’’ پاکستان افغانستان کو کم تر سمجھتا ہے، تاریخ سے سبق سیکھیے۔‘‘ طالبان وزیر خارجہ امیر خان نے سرحدی علاقے میں حالیہ بمباری کے بعد حکومت پاکستان پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو کمزور نہ سمجھا جائے ۔
انھوں نے کابل میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تاریخ سے سبق سیکھے۔ سوویت یونین، امریکا اور نیٹو ممالک کے حملوں کا سامنا کیا۔ افغان وزیر خارجہ کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب افغانستان سے متصل پاکستانی صوبوں میں مسلسل شورش جاری ہے۔ پاکستانی مخالف قوتوں کے جنگجو روزانہ ڈیورنڈ لائن پار کر کے پاکستانی علاقے میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ ان حملوں کا براہ راست نشانہ فوجی افسران اور سویلین بنتے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے سابقہ قبائلی علاقوں میں متوازی حکومت قائم کی ہوئی ہے۔
پاکستان کے مدارس سے نکل کر طاقت بننے والے طالبان کے وزیر خارجہ کا یہ بیان افغانستان کو اپنا بازو ملک سمجھنے والوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ اس بیان کے محرکات کا پس منظر جاننے کے لیے 80 کی دہائی سے افغانستان میں ہونے والے واقعات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔ جب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان میں قائم ہونے والے کمیونسٹ نور محمد تراکئی کی حکومت کے خلاف اربوں ڈالروں کے بجٹ سے پروجیکٹ شروع کیا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئی، یوں ڈالروں کی بارش ہوگئی۔
ایک مخصوص طبقہ اور ان کی نسلیں خوشحال ہوگئیں۔ اس پروجیکٹ کے ماہرین نے اس خطے کو درہم برہم کرنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی تیار کی۔ اس حکمت عملی کے تحت ’’جہاد‘‘ کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ افغانستان کے قبائلی سرداروں کو باور کرایا گیا کہ اسلام خطرے میں ہے اور جہاد ضروری ہے، یوں بڑے بڑے افغان سرداروں نے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ ڈیورنڈ لائن عبور کی۔ پہلے بلوچستان اور پختون خوا میں آباد ہوئے پھر بہت سے سرداروں کو امریکا بھیجا گیا۔
سابق صدر ریگن نے وائٹ ہاؤس میں ان افغان سرداروں کا استقبال کیا اور جہاد کے لیے ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس مہم کی بناء پر افغان مدارس میں زیرِ تعلیم طالب علم بھی پاکستان آئے اور پاکستانی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔
امریکی اتحادی عرب ممالک کی مدد سے خاص طور پر قبائلی علاقوں اور پھر ملک میں مخصوص فرقے کے مدارس قائم ہوئے۔ امریکا کی مدد سے کابل میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے دور میں افغانستان میں تعلیم عام ہوئی۔ خاص طور پر خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا گیا، یوں ایک ترقی پسند مڈل کلاس وجود میں آئی، ایک مختصر سی سول سوسائٹی بھی پرورش پانے لگی۔
اس وقت افغانستان کے دانشوروں نے یہ الزام لگانا شروع کیا کہ سی آئی اے کے پروجیکٹ کے ذریعے افغانستان کو پاکستان اپنا پانچواں صوبہ بنانے کا خواہاں ہے، یوں افغان مڈل کلاس میں پاکستان کے لیے نفرت پیدا کی گئی۔ امریکا کی افغانستان کے معاملات میں اچانک دلچسپی ختم ہوگئی۔ افغان مجاہدین کی حکومت پورے افغانستان پر اپنی رٹ قائم نہ کرسکی اور وار لارڈز نے اپنی اپنی ریاستیں قائم کرلیں۔غیر ملکی دلچسپی سے کابل پرکئی حکمراں اقتدار میں آئے۔ شمالی افغانستان میں کابل مخالف کمانڈر رشید دوستم نے اقتدار سنبھال لیا۔
پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں جو بے نظیر بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئی تھی میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر کو وزارت داخلہ سونپ دی گئی۔ جنرل بابر پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے دور میں صوبہ سرحد کے گورنر بنے۔ پاکستانی مدارس میں زیرِ تعلیم طالب علم جنھیں افغانستان میں طالب کہا جاتا ہے بعد میں طالبان کے نام سے مشہور ہوئے ، جمع ہونا شروع ہوئے ۔
طالبان کو مدارس سے یہاں جمع کیا گیا۔ ان طالبان کو عسکری تربیت دی گئی اور باقاعدہ ایک فورس میں تبدیل کیا گیا، یوں طالبان کی فوج کو کابل فتح کرنے پر لگا دیا گیا۔ آخر کار طالبان نے کابل فتح کرلیا۔ طالبان حکومت نے رجعت پسندانہ پالیسیاں اختیار کیں۔ امریکا اور یورپی ممالک نے افغانستان سے تعلقات منقطع کرلیے مگر صرف پاکستان اور سعودی عرب نے طالبان حکومت سے تعلقات برقرار رکھے۔ سعودی منحرف اسامہ بن لادن نے طالبان حکومت کی پالیسیاں بنانا شروع کردیں۔ خواتین اور اقلیتوں کی زندگی دوبھر ہوگئی۔ حتیٰ کہ فٹ بال میچ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور اتحادیوں نے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر بنایا گیا۔ حامد کرزئی اور نیٹو کے کمانڈر پھر امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے متواتر یہ الزام لگایا کہ کوئٹہ میں افغان شوریٰ آزادی سے کام کررہی ہے۔
صدر پرویز مشرف اس الزام کی تردید کرتے رہے مگر انھوں نے اپنی کتاب میں اس بات کا اقرار کیا کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی کی بناء پر طالبان کی دوبارہ سرپرستی شروع کی گئی۔ امریکی میرین کے دستوں نے گیریژن سٹی ایبٹ آباد میں ایک مختصرکارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا، جب طالبان نے دوبارہ کابل پر قبضہ کیا تو کابل حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کو روکنے سے عملی طور پر انکارکیا۔
اب ٹی ٹی پی عملی طور پر پاکستان کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور تاریخ کا المیہ ہے کہ پاکستانی مدارس میں پلنے والے طالبان کے وزیر خارجہ پاکستان کو تاریخ سے سبق سیکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں افغان پروجیکٹ نے چند مخصوص ہستیوں کی زندگیاں تو تبدیل کردیں مگر لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو ہی تباہ نہیں کیا گیا بلکہ انتہاپسندی کو بھی فروغ ملا۔ یوں 1979میں شروع ہونے والا بحران کسی صورت ختم نہیں ہو پا رہا اور اس بحران کی نئی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں۔
تاریخ میں کئی ترقی یافتہ قوموں کے رہنماؤں نے غلط پالیسیاں بنائیں جن کے اثرات کئی صدیوں تک برقرار رہے مگر ان قوموں نے اپنی غلطیوں کو محسوس کیا اور ایسی پالیسیاں تیار کیں جن کی بناء پر ان قوموں کے لیے ترقی کے راستہ کھل گئے۔ یہی وقت ہے کہ پارلیمنٹ 1980سے جاری افغان پالیسی کی غلطیوں کی نشاندہی کرے اور ایسی پالیسیاں تیارکی جائیں کہ پورے خطے میں امن قائم ہو اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکے۔