7

اسرائیلی بربریت اور توسیع پسندانہ عزائم

اسرائیل کی فورسز نے غزہ میں قتل عام کا نیا سلسلہ شروع کرتے ہوئے غزہ پولیس چیف اور ان کے معاون سمیت 63 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ اسرائیل سربیا سے 335 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ، پلس ملٹی راکٹ لانچر اور ہزمز ڈرون طیارے خریدے گا، سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔

 اسرائیل تمام عالمی قوانین اور عالمی انسانی حقوق چارٹرکی پامالی کے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ فلسطین میں خون آشام تباہی کو دنیا مسلسل 14 ماہ سے دیکھ رہی ہے۔ آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے اس دوران ہزاروں ٹن بموں کی بارش غزہ اور اس کے اطراف ہوئی ہے۔

ان دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فلسطینی عوام کی جہاں جانیں جا رہی ہیں، وہیں انھیں ناقابل بیان تکالیف سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے۔ دواخانوں میں دوائیں ختم ہو چکی ہیں اس سے زخمیوں اور دیگر مریضوں کا علاج ممکن نہ رہا۔ اسکولز خاک کا ڈھیر بن گئے ہیں، بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ مکانات اور دکانات پر بمباری کر کے فلسطینیوں کو شدید سردی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورکردیا گیا ہے۔

بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور نہتے شہریوں پر بم برسا کر غاصب اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ پورے فلسطین سے فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کردے۔22 لاکھ فلسطینیوں کی غزہ سے منتقلی ایک خطرناک انسانی المیہ ثابت ہوگی، لیکن صیہونی طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا ہوجائے تاکہ اسرائیل پورے فلسطین پر اپنا قبضہ جما سکے۔ تاحال جنگ بندی کی تمام بین الاقوامی کوششیں بے فیض ثابت ہو رہی ہیں۔

غزہ کی غیر انسانی صورت حال اسرائیلی حکومت کے سیاہ مجرمانہ ریکارڈ پر ایک اور شرمناک داغ ہے۔ اس سارے خوفناک انسانی بحران میں دنیا کی نام نہاد اور بالخصوص امریکی حکومت کا رویہ افسوسناک ہے۔ امریکا کی پشت پناہی نے ہی اسرائیل کو اتنی طاقت بخشی کہ وہ فلسطینیوں پر مسلسل یلغار کر رہا ہے، اسرائیل فلسطینیوں کا قاتل اور جنگی مجرم ہے۔ اسرائیل کی حالیہ کارروائی کو ایک علیحدہ قدم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ یہ اس جنگ کا تسلسل ہے جسے ایک فلسطینی اسکالر اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر راشد خالدی نے فلسطین پر 100 سالہ جنگ کا نام دیا ہے۔

سانحہ فلسطین کی جڑوں کا سراغ لگاتے ہوئے راشد خالدی نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ اس جنگ میں نوآبادیاتی مہم سے متعلق مخصوص نکات موجود ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’’ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک فلسطینیوں کو ان کے نوآباد کاروں نے بالکل اسی انداز میں دکھایا ہے جیسے کہ دیگر مقامی آبادیوں کو دکھایا جاتا رہا ہے۔‘‘ درحقیقت اسرائیل کا بنیادی مقصد پوری فلسطینی آبادی کو ان کے آبائی علاقے سے بے دخل کردینا ہے۔

یہاں ایک اور نکبہ جاری ہے جو شاید گزشتہ نکبہ سے زیادہ بے رحم ہو۔ اپنے مغربی اتحادیوں خاص طور پر امریکا کی جانب سے غیر مشروط حمایت نے اسرائیل کو پورے مقبوضہ علاقے کو اپنی نوآبادی بنانے کے لیے تحرک عطا کیا ہوا۔ ایک کے بعد ایک آنے والی امریکی حکومتوں نے بھی اسرائیل کے جنگی عزائم میں کھل کر اس کا ساتھ دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تو اسرائیل کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔

 دراصل عالمی طاقتیں نہیں چاہتی ہیں کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر اپنا ایک آزاد ملک قائم کر سکیں، یہی وہ سامراجی طاقتیں تھیں جنھوں نے ایک سازش کے تحت ایک سو سال پہلے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسایا تھا۔ برطانوی حکومت نے اپنے مفاد کے خاطر معاہدہ بالفورکے ذریعے 1917میں یہودیوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ انھیں عربوں کی زمین پر قبضہ دلائے گی۔ چناچہ اسی معاہدے کی بنیاد پر 17 مئی 1948 کو ایک غیر قانونی مملکت اسرائیل کے نام سے فلسطین میں قائم کی گئی۔

اسی وقت سے فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم ڈھا رہا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسرائیل عربوں اور بالخصوص فلسطینیوں کا احسان مند ہوتا کہ انھوں نے صدیوں سے بھٹکتی ہوئی یہودی قوم کو جائے پناہ دی۔ دنیا کا کوئی ملک انھیں اپنے ملک میں بسانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہ عربوں کی انسانیت دوستی تھی کہ انھوں نے یہودیوں کو اپنے ملک میں بسنے کا موقع دیا۔ اسرائیل عربوں کے اس عظیم احسان کا بدلہ اپنے ان درندگی پر مبنی جارحانہ حملوں کے ذریعے دے رہا ہے۔

 صیہونی غاصب مملکت اپنے قیام کے اولین دور سے ہی ’’ عظیم تر اسرائیل ‘‘ کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی خوفناک خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے اسرائیل، فلسطین میں آگ و خون کا یہ شرمناک کھیل کھیلتا ہے۔

اس مرتبہ اس کے ظلم کی داستان طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ سات اکتوبر 2023سے کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ اسرائیل نے غزہ پر اپنی بربریت کا بد ترین مظاہرہ نہ کیا ہو۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ نہ کیا ہوتا تو فلسطینیوں کو اس خون آشام تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ان کا یہ خیال اس لیے غلط ہے کہ اسرائیل کے ظلم کی داستان گزشتہ 75سال سے جاری ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے خلاف جو فوجی کارروائی کی وہ اسرائیل کی 75سال سے جاری بربریت کا ردعمل تھا۔ حماس نے یا فلسطینیوں نے غزہ میں جنگ کا ماحول نہیں پیدا کیا۔

یہ تو اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے وہ ممالک تھے جنھوں نے متواتر فلسطین کی سرزمین فلسطینیوں کے لیے تنگ کر کے رکھ دی تھی۔ اس لیے اس پورے تنازع کو 1948سے دیکھنا چاہیے جب فلسطین میں بزور طاقت اسرائیلی مملکت کا وجود عمل میں لایا گیا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے علاقوں کو ہڑپنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے فلسطینیوں کو ہمیشہ اپنے علاقے کی فکر دامن گیر رہی۔ اسرائیل کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اپنے غاصبانہ قبضے کی توسیع کر تا رہا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا باقی رہ گیا ہے۔

سب کچھ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ غزہ کا کل علاقہ 41 کلومیٹر ہے۔ تصورکیجیے کہ 22 لاکھ کی فلسطینی آبادی اتنے چھوٹے سے علاقے میں کیسے گزر بسر کر رہی ہوگی۔ طرفہ تماشا یہ کہ غزہ کے پورے علاقے کی اسرائیل نے ناکہ بندی کردی ہے۔ 2012 سے غزہ کا پورا علاقے ایک کھلی جیل بنا ہوا ہے، وہاں فلسطینیوں کو کوئی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اب تو یہ پورا علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی ظالم فوج نے غزہ میں جو تباہی مچائی ہے اس کے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کی اس دہشت گردی کی وجہ سے غزہ میں 40 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ پڑا ہوا ہے۔ اسے صاف کرنے کے لیے ہی 15 سال لگ سکتے ہیں۔ ملبہ جلد صاف نہ ہونے سے کئی خطرناک بیماریاں وہاں پھیل سکتی ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والوں نے ظالم اور مظلوم کو نہ صرف ایک ہی صف میں لاکھڑے کردیا ہے بلکہ کھلے عام ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر ہونے والے ان ظالمانہ اور سفاکانہ حملوں میں اسرائیل کلسٹر بم اور فاسفورس جیسے کیمیائی اسلحہ کے استعمال سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے۔ فلسطین کی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان سنگین حالات کا تقاضا ہے کہ دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے اور انھیں بتایا جائے کہ ظلم کی اس آندھی کا تدارک نہ ہوگا تو دنیا جنگ کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ ظلم اور ظالم کے خلاف احتجاج نہ کرنا اس کی تائید کرنے کے برابر ہے۔ آج کی دنیا کو فلسطین کے معصوم بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہیں تو یہ تصورکیا جانا چاہیے کہ دنیا گونگی اور بہری ہوگئی ہے۔

1947کی فلسطین جنگ اور1967کی 6روزہ جنگ سے لے کر 1993 کے اوسلومعاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پرکچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ریاستوں کے دباؤ سے زیادہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکاؤ ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک جان لیں کہ پوری دنیا میں انھیں اسرائیلی صہیونی ناجائز ریاست کی ناجائز حمایت سے پوری دنیا سے نفرتیں مل رہی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ عالمی امن اور دنیا کو نئی عالمی جنگ سے بچانے کے لیے وہ اپنا کردار درست کریں اور غزہ میں جنگی جرائم بند کرائیں۔ امید کی کرن یہ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں فلسطینیوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔ PalestinianLivesMatter ایک مقبول نعرہ بن چکا ہے، لیکن کیا اس سے اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کو روکا جاسکتا ہے؟

فلسطینی عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں لیکن انھیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے عالمی برادری کی حمایت درکار ہے، اگر اسرائیلی جارحیت نہیں رکتی اور فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر خطے میں امن برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں