹ رہے ہیں، اسکول اور ریسٹورنٹ وغیرہ بند کرنا کوئی حل نہیں۔

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہاکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کراچی آجائیں، آپ آجائیں اور ایک ہفتے میں واپس چلے جائیں گے کہ اسموگ زیادہ بہتر ہے، اس ساری صورتحال کا ایک سائنسی تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے، وہ کون سے ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال لاہور میں پیدا ہوئی اور کراچی میں نہیں ہے؟

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ لاہور میں گزشتہ پانچ چھ سال سے اسموگ کا مسئلہ ہر سال درپیش ہے اس پر کسی نے توجہ نہیں دی، میڈیا بھی اس پر کوئی لانگ ٹرم پلاننگ نہیں کرتا ہے، جب یہ شروع ہو جاتی ہے تو ہم اور آپ اس پر بات کرتے ہیں، اگر آج اقدامات کیے جائیں تو یہ اگلے سات آٹھ سال میں جا کر ختم ہوگی۔

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ اسموگ کا مسئلہ گزشتہ پندرہ برسوں سے ہے، یہ تیزی سے سامنے آیا اور بڑی خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ اس سے لوگوں کی اوسط عمر چار سے پانچ سال کم ہو رہی ہے، یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً سوا کروڑ بچے زہریلی اسموگ کا شکار ہیں۔

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ اس سال اسموگ کی شدت پچھلے سال سے بڑھ گئی ہے، پہلے کچھ دن رہنے کے بعد یہ ختم ہو جاتی تھی مگراب اس کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے، انگوں نے بھٹے،ا سکول اور اسموگ کے کچھ دیگر اندرونی عوامل بند کر کے دیکھ لیے مگر گاڑیوں کا دھواں اور تعمیراتی کام رک نہیں رہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں