6

بنگلہ دیش سے سترہ ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ

چند ماہ قبل بنگلہ دیش میں اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر، احسن منصور نے ممتاز اخبار، فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ بیگم حسینہ واجد کے ساڑھے تیرہ سالہ دور (جنوری 2009ء تا اگست 2024ء )میں ان کے حواری سیاست دانوں، صنعت کاروں اور کاروباریوں نے مرکزی بینک کے ذریعے ’’سترہ ارب ڈالر‘‘ کی منی لانڈرنگ کی۔ معنی یہ کہ یہ رقم غیر قانونی طور پہ بیرون ملک بھجوائی گئی۔

 انھوں نے اہم انکشاف یہ کیا کہ یہ جرم انجام دینے میں فوجی افسر اور سرکاری افسر مجرموں کے سہولت کار بنے رہے۔ اس انکشاف سے عیاں ہے کہ بنگلہ دیش میں پورا حکمران طبقہ ساڑھے تیرہ سال تک سرکاری خزانہ لوٹنے میں لگا رہا۔ حتی کہ کرپٹ نہ سمجھا جانے والا ادارہ یعنی فوج کے افسر بھی کرپشن میں ملوث ہو گئے۔

اِس گھمبیر صورت حال سے عیاں ہے کہ جب حکمران طبقے کی کرپشن ، آمریت اور بے حسی عروج پر پہنچ گئی تو بنگلہ دیشی عوام اُس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ واضح رہے، کئی ماہرین انکشاف کر چکے کہ دسمبر 2008ء میں منعقدہ الیکشن میں فوج نے بیگم حسینہ واجد کو جتوایا تھا۔ اسی لیے حسینہ واجد دور حکومت میں فوجی افسر بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے۔ جب ایک مملکت کا سارا حکمران طبقہ کرپٹ ہو جائے تو اس کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت اپنی صفوں سے کرپٹ افراد کا صفایا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

بینکوں پہ زبردستی قبضہ

احسن منصور نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حکمران جماعت، عوامی لیگ سے منسلک بااثر شخصیات نے ملک کے کئی بینکوں پہ زبردستی قبضہ کر لیا اور بنگلہ دیشی فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے افسر یہ قبضہ کرانے میں ان کی بھرپور مدد کرتے رہے۔ منی لانڈر ہوئے سترہ ارب ڈالر مختلف ناجائز طریقوں سے بیرون ملک بھجوائے گئے۔ مثلاً بینک کے نئے شئیر ہولڈرز کو بھاری قرضے دئیے گئے جس کی رقم باہر چلی گئی۔ نیز امپورٹ کی ان وائس میں بڑھا چڑھا کر رقومات لکھی گئیں۔ یوں یہ بھی منی لانڈرنگ کا طریق کار بن گیا۔احسن منصور نے کہا:

’’یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ عالمی سطح پہ اتنے وسیع پیمانے پر قومی بینکوں میں ڈاکہ ڈالا گیا ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسی مہا چوری انجام نہیں پائی۔ اور یہ ڈاکہ حکومت کی سرپرستی میں انجام پایا۔ حد یہ ہے کہ فوجی افسروں نے بینک سربراہوں پر رائفلیں تان کر ان سے استعفی لیے اور بھر بینک من پسند افراد کو دے دئیے گئے۔‘‘

گورنر سٹیٹ بینک نے محمد سیف العالم کی مثال دی جوایس عالم نامی ایک بڑے صنعتی گروپ کا سربراہ ہے۔ یہ بیگم حسینہ واجد کے قریب تھا۔ وہ برسراقتدار آئی تو اس کی ایما پر فوجی افسر موصوف کے سہولت کار بن گئے۔ فوجی افسروں کی عسکری مدد سے سیف نے کئی بینکوں پہ قبضہ کر لیا۔ اس نے بینکوں سے اپنے ہی اداروں کو بھاری قرضے دلوائے اور کم از کم دس ارب ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک بھجوا دئیے۔

بنگلہ دیش ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے انکشافات

تین نومبر 2024ء کو بنگلہ دیش ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے سربراہ ، افتخار الزماں نے ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ وہ عبوری حکومت میں بنائے گئے ایک نئے ادارے، اینٹی کرپشن ریفارمز کمیٹی کے صدر بھی ہیں۔ یہ ادارہ قانون سازی کر رہا ہے تاکہ حکومت میں کرپشن روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا سکیں۔

پریس کانفرنس میں افتخار الزماں نے انکشاف کیا کہ پچھلے ساڑھے تیرہ سال کے دوران ہر سال بنگلہ دیش سے بارہ تا پندرہ ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ گویا اس عرصے میں ریاست کو کم از کم 55 1ارب ڈالر کے بھاری سرمائے سے محروم کر دیا گیا۔ اسی لیے یہ دیکھ کر تعجب نہیں ہوتا کہ بنگلہ دیش میں حکمران طبقے میں شامل بیس پچیس ہزار لوگ تو پچھلے تیرہ سال میں بے انتہا امیر ہو گئے جبکہ بقیہ سترہ کروڑ عوام کی زندگیاں تبدیل نہیں ہو سکیں۔ وہ آج بھی بھوک، بیماری، بے گھری ، بے روزگاری ، مہنگائی جیسے عفریتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

 بنگلہ دیش ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے سربراہ نے ان طریقوں پر بھی روشنی ڈالی جن کے ذریعے رقم ناجائز طور پہ باہر بھجوائی گئی۔ایک معروف طریق تو یہی رہا کہ انوائسنگ میں بے ایمانی کی گئی۔ مذید براں ملک میں جو غیرملکی کام کر رہے تھے، انھیں بھی منی لانڈرنگ میں استعمال کیا گیا۔

جو کمپنیاں بیرون ملک افرادی قوت کو بھجواتی ہیں، ان کی وساطت سے بھی بھاری رقم بابر بھجوائی گئی۔ورک پرمٹ بھی منی لانڈرنگ کا ذریعہ بن گئے۔ غرض جس مجرمانہ طریقے سے چوری چھپے ڈالر باہر بھجوائے جا سکتے تھے، لالچی اور حریض بنگلہ دیشیوں نے اسے استعمال کیا اور چند ٹکوں کی خاطر اپنا دین و ایمان اور ضمیر برباد کر دیا۔

افتخار الزماں نے انکشاف کیا کہ موبائل مالیاتی سروسز بھی ڈالروں کی منی لانڈرنگ میں معاون بنی رہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک ،احسن منصور کے انکشاف انگیز انٹرویو پہ تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا’’گورنر نے سترہ ارب ڈالر کا جو عدد بتایا ، وہ کم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ رقم صرف اسٹیٹ بینک کی وساطت سے باہر بھجوائی گئی۔ اگر بنگلہ دیش کے سبھی بینکوں سے کی گئی منی لانڈرنگ کا حساب لگایا جائے تو یہ عدد کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔بیگم حسینہ واجد کے لالچی طاقتور ساتھیوں نے جرائم انجام دینے کی حد کر دی اور وہ سرعام قوانین کی دھجیاں بکھیرتے رہے۔ وہ اسی لیے دیدہ دلیر ہوئے کہ جنھوں نے قانون نافذ کرنا تھا، وہی ان کی پشت پناہی کرنے میں لگ گئے۔‘‘

پریس کانفرنس میں صحافیوں نے اس امر کی سمت توجہ دلائی کہ ہنڈی کا عمل بھی منی لانڈرنگ میں استعمال ہوا۔ نیز بیرون ملک مقیم بنگلہ دیشی بھی مجرموں کے کام آئے۔ان کی مدد سے بیرون ملکوں میں جائیدادیں خریدی گئیں۔اسی طرح ملک سے جو لوگ سیروتفریح کرنے یا علاج کرانے باہر گئے، اس کے ذریعے بھی ڈالروں کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ اور حیران کن و خوفناک بات یہ ہے کہ غیر قانونی طور پہ رقم باہر بھجوانے میں بنگلہ دیش کی وزارت قانون اور اٹارنی جنرل مجرموں کے مددگار بنے رہے۔

دوران پریس کانفرنس افتخار الزماں نے بعض مغربی ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا ، بنگلہ دیش میں اگر کوئی غیرملکی یہ چاہے کہ وہ ڈھاکہ میں گلشن کے پوش علاقے میں قیمتی گھر خرید لے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ مگر اکثر ممالک میں کوئی کرپٹ بنگلہ دیشی قیمتی جائیداد خریدنا چاہے تو حکومت اس سے کوئی تفشیش نہیں کرتی، الٹا اسے ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

یہ ملک گولڈن ویزہ دیتے یا پھر ایسی پُرکشش اسکیمیں نکالتے ہیں کہ غیرملکی کسی رکاوٹ کے بغیر گھر ، دفتر وغیرہ خرید لیں۔ یہی وجہ ہے، ایک سابق بنگلہ دیشی وزیر بیرون ممالک تین سو سے زائد جائیدادیں خریدنے میں کامیاب رہا۔ اور یہ تو محض ایک مثال ہے۔ بنگلہ دیش کے تقریباً ہر امیر کرپٹ نے بیرون ملک جائیداد خرید رکھی ہے۔

غرض دنیا میں ایسے ممالک ہیں جو منی لانڈرنگ کے لیے باقاعدہ مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے غیرقانونی طریقے سے رقم باہر بھجوانا کافی آسان ہو چکا۔ مگر کوئی ملک یہ چاہے کہ اس کے سرکاری خزانے سے لوٹی گئی رقم واپس مل جائے تو اسے شدید دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پہ بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ برطانیہ میں منی لانڈرنگ کی گئی رقم اسے واپس مل جائے تو پہلے اسے برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنا ہو گا جسے انجام دیتے کئی برس لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد طویل قانونی کارروائیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا لوٹی گئی رقم پانے میں کئی عشرے لگتے ہیں۔ اور تب بھی رقم کا کچھ حصہ ہی واپس ملتا ہے۔

سبق کیا ملا؟

افتخار الزماںنے بتایا کہ ایک ملک کی حکومت اگرچہ تعاون کرے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ مثلاً سنگاپور کی حکومت نے سائمنز کیس کے دوران بنگلہ دیشی گورنمنٹ سے خوب تعاون کیا۔ یہی وجہ ہے، 2007 ء سے 2013ء کے درمیان بنگلہ دیش سنگاپور لانڈر کیے گئے نو ارب تیس کروڑ ڈالر کی خطیر رقم واپس پانے میں کامیاب رہا۔انھوں نے بتایا کہ نگران حکومت نے چوری شدہ رقم واپس لانے کی خاطر امریکا، برطانیہ اور یوپی یونین سے بات چیت شروع کی ہے۔ تاہم خیال ہے کہ اس کے دور میں شاید ہی کچھ رقم واپس مل سکے۔

بنگلہ دیش کی صورت حال سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کے حکمران طبقے کو ہر قسم کی ناجائز اور غیرقانونی سرگرمیوں سے دور رہنا چاہیے۔ صرف قانون پر عمل کر کے ہی پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنایا جا سکتا ہے۔

خاص طور پہ قوانین نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ ہر حال میں قانون شکنی سے باز رہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاک فوج کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف مختلف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور اب وہ کورٹ مارشل کی زد پر ہیں۔ افواج پاکستان کے فوجی افسروں کو ہر حال میں اصول وقانون پہ عمل درآمد کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ یہاں بھی بنگلہ دیش جیسے گھمبیر حالات جنم لے سکتے ہیں۔

 اندرون خانہ کھل کر کرپشن

حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انکشافات ہو رہے ہیں کہ بھگوڑی وزیراعظم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مختلف اقسام کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس نے مخالفوں کو اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے لیڈر عوامی لیگی حکومت کے جس شدید ظلم وستم کا نشانہ بنے، اس کی نظیر کسی اور ملک میں کم ہی ملتی ہے۔ دس سالہ دور کے دوران عوامی لیگ کے رہنماؤں نے اندرون خانہ کھل کر کرپشن کی اور ارب پتی بن گئے۔

اب محمد یونس کی حکومت میں ان سبھی کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف تفشیش ہو رہی ہے۔ یہ لازم ہے کہ حسینہ واجد حکومت کو جرنیلوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی، اس لیے وہ علی الاعلان من پسند اقدامات کرتی رہی۔ گویا بنگلہ دیشی فوج کو بھی سابقہ حکومت کے جرائم میں برابر کا قصور وار ٹھہرانا چاہیے۔ یہ تو جب عوام بڑی تعداد میں حسینہ واجد حکومت کے خلاف سڑکوں پہ نکلی تو فوج کو اس کی حمایت سے دستبردار ہونا پڑا۔

سابقہ حکومت میں سیف الزماں چودھری منسٹر آف لینڈ تھا۔ قطر کے ٹی وی چینل، الجزیرہ نے حال ہی میں اس بنگلہ دیشی وزیر پر ایک تحقیقی رپورٹ نشر کی۔ اس سے انکشاف ہوا کہ موصوف نے جی بھر کر سرکاری خزانے کو لوٹا ۔ یہی نہیں، لوٹ مار کی ساری رقم وہ بیرون ممالک بھجوا کر وہاں اس نے بیش قیمت پلاٹ اور گھر خرید لیے جن کی مالیت فی الوقت پچاس کروڑ ڈالر بتائی جاتی ہے۔ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک سو انتالیس ارب روپے بنتی ہے۔

ایک وزیر کی داستان ِ کرپشن

پچپن سالہ سیف الزماں چٹاگانگ کے ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ عوامی لیگی رہنما، اخترالزماں چودھری کا بیٹا ہے جو مشہور زمانہ بدمعاش تھا۔ بنگلہ دیشی صحافی اپنی تحقیق سے یہ  افشا کر چکے کہ اختر الزماں نے اپنے غنڈوں کی مدد سے  1999ء میں یونائٹیڈ کمرشل بینک پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اس کے چیرمین کو قتل کر دیا تھا۔ تاہم وہ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر سزا سے بچ نکلا۔سیاسی اثرورسوخ کے سہارے ہی اخترالزماں نے اپنی صنعتی ایمپائر بھی کھڑی کر لی۔ مختلف کارخانے کھول کر وہ دولت کمانے لگا۔ اس نے اپنے قریبی عزیز ، محمد سیف العالم کی بھی پشت پناہی کی ۔یہ شخص بھی کرپٹ اور بے ایمان آدمی ثابت ہوا۔

سیف الزماں چودھری اپنے رسوخ کے سہارے2019ء میں وفاقی سطح پر منسٹر آف لینڈ بنا۔ اس حیثیت سے وہ اونے پونے داموں اپنی کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے دینے لگا۔ ان ٹھیکوں کی رقم بڑھا چڑھا کر لکھی جاتی تاکہ حکومت سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کی جا سکے۔ نیز وزارت کے جو ٹینڈر اس کی کمپنیوں سے متعلق نہ ہوتے، انھیں من پسند افراد کو دیتے ہوئے بھاری رشوت لی جاتی۔ اس طرح سیف الزماں کے گھر پیسے یعنی بنگلہ دیشی کرنسی، ٹکوں کی ریل پیل ہو گئی۔ وہ اربوں ٹکوں پہ مشتمل یہ ساری رقم بیرون ممالک بھجوانے میں کامیاب رہا۔

بنگلہ دیش میں قانون ہے کہ ایک شہری سال میں زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار ڈالر بیرون ملک بھجوا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بنگلہ دیشی شہری کی بیرون ملک جائداد ہے، یا اسے باہر سے کوئی آمدن ہو رہی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے ٹیکس فارموں میں ان کا ذکر کرے۔ سیف الزماں چودھری نے وفاقی وزیر کے ذمے دار عہدے پر فائز ہوتے ہوئے یہ ملکی قوانین توڑ ڈالے۔

 انویسٹی گیٹیو صحافی واضح طورپہ نہیں جان سکے کہ سیف الزماں نے کیونکر اپنے وطن سے بھاری رقم بیرون ممالک بھجوائی۔ خیال ہے کہ حوالہ اور ہنڈی کے چینل اس ضمن میں کام آئے۔ نیز باہر جاتے مسافروں کے ذریعے بھی مبی لانڈرنگ کی گئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بینکوں کی وساطت سے یہ جرم ہوا۔ یاد رہے، سیف الزماں یونائیٹڈ کمرشل بینک کا نائب سربراہ بھی تھا۔

سیف الزماں کا دعوی ہے کہ اس کا کاروبار مشرق وسطی اور یورپ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی کاروبار سے حاصل شدہ رقم سے یورپ میں جائیداد خریدی گئی۔ مگر سیف الزماں نے اپنے کسی ٹیکس ریٹرن میں ان جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا جو ازروئے قانون جرم ہے۔ اسی لیے حسینہ واجد حکومت ختم ہونے کے بعد سیف الزماں ، اس کی بیوی اور تمام رشتے داروں و احباب کے سب بینک اکاؤنٹ منجمند کر دئیے گئے تاکہ مزید منی لانڈرنگ نہ ہو سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیف الزماں پچھلے پانچ برس سے اپنے ٹیکس ریٹرن میں دکھا رہا تھا کہ اس کی سالانہ آمدن صرف سوا لاکھ ٹکہ ہے۔ غرض موصوف نے بے ایمانی، دھوکے بازی اور لالچ کی نئی مثال قائم کر دی۔

 تحقیق سے انکشاف ہوا کہ صرف برطانیہ میں سیف الزماں360 گھروں یا پلاٹوں کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ موصوف نے نیویارک، امریکا اور دبئی میں بھی قیمتی پراپرٹیاں خرید رکھی ہیں۔ تفتیش سے یہ بھی عیاں ہوا کہ امریکا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات …تینوں ممالک میں اسے ایسے وکیل اور بینکار مل گئے جن کے مکمل تعاون کی بدولت سیف الزماں اپنا پراپرٹی سلطنت کھڑی کرنے میں کامیاب رہا۔ ان وکلا اور بینکاروں کا دعوی ہے کہ انھوں نے سیف الزماں کی منی ٹریل چیک کی تھی، یعنی اسے رقم کہاں سے موصول ہوئی اور اس کو قانونی پایا۔ مگر الجزیرہ کی رپورٹ سے عیاں ہے کہ تینوں ملکوں میں بنگلہ دیش سے رقم منہ لانڈر کر کے باہر لائی گئی اور پھر اس سے بیش قیمت جائیدادیں خریدی گئیں۔

سیف الزماں کے جرائم صرف ایک مثال ہے۔ اگر بنگلہ دیشی حکومت نے بیگم حسینہ واجد کے تمام وزرا کی مالی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تو یقینًاً دنیا والوں پہ مذید حیران کن انکشافات ہوں گے۔ درراصل جب ایک مملکت میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام کمزور ہو تو حکمران طبقے میں شامل سبھی کرپٹ افراد کو کُھل کر کرپشن کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس لیے بھی معاشی طور پہ مضبوط ہو گئے کہ وہاں چیک اینڈ بیلنس یا جواب دہی کا نظام بہت مضبوط ہو گیا۔ اب وہاں کوئی سرکاری اہلکار یا سیاست داں آسانی سے کرپشن نہیں کر سکتا۔ اور اگر کرتا ہے تو جلد یا بدید قانون کے پھندے میں پھنس جاتا ہے۔

پاکستان کے حکمران طبقے کو بھی مملکت میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام طاقتور بنانا چاہیے تاکہ کسی لالچی کو کرپشن کرنے کے مواقع نہیں مل سکیں ۔ سزا کا خوف اس کو راہ ِ حق پر گامزن رکھے۔ قوانین پر عمل درآمد ہی سے پاکستان ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

2009 ء کی ناکام فوجی بغاوت

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ایک کمیشن کو 2009 ء کی ناکام فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے جس میں مبینہ “غیر ملکی” حمایتیوں کا کردار بھی شامل ہے۔ اس بغاوت میں 57 فوجی افسروں سمیت 74 افراد مارے گئے تھے۔

اس پرتشدد بغاوت نے جنوبی ایشیائی قوم میں صدمے کی لہریں دوڑا دی تھیں۔ فوج کی طرف سے بغاوت کرنے والوں کو کچلنے کے ساتھ معاملہ ختم ہوا۔ متعدد فوجی افسروں اور سویلینز کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔بغاوت کے بارے میں پچھلی سرکاری تحقیقات نے الزام عام فوجیوں میں موجود برسوں کے غصے کو ٹھہرایا جنہوں نے محسوس کیا کہ تنخواہوں میں اضافے اور بہتر علاج کے لیے ان کی اپیلوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔لیکن یہ تحقیقات شیخ حسینہ کے دور میں کی گئی تھیں جنہیں اگست میں ایک انقلاب کے ذریعے وزیر اعظم کے طور پر معزول کر دیا گیا ۔

شیخ حسینہ کے زوال کے بعد سے بغاوت میں تشدد میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اہل خانہ تحقیقات دوبارہ کھولنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بارہا حسینہ پر الزام لگایا ہے کہ جب وہ نو منتخب ہوئی تو اس نے اپنی طاقت کو تقویت دینے کے لیے فوج کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنا یا۔ اہل خانہ نے اس سازش میں بھارت کے ملوث ہونے کا بھی الزام لگایا ہے۔ان دعووں سے نئی دہلی کو مشتعل کرنے کا امکان ہے جس نے فوری طور پر الزامات کا جواب نہیں دیا۔اس کمیشن کا سربراہ میجر جنرل (ر) اے ایل ایم فضل الرحمان کو بنایا گیا ہے۔

یاد رہے، باغیوں نے فروری 2009 میں بنگلہ دیش رائفلز (BDR) کے نیم فوجی دستے کے ہیڈکوارٹر سے ہزاروں ہتھیار چرا لیے تھے اس سے پہلے کہ وہ بیرکوں میں قتل و غارت گری شروع کر دیں۔بغاوت تیزی سے پھیل گئی۔ہزاروں فوجیوں نے ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا اور فوج کی طرف سے اسے کچلنے سے پہلے بغاوت کرنے والوں سے وفاداری کا عہد کیا۔اس قتل عام کے بعد ہزاروں افراد کو پکڑ کر خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا، کیونکہ حسینہ کی اس وقت کی نو منتخب حکومت نے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔سیکڑوں فوجیوں کو موت سے لے کر چند سال تک کی سزائیں دی گئیں۔ اقوام متحدہ نے بنیادی معیارات پر پورا نہ اترنے پر اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

حسینہ کے آہنی ہاتھوں سے چلنے والی حکمرانی کو نئی دہلی کی حمایت حاصل تھی اور 77 سالہ بوڑھی خاتون کا بھارت میں مستقل قیام دونوں پڑوسی اقوام کے درمیان تعلقات کشیدہ کررہا ہے۔ڈھاکہ نے کہا ہے کہ اس نے بھارت سے حسینہ کو واپس بھیجنے کی درخواست کی ہے، تاکہ وہ عدالتوں میں “قتل عام، قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم” کے الزامات کا سامنا کرسکیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں