8

وزیر باتدبیر! – ایکسپریس اردو

مہیش داس ‘ اکبر اعظم کا وزیر تھا ۔ لوگ اسے بیربل کے نام سے پہچانتے ہیں۔ بیربل حد درجہ ذہین ‘ زمانہ شناس اور لائق انسان تھا ۔ کسی بھی سنجیدہ ترین معاملے کو فوراً بھانپ لیتا تھا ۔ اس کے بعد حد درجے دیانت داری سے بادشاہ کو اپنی رائے دیتا تھا۔ اس کی ذہنی سطح کے لوگ اکبر اعظم کے دربار میں بہت کم تھے ۔ اسی لیے اسے نورتنوں میں شامل کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب نو ہیرے ہیں ۔ اکبر اعظم واحد مغل بادشاہ تھا جس کے دور اقتدار میں ‘ برصغیر ایک عظیم سلطنت میں تبدیل ہو چکا تھا ۔ یہا ں یہ کہنا ضروری ہے کہ اکبر مکمل طور پر ان پڑھ تھا ۔

اتنی بڑی کمی کے باوجود وہ برصغیر کا سب سے کامیاب اور مؤثر شہنشاہ گردانا جاتا ہے۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ انتظامی ‘ سیاسی ‘ معاشی اور عسکری میدان میں اتنا کامیاب کیونکر ٹھہرا؟ اس کی اصل وجہ اس کے اردگرد حد درجے ذہین اور عقل مند نورتن تھے۔یعنی اس کے وزیر حد درجہ زیرک لوگ تھے ۔ اور اکبر ان کے قیمتی مشوروں کو بہت زیادہ اہمیت دیتا تھا۔

بیر بل کا ذکر کرنا حد در جہ اہم ہے ۔ کیونکہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے اپنے زمانے کا حد درجے کامیاب مشیر تھا ۔ اس کی ذہانت کو بیان کرنے کے لیے آپ کے سامنے ایک واقعہ رکھنا چاہتا ہوں ۔ بادشاہ نے ‘ بیر بل کو اپنا سفیر بنا کر ایک نزدیکی ریاست میں پیغام پہنچانے کے لیے بھجوایا۔ بیر بل جب اس ریاست میں پہنچا تو اس کی بڑی آؤ بھگت کی گئی ۔ مقامی راجہ کو معلوم تھا کہ بیر بل حد درجہ ذہین انسان ہے ۔ اس نے سوچا کہ گفتگو کرنے سے پہلے بیر بل کا امتحان لینا چاہیے ۔ چنانچہ راجہ نے ‘ اپنی ڈیل ڈول کے حساب سے تیرہ آدمی منتخب کیے ۔انھیں شاہی لباس پہنایا گیا اور وہ تمام دربار میں راجہ بن کر بیٹھ گئے ۔

بیر بل دربار میں آیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کا امتحان یہ ہے کہ اصل راجہ کو پہچان لے ۔ یہ حد درجہ مشکل کام تھا ۔ کیونکہ لباس ‘ تخت اور تمام شاہی لوازمات سب کے لیے یکساں تھے۔ بیر بل نے دستور کے مطابق کورنش بجا لائی ۔ مگر اس دورانیہ کو اس نے معمول سے تھوڑا سا طویل کر دیا ۔ اس کے فوراً بعد بیر بل نے کہا کہ تیسرے نمبر پر جو شخص براجمان ہے وہی اصل بادشاہ ہے۔ یہ بات مکمل طور پر درست تھی ۔ مقامی راجہ حیران رہ گیاکہ ان تمام راجاؤ ں میں جو ایک جیسے لگتے تھے ۔ بیر بل نے اصل بادشاہ کو کیسے پہچانا۔ حیرت سے بیربل سے سوال کیا کہ آپ نے مجھے کیونکر پہچانا کیونکہ آپ تو میری شکل سے بھی واقف نہیں ۔ بیر بل نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا کہ جب میں کورنش بجا لا رہاتھا ۔ تو تمام لوگ جو راجہ کا بھیس بدل کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھنے کے بجائے صرف آپ کو دیکھ رہے تھے ۔اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تمام نقلی بادشاہ ہیں اور اصل بادشاہ آپ ہیں۔

مقامی راجہ بیر بل کی ذہانت سے حد درجہ متاثر ہوا اور اس نے بیر بل کو شاہی خلعت سے نوازا اور بیش قیمت تحفے تحائف عطا کیے۔ یہ مستند ترین واقعہ بیر بل کی غیر معمولی ذہانت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی سے منسلک ایک اور واقعہ بھی عرض کرتا ہوں۔ اکبر نے ایک دن اپنے درباریوں کو کہا کہ اگلے دن جب وہ دربار میں آئے تو ان کے پاس مرغی کا ایک انڈا ہونا چاہیے۔

بیر بل اس دن دربار میں موجود نہیں تھا۔ اکبر یہ جاننا چاہتا تھا کہ جب وہ تمام درباریوں کو ایک انڈا حاضر کرنے کا حکم دے گا اور بیر بل خالی ہاتھ ہو گا تو اس کی کیا کیفیت ہو گی اور وہ کیا بات کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اگلے دن دربار منعقد ہوا ۔ اکبر نے حسب وعدہ تمام درباریوں کو حکم دیا کہ وہ مرغی کا ایک انڈا لے کر آئیں۔ بیر بل بھی موجود تھا اسے بھی یہی حکم دیا گیا ۔ بیر بل نے کونے کھدروں میں انڈا تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔

اسی اثناء میں تمام درباری ایک ایک انڈا لے کر حاضر خدمت ہو گئے ۔ بادشاہ نے بیربل سے پوچھا کہ آپ انڈا کیوں نہیں لا سکے ۔ وزیر باتدبیر نے ایک حد درجہ عجیب حرکت کی ۔ اس نے مرغے کی طرح آوازیں نکالنا شروع کر دیں ۔ کہنے لگا کہ یہ تمام درباری تو مرغیاں ہیں لہٰذا یہ انڈے لا سکتی ہیں ۔ مگر میں اک مرغا ہوں اور انڈے دینا میرے بس کی بات نہیں۔

مغل بادشاہ بیر بل کے اس غیر متوقع جواب سے بہت متاثر ہوا اور اس کے دل میں بیر بل کی بزلہ سنجی اور شگفتگی کی مزید دھاک بیٹھ گئی۔اکبر اعظم مکمل ان پڑھ ہونے کے باوجود اپنے ذہین وزیروں کی بدولت نصف صدی تک برصغیر پر حکومت کرتا رہا۔ اس کی کامیابی کا اصل راز اس کے نو رتن تھے۔ جنھیں آج تک یاد رکھا جاتا ہے۔

گزشتہ مہینوں میں موجودہ حکومت کے اکابرین کی کارکردگی کو دیکھیے تو ایک نقطہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ یہ لوگ زمانہ شناس نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے متضاد یہ معاملے کو بگاڑنے کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ فرماتے رہتے ہیں ۔ یہ معاملہ صرف موجودہ حکومت کا ہی نہیں بلکہ سابقہ حکومتوں کے اندر بھی وزیرباتدبیر حد درجے کم تھے۔ تحریک انصاف کے ہوا بازی کے وزیر کا یہ فرمانا کہ ہماری قومی ایئر لائنز کے اکثر پائلٹ جعلی سندوں پر بھرتی ہوئے ہیں اور ان کی اہلیت پر بھی سنجیدہ سوالات ہیں ۔ اس سے ہماری قوم ایئر لائن کو جس قدر نقصان ہوا‘وہ شاید آج تک پورا نہیں ہو سکا۔ ہو سکتا ہے کہ سابقہ وزیر سچ بول رہے ہوں۔

مگر ہر سچ کو اخباری بیان کی صورت میں لانے سے معاملات حد درجہ بگڑ سکتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ موصوف کو سابقہ وزیراعظم نے نہ عہدے سے ہٹایا اور نہ ہی ان کی باز پرس کی ۔ اس سے پرانے ادوار میں بھی تقریباً یہی حال تھا ۔ دراصل ہمارے حکمران اتنے ڈرے ہوئے لوگ ہیں کہ یہ قابل اور ذہین آدمی کواپنے لیے شدید خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے اردگرد حد درجہ عامیانہ سوچ کے لوگ موجود رہتے ہیں۔ جو قطعاً اندازہ نہیں کر سکتے کہ کس مواقع پر کونسی بات کرنی ہے اور کس بات سے گریز کرنا ہے۔

موجودہ دور بھی جعلی بزرجمہرو ں سے اٹا ہوا ہے۔ غلط موقع پر حد درجہ غلط بات کرنی یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ امریکی الیکشن کو پاکستانی حکومت کے زاویہ سے دیکھیں تو یہ کم عقلی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ کوئی بھی ایسا شخص جو امریکن سیاست کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھتا ہے ‘ اسے معلوم تھا کہ حالیہ چناؤمیں ٹرمپ جیتے گا ۔ مگر اس نقطے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اسے غلط جملوں کی نذر کر دیا گیا ۔ الیکشن سے پہلے موجودہ حکومت کے اہم ترین لوگوں نے ٹرمپ کے خلاف اتنے مشکل بیان دیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امریکی سیاست کو بالکل نہیںسمجھتے ۔

بین الاقوامی رجحانات پر ان کی گہری نظر تو کیا ‘ انھیں جاہلانہ ادراک تک نہیں ہے۔ گمان تھا کہ شاید ان کے بے ڈھنگے بیانات کی بدولت امریکا میں سیاست کا رخ تبدیل ہو جائے گا۔ جو بائڈن جو کہ موجودہ ہابریڈ نظام کا ضامن ہے‘ اس کی ٹیم دوبارہ وائٹ ہاؤس میں موجود رہے گی۔ بات یہاں نہیں ختم ہوتی ۔ ان نا عاقبت اندیش لوگوں نے امریکا اور یورپ میں مقید پاکستانی تارکین وطن کا بھی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خصوصاً امریکا میں ‘ متمول پاکستانی کتنی طاقت اور اہمیت کے حامل ہیں ۔

چنانچہ وہی ہوا کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں نے یکسوئی کے ساتھ ٹرمپ کا ساتھ دیا ۔ دولت مند تارکین وطن نے ٹرمپ کی جماعت کی بھرپور فنڈنگ کی ۔ اور وہ مسلسل الیکشن سے پہلے ٹرمپ کی ٹیم سے رابطے میں رہے۔ یہ معاملہ آج تک جاری ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ رچرڈ گرینل کے بیانات دراصل آنے والے امریکی صدر کی مرضی سے جاری ہورہے ہیں اور امریکا کے طاقتور ترین لوگ پاکستانی موجودہ نظام کے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں ۔

اس سے بھی زیادہ غیر عقل مندی کی یہ حرکات کی گئیں کہ ہمارے اعلیٰ ترین حکمران طبقے نے اپنی ٹویٹس کو ڈلیٹ کرنا شروع کر دیا۔ ان کو یہ نہیں پتا تھا کہ ٹوئٹ کو ڈلیٹ کرنا ناممکن۔ حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ اپنے ان تمام سرخیل وزراء کو گھر بھیجتے تاکہ امریکا کو مضبوط پیغام جاتا کہ ان کا انفرادی فعل ‘ حکومتی پالیسی سے مطابق نہیں رکھتا۔

اگر آج سے سیکڑوں سال پہلے بیربل ‘ اصل راجہ کو پہچان سکتا ہے تو ہمارے موجودہ حکمرانوں کو بھی ایسے عقل مند مشیر چاہئیں جو انھیں مصائب سے نکال سکیں اور ملک کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کاشکار نہ ہونے دیں۔ مگر یہ خواہش تو ہو سکتی ہے پر ایسا ہونا ناممکن ہے؟





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں