غزل
کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوتا
تجھ سے جب رابطہ نہیں ہوتا
پوچھنے آئے لوگ مجھ سے ترا
مجھ سے تیرا گلہ نہیں ہوتا
اب بچھڑ کر اداس بیٹھا ہوں
کاش تجھ سے ملا نہیں ہوتا
پھر وہ قبلہ بدلتا رہتا ہے
عشق جس کا خدا نہیں ہوتا
فاصلے بڑھ چکے ہیں اُن سے مگر
منقطع رابطہ نہیں ہوتا
(احمد عالمگیر ہراج۔ کبیر والا)
غزل
اہلِ مسند سے شناسائی کا مطلب کیا ہے
خیر سے شر کی پزیرائی کا مطلب کیا ہے
آ ،ذرا چلتے ہیں عباس کے روضے کی طرف
تا کہ تجھ پر بھی کھلے بھائی کا مطلب کیا ہے
تم نے پوچھے ہی نہیں ہم سے معانی، ورنہ
ہم بتاتے تمہیں تنہائی کا مطلب کیا ہے
اب یہاں تو بھی نہیں ہے، کوئی تجھ سا بھی نہیں
ایسا عالم ہے تو بینائی کا مطلب کیا ہے
اس نے پھر رقص کیا، بارِ ملامت لے کر
پوچھا درویش سے رسوائی کا مطلب کیا ہے
ہم کسی آنکھ کے آئینے میں اترے اکرامؔ
تب کھلا ہم پہ کہ گہرائی کا مطلب کیا ہے
(اکرام افضل ۔مٹھیال،اٹک)
غزل
وقت کے ساتھ تعلق بھی بدل جاتا ہے
اس لیے مجھ پہ ترا وار بھی چل جاتا ہے
اے مری جان کے دشمن یہ ترا نقش و نگار
ہاتھ پھیلاؤں تو دامن سے نکل جاتا ہے
گفتگو کرتا ہوں میں رات گئے کمرے میں
دل مرا ٹوٹا ہوا گر کے سنبھل جاتا ہے
آئنہ کیا مجھے تصویر دکھائے گا تری
جس طرف ہاتھ لگاتا ہوں پھسل جاتا ہے
کیسے سلجھاؤں میں اس دل کی کہانی کو ندیمؔ
آج جاتا ہے کوئی اور نہ کل جاتا ہے
(ندیم ملک ۔کنجروڑ ،نارووال)
غزل
لوگ جلتے ہیں کہیں کا نہیں رہنے دیتے
حیف دریا کو بھی دریا نہیں رہنے دیتے
زخم دیتے ہیں دلاسے بھی وہ دیتے ہیں مگر
تیرے بیمار کو اچھا نہیں رہنے دیتے
جانے کس خوف میں جیتے ہیں یہ دنیا والے
اپنے سائے کو بھی اپنا نہیں رہنے دیتے
ہم تو دریا ہیں مگر خون کے رشتے اکثر
ہم کو پانی کی طرح سا نہیں رہنے دیتے
بھری محفل میں اکیلا ہوں تو دکھ ہوتا ہے
دوست احباب تو تنہا نہیں رہنے دیتے
(عمیرعزیز ۔ فیصل آباد)
غزل
غالب کے غیب سے نہ گلِ آفتاب سے
مصرع ہوا ہے تیرے اُمڈتے شباب سے
ماں کے اٹھے ہیں ہاتھ مرے واسطے حضور
تقدیر حل نکالے گی خود ہی کتاب سے
یہ آگ ہے تو خوب جلائے گی شہر کو
شبنم اٹھا کے لایا ہوں تازہ گلاب سے
آنسو گرا تو اس پہ اثر کچھ نہیں ہوا
مٹتی نہیں ہے تیرگی ٹوٹے شہاب سے
دو چار کہکشاؤں پہ قدرت نہیں تری
اک راستہ تو ہو گا پرے اس حجاب سے
طوفان آ کے جا بھی چکا گھر بھی لٹ گیا
خطرہ نہیں ہے کوئی مجھے سیلِ آب سے
عالم خدا کا وہم و گماں سے بہت ہے دور
کیوں ڈھونڈتے پھرے ہو تم اس کو نصاب سے
اشرف کہا ہے مجھ کو تو کاتب ہیں کس لیے
ادنیٰ کریں گے جرح بھلا کس حساب سے
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)
غزل
ہے یہی التجا اداسی میں
تو ملے بارہا اداسی میں
ایک بس خود کو کھو دیا میں نے
ورنہ کیا کچھ نہ تھا اداسی میں
مجھ میں تھیں خامیاں تواتر سے
وہ سنوارا گیا اداسی میں
تجھ کو گنتے تھے ہنسنے والوں میں
تو بھی دکھنے لگا اداسی میں
رشک آتا ہے ایسے لوگوں پر
جن کو ہنسنا پڑا اداسی میں
غیر کا ہاتھ تھامنے والے
جھیل اپنی سزا اداسی میں
میں سناتی رہی غزل اپنی
مجھ کو جو بھی ملا اداسی میں
خود کو برباد کر دیا میں نے
وہ بھی، اچھا بھلا اداسی میں
کوئی شکوہ نہیں کسی سے عمودؔ
میں نے سب سے کہا اداسی میں
(عمود ابرار احمد۔کراچی)
غزل
صحرا کی کوکھ سے کوئی دریا تلاش کر
اوجھل ہے آنکھ سے جو وہ دنیا تلاش کر
مسجد نہ ڈھونڈ اور نہ کلیسا تلاش کر
ہے وہ مکینِ قلب اُدھر جا تلاش کر
حیرت زدہ سے ہیں سبھی آغاز کے نقوش
اَسرارِ کن کاگمشدہ چہرہ تلاش کر
جس جا نہ خواہشات کا پھر قتلِ عام ہو
جا شہرِخونچکاں میں وہ قریہ تلاش کر
ممکن ہے دشتِ عشق بھی سیراب ہو سکے
ہمراہِ خضر جا کوئی دجلہ تلاش کر
لہجے کی تلخیوں کا تدارک نہیں کوئی
جا گفتگو کا ڈھنگ سے لہجہ تلاش کر
قلزمؔ یزیدیت کی جو تقلید کر گیا
اس بد نسب کا مت کبھی شجرہ تلاش کر
(سجیل قلزم۔فیصل آباد)
غزل
تری نظروں میں آنا چاہتا ہوں
میں یہ اعزاز پانا چاہتا ہوں
مری ہمت ابھی ٹوٹی نہیں ہے
میں دھوکہ اور کھانا چاہتا ہوں
بری لگتی ہے میری بات تم کو!
تمہیں آگے بڑھانا چاہتا ہوں
وہ دشمن کے قبیلے سے ہے لیکن
اُسے اپنا بنانا چاہتا ہوں
یہ دنگے کون کرواتا ہے چھپ کر
میں یہ نکتہ اٹھانا چاہتا ہوں
علم ہاتھوں میں ہے ابنِ علی کا
خوشی سے سر کٹانا چاہتا ہوں
نہیں ہے پھوٹی کوڑی تک مرے پاس
ستارے گھر بھی لانا چاہتا ہوں
سنا ہے فیض ؔتم پینے لگے ہو!
میں یہ افواہ اڑانا چاہتا ہوں
(فیض الامین فیض ۔کلٹی، مغربی بنگال،بھارت)
غزل
حسن کا بار میرے سر سے اتار
تیر و تلوار میرے سر سے اتار
دب نہ جاؤں میں اِس کے بوجھ تلے
اپنی دستار میرے سر سے اتار
تاکہ ظاہر ہو تیری رحم دلی
اپنی تلوار میرے سر سے اتار
رات کے ایک بجے خوفِ خدا؟
ایسا خود دار میرے سر سے اتار
کیا بھروسہ جہان داروں کا
یہ طرف دار میرے سر سے اتار
کھیل کو کھیل کر انا نہ بنا
جیت اور ہار میرے سر سے اتار
میں ہوں محور یہ میرا دوش نہیں
اپنی پرکار میرے سر سے اتار
(جام جمیل احمد – رحیم یار خان)
غزل
مسکراہٹ چل بسی ہے آنکھ میں کاجل نہیں
دل اداسی کا جزیرہ ہے جہاں کویل نہیں
ایک وہ جو احسنِ تقویم کی تمثیل ہے
ایک میرا دل ہے جس میں اب کوئی ہلچل نہیں
عشق مرشد ہے تو وحشت عاملِ بنگال ہے
زندگی کے راستے کی ایک ہی مشعل نہیں
بے خودی میں شوخیاں ہیں رائیگانی کا جہاں
آشنائے راز ہے وہ خود سے جو اوجھل نہیں
پہلے اس کے دیکھنے سے دل کا صحرا تر ہوا
اب کہ ہے وہ ابرِ نیساں جس سے کچھ جل تھل نہیں
عالمِ ارواح سے دنیا، لحد اور حشر تک
آدمی کی منزلیں ہیں ماں کا یہ آنچل نہیں
آنکھ کے تھل سے اٹھی ہے خشک اشکوں کی نمو
یہ بخاراتِ محبت ہیں حسن بادل نہیں
(محمد حسن رضا حسانی۔ کلاس والہ، پسرور، سیالکوٹ)
غزل
میں جس کے واسطے پاگل رہا ہوں
تعجب ہے اسی کو کَھل رہا ہوں
بہ ضد ہے کوئی مجھ کو روکنے پر
مگر میں اپنی دھن میں چل رہا ہوں
کوئی دیوار کیا روکے گی مجھ کو
تقاضا وقت کا ہے ٹل رہا ہوں
کروں کوشش تو ناممکن نہیں کچھ
عبث میں ہاتھ اپنے مل رہا ہوں
مہ و انجم مری ضو سے ہیں روشن
میں اک سورج کی صورت ڈھل رہا ہوں
مرے ہمزاد آ سینے سے لگ جا
ترے ہی واسطے بے کل رہا ہوں
سلگتے دشت میں اے نور بن کر
کسی کے ہاتھ کی چھاگل رہا ہوں
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی ،انڈیا)
غزل
چونکہ بہتر اسے ملا مجھ سے
اس لیے ہو گیا جدا مجھ سے
زندگی جس کے نام کی میں نے
ہائے اس کو بھی ہے گلہ مجھ سے
لوگ ویسے ہی جل گئے ورنہ
کان میں کچھ نہیں کہا مجھ سے
آ گیا ایک سے جفا کر کے
کہہ رہا ہے وفا نبھا مجھ سے
مجھ سے ناراض ہو گئے جب تم
زندگی ہو گئی خفا مجھ سے
جب گداؤں سے مانگ لوں عاطفؔ
پھر تو بہتر ہے اک گدا مجھ سے
(عاطف خان۔ڈھکی خورہ آباد، ضلع چارسدہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی