بلدیاتی نظام کی اہمیت کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
عظمی کاردار
(رہنما پاکستان مسلم لیگ ن سابق رکن پنجاب اسمبلی)
جمہوریت کے تین درجے ہوتے ہیں۔ پہلا درجہ وفاقی حکومت، دوسرا صوبائی حکومتیں اور تیسرا مقامی حکومتیں ہوتی ہیں۔
آئین کا آرٹیکل 140 (اے) بااختیار مقامی حکومتوں کی بات کرتا ہے مگر ہمارے ہاں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات کی تقسیم میں ابہام ہے، بیشترمعاملات مشترک ہیں جس کی وجہ سے حکومتیں ایک دوسرے کومد مقابل سمجھتی ہیں۔ قانون سازی میں موجود ابہام کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ، اسے دور کرنا ہوگا۔
ہمیں سیاسی قیادت کو بھی سمجھانا ہے کہ مقامی حکومتیں کسی کے مدمقابل نہیں بلکہ یہ تو سیاسی جماعتوں کی طاقت بن سکتی ہیں۔ اگر ملک میں میں مضبوط بلدیاتی نظام لایا جائے جو صحیح معنوں میں عوام کے مسائل حل کرے تو یہ کارکردگی انتخابات میں کام آئے گی، لوگ اس کی بنیاد پر ووٹ دیں گے،نچلی سطح تک عوام میں پذیرائی ہوگی۔
ہمیں مقامی حکومتوں کے حوالے سے سیاستدانوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی، انہیں بااختیار، موثر اور مضبوط بلدیاتی نظام پر قائل کرنا ہوگا۔ میں نے لوکل باڈیز سے سیاست میں قدم رکھا، دو مرتبہ کونسلر منتخب ہوچکی ہوں۔ لوکل باڈیز سے سیکھ کر اسمبلی میں پہنچی ہوں۔
ہماری خواتین لوکل باڈیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، ہزاروں خواتین سیاست میں قدم رکھتی ہیں اور اس طرح وہ ایمپاور بھی ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے بلدیاتی نظام نہ ہونے کے باعث ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور استحصال بھی ہوتا ہے۔
میرے نزدیک مضبوط بلدیاتی نظام کیلئے سیاسی ول چاہیے۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ گلاسگو، سکاٹ لینڈ، برطانیہ کی سٹی کونسل کا نظام بہترین ہے۔ وہاں اختیارات ضلعی انتظامیہ کے پاس ہیں اور وہی انتظامات چلاتی ہے جس سے لوگوں کے مسائل موثر انداز میں حل ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔
بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افسوس ہے کہ 2015ء کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے اور بعد میں آنے والی حکومت نے بلدیاتی نظام لپیٹ دیا۔ اتنے بڑے خلاء کی وجہ سے لوکل باڈیز میں حصہ لینے والوں سمیت عوام کے غم وغصہ میں اضافہ ہورہا ہے۔
ان کا کوئی پرسال حال نہیں ہے۔ تعلیم، صحت، سیوریج، صفائی ستھرائی، گھریلو ناچاقی، طلاق، لڑائی جھگڑے جیسے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کرلیے جاتے تھے مگر اب نہیں ہورہے۔ عام آدمی کیلئے تو اس کا کونسلر یا یونین کونسل کے نمائندے قابل رسائی ہوتے ہیں، ہر کسی کیلئے ایم این اے یا ایم پی اے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اب ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی پالیسی دیں۔
اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی جماعتیںاپنے منشور میں آئین کے آرٹیکل 140(اے) کے مطابق بااختیار اور مضبوط بلدیاتی نظام کی یقین دہانی کرائیں اور یہ بھی وعدہ کیا جائے کہ بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم کیا جائے گا۔ یہاں عام انتخابات کے روز ہی بلدیاتی انتخابات کی تجویز آئی ہے میرے نزدیک یہ موثر نہیں ہے ۔
لوکل باڈیز کا الیکشن آسان نہیں ہے،ا س کے لیے بڑی مشینری اور وسائل درکار ہیں۔ عام انتخابات کے فوری بعد بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ سپریم کورٹ جمہوریت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، بلدیاتی نظام کے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی، اس پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ ہم عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں بھی بلدیاتی نظام کے قیام کے حوالے سے آواز اٹھاتے رہیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں امن کے قیام میں مقامی حکومتوں کے نمائندوں کا کردار اہم رہا ہے، پولیو کا مسئلہ ہو یا کوئی اور، مقامی نمائندے پر اچھے کام میں پیش پیش رہتے ہیں، اگر ملک میں مقامی حکومتوں کا بااختیار اور مضبوط نظام قائم کر دیا جائے تو ہمارے بیشتر مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔
سابق حکومت میں ہم نے خواجہ سراء اور خصوصی افراد کیلئے مقامی حکومت میں کوٹہ مختص کیا، سندھ نے بھی ہمارے نظام کو فالو کیا، اب بھی ہمیں ایسا بلدیاتی نظام قائم کرنا ہے جس میں سب کی شمولیت ہو اور سب مل کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
سعدیہ سہیل رانا
(رہنما پاکستان استحکام پارٹی سابق رکن پنجاب اسمبلی)
بدقسمتی سے جو بھی حکومت آتی ہے سب سے پہلے بلدیاتی نظام کو ختم کرتی ہے۔ اس وقت لوکل باڈیز کا جو بھی قانون موجود ہوتا ہے اسے ختم کر دیا جاتا ہے اور نیا قانون بنایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے ملک میں آج تک بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم نہیں ہو سکا۔بلدیاتی نظام کا تسلسل یقینی بنانے کیلئے آئینی ترمیم کی جائے۔ عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے قانون سازی کی جائے جسے کوئی بھی حکومت موخر نہ کر سکے ۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں اور لوکل باڈیز کی مدت مختلف ہے اور ان کے انتخابات بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی طرح بلدیاتی حکومتوں کی مدت بھی 5 برس کی جائے اور عام انتخابات کے روز ہی لوکل باڈیز کے انتخابات کروائے جائیں۔
اس طرح مقامی حکومتوں کا تسلسل قائم ہوجائے گا اور عوام کو بھی اپنے نمائندے منتخب کرنے میں آسانی ہوگی۔ میں نے مختلف ممالک کے بلدیاتی نظام کا مشاہدہ کیا ہے۔ ناروے، برطانیہ اور ترکی میں مقامی حکومتوں کا نظام موثر انداز میں چل رہا ہے۔
ان میں ناروے کا نظام بہترین ہے۔ شہریوں کو ان کے علاقے میں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، میونسپل سروسز سمیت ہر طرح کی سہولیات مل رہی ہیں۔ وارڈ کی سطح تک لاء اینڈ آرڈر سسٹم موجود ہے، جج ہو یا چوکیدار، سب ایک ہی کمیونٹی میں رہ رہے ہیں اور انہیں ایک ہی طرح کی سہولیات اسی وارڈ میں میسر ہیں۔
سب کے لیے آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ہیں لہٰذا ہمیں بھی یہ ماڈل اپنانا ہوگا۔ اگر ہم یہ ماڈل اپنا لیں اور یونین کونسل کی سطح پر گاڑیوں کی چیکنگ، آلودگی، ماحول، سینی ٹیشن، کوڑا کرکٹ جیسے مسائل ڈیل کیے جائیں تو سب اچھا ہوجائے گا۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں تو مقامی حکومتوں کی بات کرتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کتنا ہوتا ہے؟
خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں آتی ہیں، حلقے کے منتخب امیدواران ان کے ساتھ بھی طاقت شیئر کرنے کو تیار نہیں ہوتے، مقامی نمائندوں کے ساتھ کیسے کریں گے؟ عملی طور پر دیکھا جائے تو ایک امیدوار کیلئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ حلقے کے ہر فرد کے مسائل سنے یا حل کر سکے۔
اس کیلئے یونین کونسل کی سطح تک ایک بہترین ٹیم بنانے کی ضرورت ہے۔ میں نے مقامی حکومتوں میں نوجوان، خواجہ سرائ، خصوصی افراد کی نشستوں کی بات کی۔ سابق دور حکومت میں مقامی حکومتوں کو براہ راست فنڈنگ بھی اچھا کام تھا۔
ہمیں بلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق مالی، سیاسی اور انتظامی حوالے سے بااختیار بنانا ہوگا۔مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی یا ان کے پاس اختیارات کے نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ۔ اگر سب اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کام کریں تو ملک و قوم کا فائدہ ہوگا۔
پروفیسر ارشد مرزا
(نمائندہ سول سوسائٹی)
جمہوریت کے حوالے سے تین پہلو اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوری نظام مکمل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ وفاقی سطح پر پالیسی سازی کا کام ہوتا ہے اور تیسرا یہ کہ صوبائی حکومتیں اپنی حدود میں رہ کر اپنا آئینی کردار ادا کرتی ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسیع دائرہ کارمیں کام کرتی ہیں۔ ان کے فرائض کی نوعیت الگ ہے، اس میں قانون سازی جیسے معاملات ہیں جبکہ گراس روٹ لیول پر مقامی حکومتوں کا کام ہوتا ہے جو عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر میونسپل سروسز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا ازالہ کرتی ہیں۔
حلقوں میں ترقیاتی کام اور گلی محلوں کے مسائل حل کرنا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا کام نہیں، نہ ہی حلقے کے ہر فرد تک ان کی رسائی ہوسکتی ہے۔
آئین سازوں نے سوچ سمجھ کر اختیارات تقسیم کیے ہیں لہٰذا سب کو اپنے دائرہ کار میں رہ کام کرنا ہوگا اور اختیارات کی تقسیم میں موجود ابہام کو دور کرنا ہوگا۔ اگر ہم ملک کو سیاسی اور آئینی لحاظ سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو جمہوریت کے تینوں درجے کی حکومتوں کو ان کے اختیارات دینا ہوں گے۔ مقامی حکومتیں مستقبل کی قیادت کیلئے ہیچری کا کام کرتی ہیں۔
یہاں سے تربیت حاصل کرکے بہتر قیادت ابھرتی ہے اور وہ اپنے فرائض کو اچھے انداز میں ادا کرنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوکل باڈیز کی عدم موجودگی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ نہ عوام کے مسائل حل ہو رہے ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے، انہیں مضبوط امیدوار ہی نہیں ملتے جن کی گراس روٹ لیول تک جڑیں ہوں۔
افسوس ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ،مقامی حکومتوں کو اپنا مدمقابل سمجھتی ہیں حالانکہ یہ لوکل باڈیز کا بہترین نظام ان کی طاقت کا باعث بن سکتا ہے۔ ہماری بیوروکریسی نہیں چاہتی کہ اختیارات مقامی حکومتوں اور نمائندوں کو منتقل ہوں۔وہ مالی و انتظامی اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ وہ خود اچھے انداز میں فرائض سرانجام دے سکتی ہے اور یہ نمائندے قابل نہیں ہیں۔
انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ملک عوامی نمائندوں نے بنایا تھا، جنہوں نے بنایا وہ اسے بہتر انداز میں چلانے کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جن کے پاس ووٹ کی طاقت ہے ان کے پاس اختیارات کیوں نہیں؟ہمارے نظام کے بنیادی ڈھانچے میں مسائل ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا، ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔
ایک بات قابل ذکر ہے کہ انتخابات سے پہلے ہمارے اراکین اسمبلی کی ترجیحات میں عوام شامل ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ڈیروں کی رونقیں بحال رہیں اس لیے وہ مقامی حکومتیں نہیں چاہتے۔ اگر مقامی حکومتیں بن جائیں اور عوام کے مسائل نچلی سطح پر ہی حل ہونے لگیں تو ان کے پاس کون آئے گا؟ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی منشور تیار کر رہی ہیں۔
میرے نزدیک یہ وقت انتہائی اہم ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں واضح طور پر مضبوط اور با اختیار بلدیاتی نظام قائم کرنے کی یقین دہانی کروائیں۔ اس حوالے سے آئینی ترامیم کی بھی ضرورت ہے لہٰذا پہلے عام انتخابات ہو جائیں اور اس کے بعد بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔ سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کریں کہ وہ عام انتخابات کے فوری بعد لوکل باڈیز کے انتخابات کروائیں گی۔
سلمان عابد
(دانشور)
8 فروری 2024ء کو ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس کے حوالے سے سیاسی جماعتیں عوام سے مختلف وعدے کر رہی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک میں بیڈ گورننس کا مسئلہ مقامی حکومتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جب تک خودمختار، شفاف اور بااختیار مقامی حکومتیں نہیں ہونگی تب تک ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اسلام آباد سے پاکستان اورلاہور سے پنجاب نہیں چلایا جاسکتا۔ جدید حکمرانی کے ماڈل میں اختیارات کی تقسیم اور منتقلی بحرانوں کا حل ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات منتقل ہوگئے مگر مقامی حکومتوں کو نہیں ہوئے۔ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کرواتی، اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ ہر صوبے کا اپنا اپنا بلدیاتی نظام ہوتا ہے اور ان میں معاملات بھی مختلف ہوتے ہیں۔
صوبائی حکومتوں کی جانب سے کمپنیزاور اتھارٹیز بنا کر ایک متوازی نظام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کسی بھی طور درست نہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے آئین کے مطابق بااختیار مقامی حکومتیں قائم کرنا ہونگی۔بلدیاتی نظام میں حائل رکاوٹیں دور اور اس کا تسلسل یقینی بنانے کیلئے وفاق کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اس کیلئے آئینی ترمیم کی جائے۔
اس حوالے سے ایم کیو ایم نے اپنا منشور ڈرافٹ کیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کے آئین میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے ایک الگ چیپٹرموجود ہے جس میں تینوں درجوں کی حکومت کے الگ الگ کردار بھی واضح کیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت 5 برس جبکہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت 4 برس ہوتی ہے۔ نئی حکومت آتے ہی سب سے پہلے بلدیاتی نظام ختم کرتی ہے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام حکومتوں کی مدت 4 سال یا 5 سال کر دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ 120 روز میں بلدیاتی انتخابات کروائے گی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ترقیاتی فنڈز اور کاموں کے حوالے سے وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کا کردار متعین کرنا ہوگا، تمام صوبوں میں یکساں بلدیاتی نظام لایا جائے، خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دی جائے اور براہ راست انتخابات کروائے جائیں۔سویڈن میں کمیونٹی پولیس اور فارمل پولیس الگ الگ ہے۔
چھوٹے جرائم پر تو کمیونٹی پولیس ہی ایکشن لے لیتی ہے۔ سکول، کالج، ہسپتال و دیگر معاملات بھی کمیونٹی کی سطح پر ہی ہینڈل ہوتے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں 9 ٹاؤنز تھے اور بااختیار تھے۔
کسی کو میئرکے پاس نہیں جانا پڑتا تھا بلکہ ٹاؤن میں ہی مسائل حل ہوجاتے تھے۔اس وقت بھی ایک مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میںیقین دہانی کرائیں کہ عام انتخابات کے بعد 120 روز میں بلدیاتی انتخابات کرواکر مقامی حکومتیں قائم کریں گی اور انہیں آئین کے مطابق بااختیار بنایا جائے گا۔