29

فکشن کا ایک بڑا نام، ڈاکٹر حسن منظر

ڈاکٹر حسن منظر فکشن کے اعتبار سے ایک اہم نام ہے، انھوں نے اردو ادب کے حوالے سے بہت کام کیا ہے، ناول، افسانے اور ایک خاص کتاب منظر کے خطوط کے عنوان سے شایع ہوکر قارئین اور ناقدین سے داد وصول کرچکی ہے۔ انداز بیان سادہ، موثر اور دل نشیں ہے۔

 ڈاکٹر حسن منظرکا مختصر تعارف اگر بیان کریں توکچھ اس طرح ہے۔ حسن منظرکا جنم 4 مارچ 1934 کو ہاپڑ، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں ہوا۔ ان کے والد کا نام مظہر حسین تھا وہ محکمہ ریلوے میں ملازمت کرتے تھے، انھوں نے شمالی اترپردیش کے مختلف علاقوں میں بچپن گزارا۔1947 میں لاہور اپنے والدین کے ساتھ آگئے یہاں سے ہی اقبال ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، ایف ایس سی فار مین کرسچن کالج لاہور سے اور ایم بی بی ایس کی ڈگری کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے حاصل کی۔

مزید تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان سے باہر چلے گئے اور وہاں سے ہی یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے ڈی پی ایم کی ڈگری جب کہ رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز ایڈمبرا گلاسکو سے ڈی پی ایم (سائیکیٹری) کی تعلیم حاصل کی اور بھرپورکامیابی حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹ آئے اور شہر کراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔ ڈاکٹرصاحب نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ 425 روپے ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر سینٹرل ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹم اسپتال سے منسلک ہوئے مرچنٹ نیوی میں بھی بحیثیت ڈاکٹر اپنے فرائض انجام دیے، لالوکھیت میں پریکٹس کی اس کے بعد سعودی عرب اور شمالی نائیجیریا کے شہر ’’کرونا‘‘ گئے، نائیجیریا کے صدر مقام لیگوسن میں اپنی بیگم ڈاکٹر طاہرہ کے ساتھ پبلک ہیلتھ کے شعبے میں کام کرنے کا موقعہ ملا، طبی نفسیات میں مہارت حاصل کی۔ 1973 میں پاکستان آگئے اور حیدرآباد سندھ میں سائیکاٹرک کلینک کا آغاز کیا۔ 2012

میں طویل عرصے کے بعد کراچی آگئے۔ اسی دور میں افسانہ نگاری شروع کی اور 1981 میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’رہائی‘‘ اور پھر اس کے بعد دوسرا مجموعہ ’’ندیدی‘‘ کے نام سے اشاعت کے مرحلے سے گزرا، انھیں بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ سعادت حسن منٹو نے ان کا افسانہ ’’لائبہ‘‘ سننے کے بعد تعریفی کلمات کہے، ان دنوں ڈاکٹر حسن منظر ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں شرکت کیا کرتے تھے۔ پھر ایک طویل مدت گزرنے کے بعد ان کا ایک اور مجموعہ منظر عام پر آیا۔2006 میں حسن منظر، ناول کی طرف آگئے اور ان کا پہلا ناول ’’العاصفہ‘‘ شایع ہوا، جس میں عرب معاشرے کی عکاسی نظر آتی ہے۔ وہاں کے ماحول، رہن سہن اور رسم و رواج کو بہت عمدہ طریقے سے افسانوی رنگ میں ڈھالا ہے، یہ ناول اس وقت لکھا گیا جب سعودی عرب میں تیل کے کنوئیں دریافت نہیں ہوئے تھے گویا غربت و افلاس کا زمانہ تھا، ’’العاصفہ‘‘ کی شہرت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

انھی دنوں ڈاکٹر صاحب کا دوسرا ناول آگیا، یہ 2008 تھا، ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ جب منظر عام پر آیا یہ بھی اپنے اسلوب بیان اور وسیع کینوس کے باعث بے حد پسند کیا گیا۔حسن منظر 10 کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں دو مختصر ناول ’’ میرشیبا کی لڑکی‘‘ اور ’’ماں بیٹی‘‘ جو ایک ہی جلد میں شامل ہیں۔ ’’ ایک اور آدمی‘‘ حسن منظر کی کہانیوں کا مجموعہ جو تعداد کے اعتبار سے پانچواں ہے ، اس مجموعے میں ان کی تازہ کہانیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو شروع میں افسانے لکھے تو اس زمانے میں لکھے جانے والے چار افسانے بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔

ان کے ناول ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید نے لکھا ہے کہ ’’ ڈاکٹر حسن منظرکے ناول ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ پر اگر ان کا نام نہ بھی لکھا ہو تو میں کسی توقف کے بغیر پہچان لوں گا کہ اس کا مصنف حسن منظر کے سوا اورکوئی نہیں ہو سکتا۔ ان کے موضوعات اردو کے تمام افسانہ نگاروں سے الگ ہیں، جتنا بھی حسن منظر نے لکھ دیا اتنا سچ شاید آج کوئی افسانہ نگار نہیں لکھ رہا، وہ سجاد ظہیر سے داد لے چکے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر حسن منظر کے دو مختصر ناول میرے مطالعے میں رہے، نہایت سادہ، سلیس اور حقیقت پر مبنی ایسی تحریر جو اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے، میں نے یہ ناول ایک ہی نشست میں پڑھے، بہت دلکش انداز بیاں اور کہانی بے حد توانا جو دل میں اپنی جگہ بنا لے۔اب آتے ہیں ڈاکٹر حسن منظر کے خطوط کی طرف۔ اس کتاب کے مرتب کمال اظہر ہیں،ان کی وجہ شہرت ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری ہے، کمال اظہر عمر میں ڈاکٹر حسن منظر سے چھوٹے ہیں مگر رشتے کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے ماموں ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب اپنے بھانجے سے بہت محبت کرتے ہیں، بڑے ہونے کے ناتے ہنسی مذاق اور ساتھ میں ماموں جان کے بجائے ’’ یار ماموں!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن نہایت ادب کے ساتھ ان کے خطوط کی خاصیت، شائستگی اور شگفتگی ہے جو قاری کے ذہن کو طمانیت اور خوشی بخشتی ہے، اچھی اور اعلیٰ تحریروں کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ پڑھنے والا محظوظ ہوتا ہے اور جب تک اختتام نہ ہو جائے وہ مطالعہ جاری رکھتا ہے، نمونے کے طور پر اپنے قارئین کو بھی شامل کر لیتے ہیں کہ وہ بھی پڑھیں، ان کے خطوط غالب کے خطوط کا مزہ دیتے ہیں۔

القاب، آداب سے پاک ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان خطوط کے ذریعے ہم بہت سی ان جگہوں سے آشنا ہو جاتے ہیں جن سے واقف نہیں تھے، گھریلو قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں جس سے لطف دوبالا ہو جاتا ہے اور تجسس بڑھتا ہے اور تجسس انسان کی فطرت میں ہے جب تک ایک نکتہ سے مضمون کی تہہ تک کا پتا لگانے کے لیے چاہے کتنے جتن کرنا پڑیں۔تو پھر اب خطوط کی رونمائی کرا ہی دیتے ہیں۔ یہ خط 1964 کا لکھا ہوا ہے، تاریخ 28 جون ہے۔

’’ یار ماموں! خوش رہو، گھر میں سب کو سلام پہنچے، خیریت لینے کے بعد اپنے نئے گھر کے بارے میں معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ جگہ دریائے نائیجیریا کے کنارے آباد ہے، جو بہت بڑا دریا ہے اور ہمارے مکان کے پچھواڑے بہتا ہے اور ہم اللہ میاں کے پچھواڑے رہ رہے ہیں۔ یہاں ہم پاکستانی صرف ساڑھے تین آدمی ہیں، میرے ذمے دو ڈویژن ہیں جس میں پچاس کے لگ بھگ ڈسپنسریاں اورکلینک وغیرہ ہیں دورہ بہت کرنا پڑتا ہے بڑے گھنے جنگل ہیں تم لکھو حبیب بینک کے آفس کا کیا پتا ہے، اور شکایات کس کو لکھنی چاہئیں؟

دوسرا خط۔ ایڈہ شمالی نائیجریا 22 اکتوبر 1964۔

’’ اماں یار ماموں! اتنے دن اور اتنی راتیں بیمار رہا لیکن تم نے پوچھا تک نہیں۔ اگر جواب نہیں گیا تو ریمانڈر بھیجا ہوتا۔ 1964 میں حج کی فیس غالباً تیس روپے تھی۔ وہ بھی اسپیشل پاسپورٹ کی، خطوط کی خوبی یہ بھی قابل غور ہے کہ ان کی تحریروں میں رشتوں ناتوں کا احترام اور فرداً فرداً سب کی خیریت لینا، اخلاق و تہذیب کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی سن کا خط ہے۔

’’ اماں یار ماموں! تم تو ایسا لگتا ہے قبلہ وکعبہ، افیون کھانے لگے ہو،کہاں غائب ہو؟

صفحہ 142 اور تاریخ 23 اکتوبر 1996 ہے۔ لکھتے ہیں۔’’ میں تمہارے آنے سے خوش تھا، بس خوشی سے کتھک (نہیں) ناچنے لگا۔ پریم چند والی کتاب (ہندی سے ترجمہ) 1997 میں اللہ نے چاہا تو چھپ جائے گی۔ یار، اگرکوئی Authentic کردوں کی تاریخ تاحال ادھر ادھر پڑی نظر آئے میرے لیے چرا لینا، اب کتابیں خریدنے اور جمع کرنے سے تائب ہو چکا ہوں۔‘‘ اللہ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر حسن منظر کی عمر میں صحت کے ساتھ اضافہ فرمائے۔ میرے لیے بہت خوشی اور اعزازکی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے گزشتہ سالوں میں بہت یادگار ملاقات ہوئی اور ادب پر تبادلہ خیال ہوا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں