6

آخری اسٹیشن – ایکسپریس اردو

ماجد میرا بڑا ہی پیارا دوست ہے۔ اتنا پیارا کہ میں جب بھی اسے کہیں دو داز جانے کو کہتا ہوں، یا میرا کسی اجڑے چکے مندر یا گردوارے یا پھر ریلوے اسٹیشن کی خاک چھاننے کا ارادہ ہوتا ہے تو میں ماجد کو ساتھ چلنے کا بولتا ہوں تو وہ فوراً جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

اگر وہ کہیں مصروف بھی ہو تو پروگرام کچھ دن آگے ضرور کرتا ہے مگر جانے سے منع نہیں کرتا۔ حالاں کہ ماجد کو تاریخ، ثقافت، برصغیر کی تقسیم یا اجڑی چکی عمارات میں کوئی دل چسپی نہیں۔ یہاں تک کہ ماجد کو تصاویر بنوانے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے کا بھی کوئی شوق نہیں مگر پھر بھی وہ صرف میری محبت میں نہ صرف میرے ساتھ چلتا ہے بلکہ دوران سفر میری ہر بات ایک بیبے بچے کی طرح مانتا ہے۔ ایسے دوست کہاں کسی کو میسر آتے ہیں۔

…………

تقسیم کے حوالے سے ایک انتہائی چالاک اور خوب صورت شخصیت جواہرلعل نہرو کی ہے۔ خدا لگتی بات ہے کہ نہرو جیسے سخت اور چالاک لوگ ہمیشہ سے ہی میرے پسندیدہ رہے ہیں۔ قائد جیسے معصوم لوگ کبھی بھی میرے پسندیدہ احباب کی فہرست میں نہیں رہے مگر یہ بات سچ ہے کہ قائد بھی کوئی عام شخصیت تو نہ تھے۔

شیر کے منہ سے نوالا چھین لینا، انڈیا سے پاکستان کو الگ کرنے سے بہت آسان تھا اور قائد نے کام کر دکھایا۔ نہ جانے کس عقل مند نے نہرو کے کان میں سرگوشی کی کہ لاہور پر بارڈر لگا دو تاکہ یہ مسلمان اس بارڈر سے پرے پرے رہیں، مبادا یہ لوگ پیچھے سے اپنے کزنز (افغانوں) کو بلا لیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان سے تقریباً ہر دور ہی میں حملہ آور دہلی پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں اور انہیں راہ داری ہمیشہ پنجابی ہی فراہم کرتے تھے، ماسوائے مہاراجا رنجیت سنگھ کے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ رنجیت سنگھ اس قدر مضبوط حکم رانی نہ کرپاتا اگر اس کے پاس ہری سنگھ نلوہ نہ ہوتا۔ شیر سے مقابلے کرنے اور پھر اسے جیتنے میں ہری سنگھ کا کوئی ثانی نہ تھا۔

تبھی تو اسے نلوہ کا خطاب ملا۔ رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوہ کے ذریعے ان درانیوں (افغانیوں) کو ایسی نتھ ڈالی کہ کسی کی پنجاب پر پر میلی آنکھ تو دور، صاف نگاہ ڈالنے کی بھی جرأت نہ ہوئی۔ رنجیت سنگھ نے لاہور کی بادشاہی مسجد، بھیرہ کی شیر شاہ سوری مسجد سمیت مسلمانوں کی بڑی بڑی املاک کا جو حال کیا، میں اس سے لاعلم نہیں۔

اس لیے مجھے اس پر درس دینے مت بیٹھیے گا۔ میرے لیے میری زمین (پنجاب) بہت مقدم ہے اور میری زمین کے سپوت کے تو پھر کیا ہی کہنے۔ بات پھر کہیں اور نکل گئی۔ بات ہورہی تھی ان سرگوشیوں کی کہ نہرو کو بھی خدشہ تھا کہ اگر انگریزوں کی موجودگی میں تقسیم کا عمل مکمل نہ ہوا تو یہ پنجابی اپنے کزنز کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی دن دہلی پر بارڈر لگا دیں گے، کیوں کہ دہلی افغانوں اور پنجابیوں سمیت سب کا ہی کرش رہا ہے۔

رنجیت سنگھ کی ’’پنجاب‘‘ کہلانے والی سلطنت تو شروع ہی دہلی سے ہوتی تھی حالاں کہ ہمارے جنوبی پنجاب سمیت بہت سے علاقوں کا رنجیت سنگھ کے پنجاب میں کوئی کام نہیں تھا۔ نہرو نے بھی دہلی کی بجائے لاہور پر بارڈر لگا دینا مناسب سمجھا مگر وہ مائی کا لعل پانی اور کشمیر کی اہمیت سے واقف تھا۔ نہرو نے جس وقت تقسیم کا فیصلہ کیا، اسی وقت یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ پاکستان کو دو اہم چیزیں کسی صورت نہیں دینی۔ ایک کشمیر اور دوسرا پانی اور دیکھ لیں کہ اس نے اپنا کہا سچ کر کے دکھایا۔ بارڈر بھی لاہور پر ہی لگایا جب کہ ہم پٹھان کوٹ، فیروزپور سمیت نہ جانے کس کس علاقے مل جانے کی خواہ مخواہ خوشیاں منا رہے تھے۔

ہمیں کشمیر سے بھی دور ہی رکھا اور جب کشمیر نہیں رہا تو پھر پانیوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمارے قبائل نے نہرو کا منصوبہ ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پورا بلتستان بھی نہرو سے چھین لیا اور تھوڑا سا کشمیر بھی۔ وہی وقت تھا جب کشمیر بھارت سے لیا جاسکتا تھا۔ نہرو پر وہ وقت سخت تھا مگر اس نے مشکل سے مشکل حالات میں اپنے اعصاب پر قابو رکھا۔ لومڑی کی سی چالاکی دکھاتے ہوئے کشمیر کا مقدمہ خود ہی سلامتی کونسل میں لے کرگیا تاکہ اسے فوجیں سری نگر اور لداخ میں اتارنے کا وقت مل سکے۔

قائد بے چارے کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا کہ سلامتی کونسل کے کہنے پر جنگ بندی کی جائے اور قبائلیوں کو جہاں وہ تھے، وہیں روک دیا جائے۔ قائد کے پاس جنگ جاری رکھنے کا آپشن ہی نہیں تھا۔ پاکستان اس وقت نوزائیدہ بچہ تھا، اس لیے قائد دنیا کے بڑے ممالک سے بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔ قائد تو چلو معصوم تھے کہ سلامتی کونسل کے کہنے پر جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ اس شرط پر کہ انڈیا وہاں ریفرنڈم کروائے گا مگر قربان جاؤں اپنے شدید معصوم قبائلیوں پر جنھوں نے قائد کے کہنے پر جنگ بندی کردی، جس کا فوری فائدہ نہرو نے اٹھایا۔

اپنی افواج کو سری نگر میں اتار دیا اور لداخ سمیت پورے خطے پر قبضہ کرلیا اور پھر ہمارے ہاتھ کیا آیا۔۔۔۔ جُھنجھنا، جس سے ہم آج تک کھیل رہے ہیں۔ نہرو کی ایک اور چالاکی دیکھیں کہ خود اپنی موت تک (1964) بھارت کا وزیراعظم رہا اور اسی دوران جب پاکستان اپنے تقریباً نو وزیراعظم بدل چکا تو خود شرمندہ ہونے کی بجائے ہمیں باتیں سناتا تھا کہ ’’میں ایک دن میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا، جتنے پاکستان وزیراعظم بدلتا ہے۔‘‘

ظفر وال، شکر گڑھ روڈ پر سفر کرتے ہوئے مختلف گائیکوں کی آوازیں میرے کانوں میں رس گھول رہی تھیں مگر ان سب آوازوں میں ایک بات مشترک تھی۔ سب نظموں اور گیتوں کا شاعر شیو کمار بٹالوی تھا۔

میں تقسیم، جواہر لعل نہرو، قائد اعظم، اپنے دریاؤں سمیت نہ جانے کس کس بات پر سوچ رہا تھا کہ جی پی ایس والی لڑکی کی آواز نے میری سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ جی پی ایس والی لڑکی بتانے لگی کہ شیو کمار بٹالوی کا آبائی علاقہ آ چکا ہے اور ظفر وال شکر گڑھ روڈ پر بائیں جانب مڑ کر پانچ سو میٹر سفر کرنے کے بعد میں اپنی منزل ترک شدہ تحصیل شکر گڑھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاؤں گا۔ دو سے تین منٹ کے بعد میں ماجد کے ساتھ تحصیل شکر گڑھ ریلوے اسٹیشن پر تھا جب کہ میرے استقبال کے لیے شیو کمار بٹالوی کی خوشبو پہلے سے وہاں موجود تھی۔

سرحدیں صرف ہم انسانوں کے لیے بنی ہیں یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ ہم انسانوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہ صرف ہم انسانوں کو ہی آر پار آنے جانے سے روک سکتی ہیں۔ آج تک یہ سرحدیں نہ تو فن کو روک سکی ہیں اور نہ ہی روک سکیں گی۔ پنجابی ادب کا بہت زیادہ پڑھا، گایا اور سنا جانے والا شاعر شیو کمار بٹالوی 23 جولائی 1936 میں تحصیل شکر گڑھ کے نواحی گاؤں بڑا پنڈ لوٹیاں میں پیدا ہوا۔

محبتوں کا شاعر شیو کمار ابھی صرف گیارہ سال کا ہی تھا کہ انڈیا تقسیم ہوگیا۔ شیو کمار کا گاؤں پاکستان میں شامل ہوا تو بہت سے سکھوں کی طرح شیو کا خاندان بھی بھارت میں ضلع گرداس پور کے شہر بٹالہ کی جانب ہجرت کرگیا۔ وہ یہ کم سن شاعر شیو کمار بٹالوی بن گیا۔ صرف 28 سال کی عمر میں ہی بھارت کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ساحر اکادمی ادبیات ایوارڈ بھی جیتا۔

 شیو کمار بٹالوی ہر وقت سوچوں میں گم رہتے اور نظریں جھکائے زمین کو تکتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی گیارہ روزہ میلے میں شرکت کی تو وہیں کسی لڑکی کو دل دے بیٹھے مگر پھر اچانک وہ لڑکی میلے سے غائب ہو گئی۔ بٹالوی صاحب اس لڑکی کو ڈھونڈنے کے لیے اس کے گاؤں کی جانب نکل پڑے اور اسی وقت ایک نظم ’’اشتہار‘‘ بھی لکھی۔

اک کُڑی جِدا نام محبت

گم ہے

گم ہے

گم ہے

شیو کو بعد میں پتا چلا کہ وہ لڑکی اب اس دنیا میں ہی نہیں رہی۔ شیو کمار بٹالوی نے بارہ کتب تخلیق کیں۔ بٹوارے سمیت نہ جانے کیا کیا دکھ اس عظیم شاعر نے اپنے اندر سما رکھے تھے۔

جسڑ کے قریب ہی شیو کمار کی ٹرین کو روکا گیا تھا، قتل و غارت ہوئی تھی اور ان ہی لاشوں نے نیچے کہیں دب کر گیارہ سالہ شیو کمار نے اپنی جان بچائی تھی۔ اپنی گیارہ سالہ زندگی جس علاقے میں شیو نے گزاری تھی، اپنی گلیوں میں جن لڑکوں کے ساتھ وہ کھیلتا رہا تھا، ان ہی کے بڑے جب شیو کمار سمیت نہ جانے کس کس خاندان کی جانوں کے دشمن بنے ہوں گے تو یہ سب دیکھ کر شیو جیسے حساس دل پر معلوم نہیں کیا گزرتی ہوگی۔ اور یہ کوئی یک طرفہ معاملہ نہ تھا، دونوں طرفہ ہی بدلے کی آگ لگی تھی۔ کس چیز کا بدلہ؟ اس بات کا جواب دونوں اطراف کے لوگوں کے پاس نہیں تھا۔

جدید پنجابی گیتوں کا شاعر جسے پنجابی زبان کا شیلے بھی کہا گیا، کثرتِ شراب نوشی کے باعث بہت چھوٹی عمر میں ہی جگر کے سرطان میں مبتلا ہوگیا اور یوں 6 مئی 1973 کے دن شیو کمار بٹالوی اس دنیا سے رخصت ہو گیا مگر جاتے جاتے ہمیں بے پناہ خوب صورت گیت اور نظمیں دے گیا۔ شیو کمار بٹالوی، پنجابی ادب کا عظیم شاعر بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہتا ہے:

 ’’میں بھاگنا چاہتا ہوں‘‘

 ’’کہاں بھاگنا چاہتے ہیں؟‘‘

’’اپنے آپ سے دُور‘‘

 ’’پر کیوں؟‘‘

’’کیا ہے زندگی؟ میرا خیال ہے کہ ہم سب لوگ ناں!۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وہ slow suicide  ایک آرام سے موت مر رہے لوگ ہیں۔ تو وہی بات ہے۔ اور یہ ہر انٹلیکچول کے ساتھ ہوگا، جو بھی جی رہا ہے، اُس کے ساتھ یہ تو ٹریجڈی رہے گی۔ وہ مر رہا ہے ہر پَل۔

شیو کمار بٹالوی نے اپنے شعر میں اپنے عشق کو مخاطب کرتے کہا تھا کہ تم ایسے پرندے ہو جس کو میں دیسی گھی کی چوری بنا کر کھلاتا ہوں لیکن تمھیں تو کھانے کو میرا ماس (جان) چاہیے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ میری محبوبہ (سفر) بھی میرے ساتھ چاہتی ہے۔ بات تھوڑا اور آگے بڑھاتے ہیں اگر آپ کا تعلق محبوبہ کے ساتھ طویل رفاقت کا ہو اور یاداشتیں بھی بے تحاشا ہوں تب تعلق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

شیو کمار بٹالوی نے صاف صاف کہا تھا؛

’’جو بھی بودک ہے اس کے ساتھ یہ دکھانت تو رہے گا، یہ ٹریجڈی تو رہے گی۔‘‘

ویسے تو مجھے شیو کمار بٹالوی کے بہت سے گیت پسند ہیں مگر ’’اک تیری اکھ کاشنی‘‘ کا کوئی جوڑ نہیں۔ آپ کو شیو کمار بٹالوی کا نہ جانے کون سا گیت پسند ہے۔ پسند یقیناً بہت سارے ہوں گے مگر شاید علم نہ ہو کہ یہ گیت شیو کمار بٹالوی کا ہے۔

آپ دربار کرتار پور سے چک امرو کی پٹی پر سفر کریں تو تقسیم کی بہت سی ہول ناک کہانیاں آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

حالاں کہ وہ حیا کا زمانہ تھا۔ نظریں سب کی صاف ہی ہوا کرتیں تھیں مگر پھر بھی جہاں کبھی کسی نے اپنا ٹانکا لگانا ہوتا تو وہ لگا ہی لیتا۔ اگرچہ کہ لوگ زنانے تانگے کے آگے اور پیچھے دونوں جانب ہی کپڑا لگاتے تھے مگر پھر بھی جس کی قسمت ہاری ہو تو اسے اُس پنڈلی سے بھی عشق ہوجاتا جو تانگے کا کپڑا زرا سا سرکنے کی وجہ سے نظر آتی تھی اور یہی اس شام بھی ہوا تھا۔ چودھویں کا چاند شام ڈھلنے سے ذرا پہلے ہی آسمان پر نظر آ رہا تھا۔

کرتا پور دربار اور اس کے آس پاس کی ہر شے چاندنی میں نہائی ہوئی تھی۔ گلاب سنگھ اپنے سب یار بیلیوں کے ساتھ دربار صاحب پر متھا ٹیک کر آ رہا تھا۔ متھا تو سب کب کا ٹیک چکے تھے مگر اس دن ہسیاں کھڈیاں کرتے وقت نہ جانے کیسے، کہاں اور کب بیت گیا، کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔ سب یار بیلی سڑک پر جا رہے تھے کہ پیچھے سے ایک تانگے کی آواز دور سے آتی سنائی دے رہی تھی۔ ٹانگہ ذرا قریب ہوا تو کوچوان کی بلند آواز بھی کانوں میں پڑنے لگی۔

پردہ آ رہا ہے، پردہ آ رہا ہے۔ گلاب سنگھ سمیت سب جوان ایک طرف ہوگئے۔ جب بھی کوچوان پردہ آ رہا ہے، پردہ آ رہا ہے کی صدا لگاتا تو سبھی سمجھ جاتے کہ بڑے گھر کی عورتوں کا تانگا آ رہا ہے اور پھر سب ایک طرف ہو جاتے۔ تانگے کے ہر جانب کپڑا پڑا ہوتا تاکہ کوئی زنانہ کو دیکھ نہ سکے۔

ویسے بھی اس وقت عزتیں سب کی سانجھیں ہوا کرتی تھیں۔ تانگا جب گزر چکا تو دربار صاحب کے پار راوی کی جانب سے آتی ہوا سے تانگے کا کپڑا ہلکا سا نیچے سے سرکا اور اندر سے کسی بالی عمر کی لڑکی کی پنڈلی نظر آنے لگی جس کے پیروں میں چاندی کی نئی بنی ہوئی پازیبیں تھیں۔ گلاب سنگھ نے ایک لمحے کے لیے نظر آنے والی ان ہی پنڈلیوں پر دل دے دیا۔ ان ہی لمحوں میں تانگا گلاب سنگھ سے دور اور بہت دور چلا گیا۔

 جوں جوں تانگا دور جاتا جا رہا تھا، گلاب سنگھ کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ گلاب سنگھ کا دھیان اب اسی تانگے کی طرف لگا رہتا۔ گلاب سنگھ جہاں کبھی کبھی متھا ٹیکنے کے لیے دربار صاحب جایا کرتا تھا، اب ہر دوسرے تیسرے روز متھا ٹیکنے جاتا۔ سب ہی کو شک تھا کہ گلاب سنگھ کو دربار صاحب پر ہی کوئی سکھنی پسند آ گئی ہے اور وہ اسی لیے بار بار دربار صاحب جا رہا ہے مگر کوئی نہ جانتا تھا کہ اصل میں گلاب سنگھ تو تانگے میں ایک لمحے کو نظر آنے والی پنڈلیوں پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ مہینے دو بعد قدرت کو گلاب سنگھ پر ترس آ ہی گیا۔

 گلاب سنگھ نے باباگرو نانک کے دربار پر ایسی تڑپ سے ماتھا رکھا کہ اسی شام واپسی پر دیدارِ یار ہوگا۔ ہوا ایسی چلی کہ پورے کا پورا پردہ ہی اڑ کر دور جا گرا۔ نینوں سے نین ملے تو گلاب سنگھ نے جانا کہ تانگے میں بیٹھی لڑکی بھی اسے ہی تکتے جا رہی تھی۔ نظروں ہی نظروں میں دونوں نے اقرارِمحبت کیا اور ہلکاپھلکا میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دونوں کے ملن میں رکاوٹ مذہب تھا۔ گلاب سنگھ ایک سکھ تھا۔ بابا گرو نانک کا ماننے والا تھا جب کہ شرارتی آنکھوں والی اور نین مٹک مٹک کر باتیں کرنے والی تارا مسلمان تھی۔ دونوں ہی اپنے ملن کو لے کر دکھی تھے کہ بٹورا ہوگیا۔

 گلاب سنگھ اور اس کا سارا خاندان دوپہر بارہ کی ریل سے دربار کرتارپور سے بھارت جارہا تھا۔ مہاجرین کے لیے یہ خاص ریل ناروال سے چلائی گئی تھی۔ اسے بارہ بجے چک امرو سے نکلنا تھا اور دربار کرتار پور صاحب سے ہوتے ہوئے جسڑ آنا تھا اور پھر ناروال سے ہوتے ہوئے شاہ درہ باغ اور پھر بھارت چلے جانا تھا۔

گلاب سنگھ اور تارا دونوں نے ہی بھارت بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔ تارا کا نام بھی ایسا تھا کہ اسے کوئی نہ پہنچان پاتا آیا یہ کوئی سکھ لڑکی ہے یا مسلمان۔ چک امرو سے ریل بڑی دیر سے چلی اور دربار صاحب پہنچتے پہنچتے اسے تقریباً شام ہوگئی۔ جسڑ ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے پہنچتے ریل نے رات کردی۔ فسادات کا پہلے ہی خطرہ تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ریل کو چلنے میں جان بوجھ کر دیر کی جا رہی ہے۔ ریل میں گلاب سنگھ اور تارا دونوں ہی الگ الگ بوگیوں میں سوار تھے۔ تارا کے گھر میں ابھی تک کسی کو بھی تارا کے بھاگ جانے کا علم نہیں ہوا تھا۔

حملہ آوروں میں تارا کا بھائی شوکت بھی شامل تھا۔ ہر لڑکے نے ایک ایک لڑکی اٹھائی اور قریب کھیتوں میں لے گئے۔ تیس سال سے اوپر کے جوانوں نے پہلے لوٹ مار کی، پھر لڑکیوں کی جانب ہوئے۔ اس لیے جوان لڑکوں کے ہاتھ ذرا اچھا مال آ گیا۔ شوکت جب بوگی میں سوار ہوا تو تارا نے اسے دیکھ کر اپنی کیسری چُنی سے منہ چھپالیا۔ شوکت کی نظر فوراً اسی چُنی پر گئی مگر اس نے زیادہ توجہ نہ دی کیوں کہ تارا کا بھارت جاتی گاڑی میں کوئی کام نہ تھا۔ شوکت ایک لمحے کو تارا کے قریب ہوا مگر اس چُنی کی وجہ سے اسے تارا کو چھونے میں حیا آئی۔ وہ آگے بڑھ گیا اور کسی دوسری لڑکی کو دبوچ لیا جب کہ تارا کسی اور کی بانہوں میں چلی گئی۔

جب مردوں کے ارمانوں کا پانی دو تین بہہ چکا تو ریل گاڑی کو جسڑ سے جذبہ خیرسگالی کے تحت بھارت روانہ کردیا گیا۔ اگلی صبح شوکت کو دو خبریں ایک ساتھ ملیں۔ پہلی یہ کہ جسڑ ریلوے اسٹیشن کے قریب سے کچھ لڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں، دوسری یہ ہے کہ تارا کل رات سے گھر نہیں آئی۔ بجلی کی طرح شوکت کے دماغ میں اس کیسری چُنی کا خیال آیا۔ وہ فوراً جسڑ کی طرف دوڑا۔ پلیٹ فارم پر لڑکیوں کی لاشیں پڑی تھیں جن میں سے ایک لڑکی کے منہ پر وہی کیسری چُنی تھی۔ شوکت نے کانپتے ہاتھوں سے لڑکی کے منہ پر سے کیسری چُنی کو پرے کیا۔ نیچے تارا کی کھلی اور پھٹی آنکھیں شوکت کا منہ چڑا رہی تھیں۔

میں گھر سے اپنے اُن ترک شدہ ریلوے اسٹیشن کو دیکھنے کے لیے نکلا تھا جن پر سے تقسیم کے وقت ریل گزر کر یا تو سرحد کے دوسری جانب گئی یا پھر دوسری جانب سے اس طرح آئی۔ اس فہرست میں مریال ریلوے اسٹیشن تو بالکل بھی نہیں تھا اور نہ ہی شکرگڑھ ریلوے اسٹیشن پر تقریباً ختم ہوچکی اسٹیشنوں کی فہرست میں ایسا کوئی نام درج تھا۔ شکرگڑھ ریلوے اسٹیشن پر شیو کمار بٹالوی کی خوشبو پانے کے بعد میں پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے چک امرو کی جانب تھا کہ چک امرو سے پانچ چھ کلو میٹر پہلے ہی سڑک کنارے ایک نیلا لوہے کا بنا ہوا سرکاری بورڈ دیکھا جو سڑک کے بائیں جانب مڑنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ بائیں جانب نگاہ کی تو ایک پرانی خوب صورت سی عمارت کھڑی تھی جس کے ماتھے پر سبزے کا پیارا سا جھومر تھا۔ جھومر کے نیچے ہی مریال لکھا تھا۔

آس پاس کوئی نہ تھا، ماسوائے ایک بکرا بکری کے جوڑے کے۔ دونوں ہی آپس میں سر جوڑے بیٹھے تھے۔ مجھے پہلے احساس نہ ہوسکا کہ بکرا کون سا ہے اور بکری کون سی۔ میں نے اندازے سے زیادہ پیارے نظر آنے والے جانور کو گود میں اٹھانا چاہا تو اس نے ایک زوردار سینگھ میرے بازو پر مارا۔ معلوم ہوا کہ موصوف بکرا صاحب تھے اور میرے یہاں آنے پر کافی غصے میں بھی دکھائی دیتے تھے۔ کچھ دور ہی پٹری پر ایک بابا جی بیٹھے تھے۔ دور سے وہ بابا جی کم اور ایک کہانی زیادہ لگتے تھے۔ ذرا قریب ہوا تو واقعی وہ کہانی ہی تھے۔ مریال سے جڑی جو کہانی ان بابا جی نے سنائی، وہ ان ہی کی زبانی سنیں گے تو لطف آئے گا۔       

( جاری ہے )





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں