پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے بارے میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ ان کا نام دنیا کی 500 بااثر ترین مسلم شخصیات کی فہرست میں صفِ اول کے 25 رہنماؤں میں شامل کیا گیا ہے۔
اس خبر کی صداقت کیا ہے اور کیا واقعی عمران خان کا نام ’’بااثر مسلم شخصیات‘‘ کے صف اول رہنماؤں میں شامل ہے؟
فہرست میں نام شامل ہونے کا دعویٰ 3 جنوری کو مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر پاکستانی سکھ صحافی ہرمیت سنگھ کی پوسٹ میں کیا گیا تھا جس کے بعد کئی صارفین نے اس خبر کو شیئر کیا۔
یاد رہے کہ اردن میں قائم تحقیقی مرکز رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر 2009 سے ہر سال دنیا کے 500 بااثر مسلمانوں کے فہرست شائع کررہا۔
ادارے کی رپورٹ میں ایک سیکشن قابل ذکر شخصیات کا بھی شامل ہوتا ہے جس میں ان نمایاں افراد کو جگہ دی جاتی ہے جو مرکزی فہرست میں شامل نہیں ہوپاتے لیکن بااثر سمجھے جاتے ہیں، ان شخصیات کو درجہ بندی سے ہٹ کر ان کی خدمات کی وجہ سے شامل کیا جاتا ہے۔
فیکٹ چیک کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمران خان کا نام اس فہرست میں درجہ بندی کے لحاظ سے صف اول کے 25 رہنماؤں میں شامل نہیں بلکہ سابق وزیراعظم کا نام ایڈیشن میں اعزاز کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
فیکٹ چیک سے یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے یہ غلط خبر شیئر کی جارہی ہے، جبکہ پی ٹی آئی مخالف افراد کی جانب سے بھی اس دعویٰ کو غلط ثابت کرتے ہوئے پوسٹیں کی گئی ہیں۔
فیکٹ چیک کے مطابق ’’بااثر مسلم شخصیات‘‘ 2025 کے ایڈیشن کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو حکمرانوں اور سیاست دانوں کی فہرست میں قابل ذکر شخصیات کے طور 24 ویں نمبر پر شامل کیا گیا تھا لیکن وہ سرکردہ 50 شخصیات کی فہرست کا حصہ نہیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان درجہ بندیوں اور قابل ذکر شخصیات کی شمولیت کے حوالے سے فہرست میں قاعدہ واضح کیا گیا جس کے مطابق ’سرفہرست 50 افراد کے نام پہلے لکھنے کے ساتھ ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے، اس کے بعد باقی 450 ناموں کو اعزازی طور پر فہرست میں شامل کیا جاتا ہے تاہم ان کی درجہ بندی نہیں کی جاتی جبکہ کچھ افراد کا نام ان کے متعلقہ شعبوں میں قابل ذکر خدمات کے اعتراف میں الگ سے اعزازی طور پر درج کیا جاتا ہے۔
عمران خان کا نام سیاست دانوں اور حکمرانوں کی قابل ذکر شخصیات کی فہرست میں 24 ویں نمبر پر شامل ہے لیکن وہ صف اول کے رہنماؤں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ مزید برآں وہ درجہ بندی کے لحاظ سے پہلے 50 افراد میں بھی شامل نہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح ہے کہ ٹاپ 50 کی درجہ بندی کی فہرست کے مقابلے میں اعزازی سیکشن میں درج ناموں کی ترتیب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔