18

مقبوضہ انسانوں کا کرسمس – ایکسپریس اردو

بائبل کی روایت کے مطابق یسوع مسیح کی صلیب پر قربانی کے بعد ان کے ایک حواری فلپ نے پیغامِ مسیح پھیلانے کے لیے یروشلم سے غزہ کی جانب سفر کیا۔فلپ گلیلی میں شادی کی اس تقریب میں بھی شریک تھے جہاں یسوع مسیح نے پانی کو سرخ شراب میں بدلنے کا معجزہ دکھایا تھا۔

فلپ نے غزہ کی بت پرست آبادی کو دائرہ مسیحت میں داخل کیا۔ پانچویں صدی عیسوی میں فلپ کی وفات کے بعد ان کے مداحوں نے سینٹ پورفیرس چرچ تعمیر کیا۔اس کا شمار مسیحی دنیا کی قدیم ترین عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔

ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی آمد کے بعد سینٹ پورفیرس چرچ کو مسجد میں بدل دیا گیا اور بارہویں صدی میں صلیبی قبضے کے دوران اس چرچ کی اصل حیثیت بحال ہو گئی۔

چھ سے سات فیصد فلسطینی آبادی مسیحی مذہب کی پیروکار ہے ( لیلی خالد اور فلسطینی اتھارٹی کی سابق وزیرِ خارجہ ڈاکٹر حنان اشراوی کا نام تو آپ نے سنا ہوگا )۔

زیادہ تر فلسطینی مسیحی اردگرد کے عرب ممالک اور لاطینی امریکا مراجعت کر گئے ہیں۔مگر اس وقت بھی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ فلسطینی مسیحی اسرائیل کی حدود میں ، سینتالیس ہزار مقبوضہ غربِ اردن میں اور لگ بھگ گیارہ سو غزہ میں آباد ہے۔

ان میں وہ مسیحی بھی شامل ہیں جن کے آباؤ اجداد کو انیس سو اڑتالیس میں جبراً مسلمان فلسطینیوں کے ہمراہ صدیوں سے آباد گھروں سے ایک ساتھ نکالا گیا۔بہت سوں کو انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گھر چھوڑ کر مغربی کنارے یا غزہ منتقل ہونا پڑا یا یکسر اجنبی دنیا میں بسنا پڑ گیا۔

زیادہ تر فلسطینی مسیحی کاروبار کرتے ہیں یا پھر ملازمت پیشہ ہیں اور مزاجاً شہری ہیں۔سات اکتوبر کے بعد سے غزہ اور غربِ اردن کے مسیحوں کو دیگر عربوں کی طرح ایک ہی طرح کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

مثلاً اسرائیلی بمباری سے غزہ میں ایک سو چار مساجد اور تین چرچ جزوی یا تباہ ہو چکے ہیں۔ان میں ہولی فیملی کیتھولک چرچ ، غزہ بیپٹسٹ چرچ کے علاوہ قدیم ترین گریک آرتھوڈوکس سینٹ پورفیرس چرچ شامل ہے۔

سینٹ پورفیرس پر حملے کے وقت یہاں لگ بھگ پانچ سو مسلمان اور مسیحی باشندوں نے پناہ لے رکھی تھی۔فضائی حملے میں اٹھارہ شہادتیں ہوئیں اور چرچ کے ہزار برس سے زائد پرانے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔

جب کہ قریب ہی واقع ال اہلی العربی عرب ایوانجلیکل اسپتال بمباری کے پہلے ہفتے میں ہی ایک میزائل حملے میں جزوی طور پر تباہ ہو گیا اور وہاں موجود پناہ گزینوں اور مریضوں میں سے سو سے زائد جاں بحق ہو گئے۔نزدیک ہی غزہ کی پارلیمنٹ بھی تھی جسے اسرائیلی فوج نے بارود لگا کے اڑا دیا۔وائی ایم سی اے اسپورٹس اینڈ کلچرل سینٹر بھی تباہ ہو گیا۔

جہاں تک مقبوضہ غربِ اردن کا معاملہ ہے تو وہاں آباد مسیحی آبادی بھی اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کی چیرہ دستیاں ثابت قدمی سے جھیل رہی ہے۔

دنیا کا ہر مسیحی بیت الحم کے چرچ آف نیٹیوٹی سے واقف ہے روایت ہے یہاں یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی۔کرسمس کے دنوں میں دنیا کے کونے کونے سے مسیحی یہاں پہنچتے ہیں۔یہاں کے باشندوں کا ایک بڑا روزگار مذہبی سیاحت سے وابستہ ہے۔اور مرکزی منیجر اسکوائر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔

مگر اس بار بیت الحم کی گلیوں میں چوبیس اور پچیس دسمبر کو نل بٹا سناٹا تھا۔خصوصی عبادات میں بھی مقامی مسیحی برادری شریک ہو پائی۔بازاروں اور گھروں کے باہر کرسمس کی روایتی سجاوٹ بھی نظر نہیں آئی کیونکہ فلسطین کی چرچ اتھارٹی نے اس ماہ کے شروع میں ہی کرسمس کی تقریبات غزہ میں جاری قتل و غارت کے سبب احتجاجاً منسوخ کر دیں۔

اس بار چرچ آف نیٹوٹی کے باہر جو کرسمس نیٹوٹی سین بنایا گیا۔اس میں دکھایا گیا کہ نومولود یسوع مسیح ملبے کے درمیان پڑے ہیں۔مقامی ریورن منظر اسحاق کے بقول اگر آج مسیح کی پیدائش ہوتی تو ملبے کے درمیان ہوتی۔اور یہی باقی دنیا کے لیے ہمارا کرسمس پیغام ہے۔

فلسطین کے مسیحی علما کی جانب سے اپنے ہی ہم مذہب جو بائیڈن کو ایک مشترکہ خط لکھا گیا کہ جس خطے کی برکت سے دنیا بھر میں مسیحت پھیلی وہی دنیا اس مقدس خطے میں امن کی مخالفت میں جنگ بندی کی مزاحمت کس منطق کے تحت کر رہی ہے۔ہم صرف مسیحی ہی نہیں بلکہ ہم فلسطینی بھی ہیں اور ہم بھی برابر سے غیر انسانی سلوک کی چکی میں پس رہے ہیں۔

مثلاً بیت الحم میں مقیم ایک ستاسی سالہ خاتون نوحا حلیمی ترازی نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے آنگن میں کرسمس ٹری نہیں لگایا۔کیونکہ ان کا کوئی پوتا پوتی نواسا اس بار ان کے بنائے ہوئے تحائف وصول کرنے کے لیے نہیں پہنچا۔نوحا کہتی ہیں کہ خوشی کا تعلق دل سے ہے اور دل میں آج اتنا حوصلہ نہیں بچا۔نوحا حلیمی اتنی خوش خلق ہیں کہ محلے والوں نے انھیں امِ شادی کا لقب دے رکھا ہے۔

نوحا کی اپنی پیدائش غزہ شہر کے محلے ریمال میں ہوئی جو آج ملبے کا ڈھیر ہے۔وہ بیس برس تک وہیں رہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ انیس سو سڑسٹھ میں غزہ پر اسرائیل کے قبضے سے پہلے اتنا سکون تھا کہ وہ تنہا رات کو کبھی کبھی سمندر میں تیراکی کے لیے اتر جاتی تھیں۔جب جون انیس سو سڑسٹھ میں غزہ پر اسرائیل کا فوجی قبضہ ہوا تو نوحا قاہرہ یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھ رہی تھیں۔

حالات اتنی تیزی سے پلٹے کہ نوحا دس برس تک گھر نہ لوٹ سکیں۔وہ اور ان کے بھائی لیبیا منتقل ہو گئے اور وہیں انھیں جیون ساتھی بھی ملا۔وہ دونوں غرب اردن لوٹے اور بیت الحم میں مکان بنایا۔مگر نوحا کا بیشتر خاندان غزہ میں ہی رہا۔ گزشتہ ماہ ان کا ایک بھائی اور بہن جنھوں نے چرچ میں پناہ لے رکھی تھی اسرائیلی بمباری کی نذر ہو گئے۔جب کہ ایک اور بہن زخمی ہو گئی اور اس کی ٹانگ ضایع ہو گئی۔

نوحا بتاتی ہیں کہ معمول کے حالات میں بھی غزہ اور غربِ اردن کے لوگوں کو اپنے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے اسرائیلی انتظامیہ بہت مشکل سے اجازت نامہ دیتی تھی۔اب ان کی ایک بہن اور بھائی اجازت نامے کی قید سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو چکے ہیں۔

جس بہن کی ٹانگ ضایع ہو گئی ہے وہ اگر کسی بھی اگلے اسرائیلی حملے میں جان سے نہ بھی گئی تب بھی وہ کیسے اس حالت میں مجھ سے ملنے آ پائے گی اور میں خود بھی اب ستاسی برس کی ہوں۔

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں