4

منشی احمد جان – ایکسپریس اردو

زبان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ہے، لیکن ابتدا میں اشاروں، کنایوں سے بات اورمدعا سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن بعد میں ارتقائی مراحل سے گزرکر اس میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ زبان نے رسم الخط کی شکل اختیارکر لی اور پھر ماہرین لسانیات نے اس میں مزید آسانیاں پیدا کر دیں۔

اس کے قواعد و ضوابط وضع کئے اور پھر ہر زبان کو علاقائی بنیادوں پر الگ الگ پہچان ملی جس کے باعث رابطوں میں آسانیاں آنے لگیں۔ ایسے ہی ماہرین کی وجہ سے پشتو کو بھی ایک الگ اور منفرد پہچان ملی،جن میں منشی احمد جان بھی شامل ہیں کیوں کہ پشتو زبان کی تاریخ، منشی احمد جان جیسے عظیم نام کاذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔

انہوں نے ایک صدی قبل برصغیر میں جدید پشتو ادب کی بنیاد رکھی۔ ان کے آباؤ اجداد غزنی افغانستان سے ہجرت کرکے برصغیر آئے۔ والد کا نام قاضی عبدالرحمان خان محمد زئی تھا جو خود بھی انیسویں صدی میں افغانستان کے بہت بڑے دانشور اور پشتو زبان کے ماہر تھے۔ افغان حکم ران انہیں اپنی مملکت کے ایک بڑے سکالر، فلسفی، مدبر اور ماہر قانون و مذہب کا درجہ دیتے تھے۔ انہیں بیک وقت کئی زبانوں پر عبورحاصل تھا، انہوں نے ایچ ہنری ورٹیری (جنہوں نے باقاعدہ پشتو سیکھی تھی) اورسرفرانسس برٹن (برصغیرکی مختلف زبانوں کے ماہر) کو پشتوکی تعلیم سے روشناس کرایا تھا۔

قاضی احمد جان جو بعد میں منشی احمد جان کے نام سے مشہورہوئے، 1870ء میں خیبرپختون خواکے جنوبی علاقے بنوں میں پیداہوئے۔ چوں کہ ان کے والد خود ایک عالم وفاضل شخص تھے، اس لیے انہوں نے ان کی علمی وادبی لحاظ سے بہترین تربیت کی، جس کے باعث وہ کم سنی ہی میں کئی علوم میں ماہر ہوگئے۔ خصوصاً منشی احمد جان کی علم کے میدان میں پہلی دلچسپی بھی زبانوں کو سیکھنے کی تھی، جس پر انہوں نے خاص توجہ مرکوز رکھی۔

انہوں نے انگریزوں کے ابتدائی مشکل دورکو قریب سے دیکھا جب وہ خیبر پختون خوا جیسے پرآشوب علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے یہاں کے مخلتف آزادی پسند گروپوں سے نبردآزما تھے اور اس سلسلے میں انہیں خاصی مزاحمت کا بھی سامنا تھا۔ انگریزوں نے یہاں پرمقبولیت پانے اوراس علاقے کو زیرنگیں لانے کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا جس کے تحت انہوں نے پہلے پہل پشتو سیکھی اور پھر یہاں کے رسم و رواج سے جان کاری حاصل کی۔ اس سلسلے میں انہیں انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے پختون افراد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انہی چند افراد میں ایک نوجوان قاضی احمد جان اپنی اچھی انگریزی کی وجہ سے مشہور تھا، انگریز انتظامیہ نے اس نوجوان کی خدمات پشتو سیکھنے کے لیے حاصل کیں۔

اپنی مشہور کتاب ’’میموریزآف اے جونئیر آفیسر‘‘ جسے ویلیم بلیک وڈ نے 1951ء میں شائع کیا، میں منشی احمد جان کے متعلق لکھا: ’’مجھے میرے دوستوں نے پشتو کے ایک استاد کے متعلق مشورہ دیا، تمام نے اس کی پرزور حمایت کی، وہ احمد جان تھا وہ ہرلحاظ سے بہت باوقار تھا۔ اس کے پڑھانے کا انداز بہت بے مثال تھا۔ ‘‘ ہینکر نے ان کے متعلق پورا باب تحریر کیا۔ منشی احمد جان کے بے شمار شاگرد رائل انڈین اکیڈمی آرمی میں بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے اور بہت سوں نے اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم میں نام کمایا جن میں فیلڈ مارشل منٹگمری سرفہرست تھے۔ لارڈ ویول بحیثیت وائسرائے اپنے الوداعی دورہ پشاور کے سلسلے میں یہاں آئے تو وہ خصوصی طورپر اپنے استاد منشی احمد جان سے ملے، اپنے مجلے میں لارڈ ویول نے انہیں منشی احمد جان کے نام سے یادکیا۔

اپنے تعلیمی کیرئیر کے دوران احمد جان نے منشی فاضل کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا جس کی وجہ سے سب انہیں ’منشی آف پشاور‘ پکارنے لگے۔ 1921ء میں تیسری افغان جنگ اورتحریک خلافت سے خیبرپختون خوا کے پختونوں میں اصلاحات کی لہر اٹھی۔ اس دوران منشی احمد جان نے پشتو زبان کے سب سے پہلے مجلے ’’سرحد اور افغان ‘‘ میں پشتو مضامین لکھنا شروع کئے، انہوں نے ایسے وقت میں جب پشتو نثر کونظراندازکیا جارہاتھا اس کے تحفظ کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کئے۔

ان کے حوالے سے نوشہرہ کے علاقے پبی سے تعلق رکھنے والے نامور سکالراورلکھاری ڈاکٹر شیر زمان طائزئی اپنے ایک کالم رائز اینڈ رائز پشتو شائع شدہ روزنامہ ڈان دوہزارایک میں رقم طراز ہیں: ’’اٹھارویں اورانیسویں صدی میں پشتو ادب پر ایک سکوت سا طاری تھا، احمد تریوشاہ رضوانی نے انیسویں صدی کے آخری دوعشروں 1882ء تا 1900ء میں پنجاب یونی ورسٹی میں پشتو آنرزکے نصاب کے لیے دو کتابیں تحریر کیں، جب کہ اسی سمے منشی احمد جان کی پشتو نثر کی مشہور کتاب ’’داقصہ خوانی گپ‘‘ بھی منظر عام پر آئی جس کا دوسرا ایڈیشن سی ایل پرٹ نے 22 جنوری 1922ء کو شائع کیا۔

منشی احمد جان نے لکھنے کا روایتی انداز ترک کرکے نیا انداز متعارف کرایا۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، ان میں ’’دا قصہ خوانی گپ‘‘ کے علاوہ اس کا انگلش ایڈیشن (جو ملٹری آفیسرز کے لیے ٹیکسٹ بک تھا) ’’ھغہ دغہ‘‘ اوراس کا انگلش ایڈیشن اورگنج پشتو سمیت بہت سی دیگر کتب شامل ہیں۔ ان میں بہت سی اب دستیاب نہیں۔

اس کے علاوہ ان کے لاتعداد انگلش و پشتو کے تراجم بھی شامل ہیں جن میں قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی بے شمار نظمیں قابل ذکر ہیں اور پشتو زبان وادب کی بے پناہ خدمت اوراس کی مختلف اصناف، مختصر لوک کہانیوں، پشتو ناول، ڈرامہ ، مضامین ، تاریخ ،گرائمر، سوانح عمری، بولنے کے انداز اورکالم نویسی الغرض ہرصنف کی ترقی وترویج میں بے پناہ کردار اداکرنے پر حکومت برطانیہ نے انہیں خان بہادر و ممبرآف برٹش امپائر ان این ڈبلیو ایف پی کے اعزازات سے نوازا۔

اس قسم کے اعزازات کے ساتھ عموماً نقد انعامات اور زمین کے قطعات بھی دئیے جاتے تھے، مگرمنشی احمد جان نے یہ نقد انعامات اور زمین حکومت وقت کو شکریہ کے ساتھ واپس کردی اورصرف اعزاز کا ٹائٹل اپنے پاس رکھا۔ اسی طرح انہیں کنٹونمنٹ بورڈ پشاورکا اعزازی ممبر بھی منتخب کیاگیا جہاں انہوں نے پشتو زبان کی ترقی کے لیے بے پناہ کام کیا۔

وہ ایک ایک لمحہ کسی نہ کسی کام میں مگن دکھائی دیتے رہتے، جس نے ان کی صحت پر کافی اثر بھی ڈالا۔ اس دوران ان کے معالجین نے انہیں دیگر سرگرمیوں سمیت تحریر و تحقیق کے کام سے منع کیا لیکن انہوں نے اپناکام اسی جذبے اورلگن سے جاری رکھا۔ بیماری کی حالت میں اپنا تمام وقت اپنی ذاتی لائبریری جس میں تقریباً دس ہزار سے زائد کتابیں موجودتھیں، مطالعے میں گزارنے لگے، اسی دوران ان پر جان لیوا بیماری کا حملہ ہوا اورتین روزموت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد 16 اکتوبر 1951ء کودار فانی سے کوچ کرگئے۔ انہیں پشاورصدر کے قبرستان میں آسودہ خاک کر دیا گیا۔

منشی احمد جان اپنے وقت میں پشتو ادب کے ہرمیدان پر چھائے رہے، وہ ایک دیانت دار شخص تھے جنہوں نے کبھی اصولوں پرسمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب قدامت پسند پختون اپنی بچیوں کو پرائمری تعلیم بھی نہیں دلواتے تھے، انہوں نے ایک مثال قائم کر دی اوراپنی بیٹیوں ہاجرہ جان اوراسماء جان کو لدھیانہ اورلاہور تعلیم کے لیے بھیجا اور وہ صوبے کی پہلی پختون لیڈی ڈاکٹروں میں سے تھیں۔ ان کے سات بیٹے تھے جن میں ایک محمد جان خان پاکستان سول سروس میں کمشنر کے عہدے تک پہنچے جب کہ چار بیٹے بریگیڈئر محمود جان خان،کرنل مصطفیٰ جان، میجرمرتضیٰ جان اور کرنل شاہد جان نے پاک آرمی میں خدمات انجام دیں۔

ان کے آبائی گھر سے انیسویں اور بیسویں صدی کی پشتو، انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور ہندوستانی زبانوں پر مشتمل تقریباً ایک ہزار نادر کتب اوردیگر قلمی نسخے ملے۔ اس کے علاوہ ان کے ہمراہ پشتو ادیبوں، شعراء اوراعلیٰ قومی حکام کے ساتھ خط وکتابت کے خطوط بھی ملے ہیں۔ ان خطوط میں وائسرائے ہند لارڈویول اور لیڈی ویول، کمانڈران چیف انڈین آرمی کے خطوط قابل ذکرہیں۔ ان کے پوتے ڈاکٹرعلی جان خان نے ان کے آبائی گھر سے ملنے والے قیمتی اثاثہ جات، نادرکتابوں، قلمی نسخوں، دستاویزات اورخطوط کو محفوظ کرلیا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کر سکیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں