1970 سے جاری انتخابی گمراہیوں، قوم کو دھوکا دینے اور جھوٹوں کا موسم پھر آگیا ہے اور اب آنے والے فروری کے پہلے ہفتے تک انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ صرف ایک صوبائی نشست پر آزادانہ انتخاب لڑنے والا سیاستدان بھی بلند و بانگ دعوے کرے گا۔
سیاسی رہنما عوام کو آنے والے دنوں کے لیے سنہری خواب دکھائیں گے اور آسمان سے تارے توڑکر عوام کے قدموں میں بکھیر دینے کے دعوے کرنے والے اپنی انتخابی تقاریر میں اپنے خطابت کے جوہر دکھائیں گے جو ملک کے عوام 53 سالوں سے سنتے اور انھیں بھگتتے آ رہے ہیں۔
طویل ایوبی مارشل لا کے بعد جنرل یحییٰ خان کی صدارت میں 1970 میں متحدہ پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تھے، جن میں تین سال قبل بنائی جانے والی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اور مغربی پاکستان جس کو جنرل یحییٰ خان نے چار صوبوں میں تقسیم کر دیا تھا جس کے سب سے بڑے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں دوسروں سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی۔
مشرقی پاکستان میں صرف دو کے سوا تمام نشستیں عوامی لیگ نے حاصل کر کے حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ پنجاب و سندھ میں پیپلز پارٹی کی نشستیں سب سے زیادہ اور صوبہ سرحد و بلوچستان جیسے چھوٹے صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی نے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔
مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب نے اپنا چھ نکات کا منشور قوم کے سامنے پیش کیا تھا اور انھوں نے مغربی پاکستان کے دورے بھی کیے تھے۔
سندھ کے دورے میں جی ایم سید بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس الیکشن کو کافی حد تک غیر جانبدارانہ کہا جاتا تھا جس کے مطابق واضح اکثریت کے باعث عوامی لیگ کو ملک کا اقتدار دیا جانا چاہیے تھا مگر توقعات کے برعکس نتائج آنے پر صدر جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے ایسا نہیں ہونے دیا اور 1971 میں نتائج نہ ماننے پر ملک دولخت ہوگیا تھا جو تلخ حقیقت ہے۔
عوامی لیگ نے اپنے 6 نکات پر واضح کامیابی مشرقی پاکستان میں حاصل کی تھی جس کی بنیاد پر شیخ مجیب نے ملک بھر میں انتخابی مہم چلائی تھی اور پی پی کے چیئرمین نے اپنی پہلی انتخابی مہم میں ملک میں اسلامی سوشلزم لانے اور ملک کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کا منشور پیش کیا تھا اور حال ہی میں 2024 کے الیکشن کے لیے بھی چار پی کے سربراہ آصف زرداری نے روٹی، کپڑے اور مکان کے نعرے پر پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے جو پیپلز پارٹی 53 سالوں کی اپنی چار حکومتوں میں فراہم نہیں کر سکی اور سندھ میں ان کی مسلسل 15 سال حکومت رہی ہے۔
عوامی لیگ کے 6 نکات پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کے لیے رہ گئے تھے، جن پر ان کی صاحبزادی حسینہ واجد نے عمل کر کے بنگلہ دیش کو پاکستان سے بہتر پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے جسے دنیا مانتی ہے اور اس کے برعکس 1970 کے بعد ملک میں چار بار پیپلز پارٹی، تین بار مسلم لیگ (ن) اور ایک ایک بار مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کی حکومت رہی ہے۔
53 سالوں میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی بھی تقریباً 20 سال تک حکومت رہی اور 33 سال سیاستدانوں کی حکومتیں رہیں اور آج ملک جن بدتر حالات میں ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ایوب خان کے دورکو صنعتی ترقی کا دورکہا جاتا ہے، باقی دو آمروں کی حکومتوں میں سب سے زیادہ کرپشن کے الزامات سیاسی حکمرانوں پر لگے جن میں کوئی ایک بھی ایمانداری کا دعویدار نہیں تھا وہ سب ایک دوسرے پر کرپشن اور انتخابات میں عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرنے اور اپنے پارٹی منشور پر عمل نہ کرنے کا الزام ضرور لگاتے آئے ہیں مگر کسی نے بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کبھی ضرورت محسوس ہی نہیں کی اور سب نے ہی اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولا کہ ملک اپنے ہی پرانے حصے بنگلہ دیش سے بھی پیچھے جا چکا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کر چکا۔ کوئی کہتا ہے کہ ہماری حکومت میں معیشت اتحادی حکومت سے بہتر تھی تو اتحادی وزیر اعظم کا دعویٰ رہا کہ ہم نے اپنی سیاست کے بجائے ریاست بچائی مگر کوئی یہ نہیں مان رہا کہ اس نے ملک کو مقروض کرنے میں کون سی کسر چھوڑی اور اقتدار میں رہ کر کون سے وعدے پورے کیے اور ملک و بیرون ملک کتنی جائیدادیں بنائیں اور عوام سے جھوٹے وعدے کیے۔
آمر تو عوام سے وعدے کر کے اقتدار میں کبھی نہیں آئے مگر وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہر سیاست دان نے حصول اقتدار کے لیے عوام کو سبز باغ دکھائے انھیں اپنے دعوؤں سے گمراہ کیا جھوٹے وعدے کیے اور اپنے اعلانات پر عمل کرکے عوام سے دھوکا دہی کی اور اپنے دعوؤں اور پارٹی منشور پر عمل کرنے کے بجائے مال بنانے اور اپنوں کو نوازنے میں اقتدارکا عرصہ گزارا جس کی وجہ سے عوام کی حالت بد سے بدتر اور حکمرانوں کی دولت کہیں سے کہیں جا پہنچی اور انھوں نے اتنی دولت کما لی جو ان کی نسلیں بھی نہیں سنبھال سکتیں بلکہ جن کی اولاد تھی انھوں نے بھی اپنے بڑوں کو کبھی مال کمانے میں پیچھے چھوڑ دیا اور جس کی اولاد ملک میں نہیں تھی اس نے بھی کوئی کسر نہیں رہنے دی۔
باریاں لینے والوں کو کبھی سپریم کورٹ سے صادق و امین قرار نہیں دیا گیا تھا جس کے باعث 2018 کے الیکشن میں ملک کے لوگوں کو پچاس لاکھ نوکریاں اور ایک کروڑ گھر بنا کر دینے اور ماضی میں اقتدار میں نہ رہنے والے کے وعدوں پر عوام نے اندھا اعتماد کیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گا اور سابقہ حکمرانوں کی طرح مال نہیں ملک بنائے گا کیونکہ وہ سابق حکمرانوں کو ملک لوٹنے والا اور چور ڈاکو قرار دے کر نئی نسل کو گمراہ کرنے اور عوام کو دھوکا دینے نہیں بلکہ نیا صاف و شفاف پاکستان بنانے کے وعدوں پر اقتدار میں آیا تھا۔اشتہاری ایجنسیاں اپنے مال کی فروخت کے لیے نامور اداکاروں و کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی کو تو سپریم کورٹ نے صادق و امین قرار دیا تھا۔
عوام جب اپنے اداکاروں اور کھلاڑیوں کے کہنے پر مال خریدتے ہیں تو وہ اپنے ججز کا فیصلہ کیوں نہ مانتے انھوں نے اس صادق و امین کو بھی آزما لیا جسے اب اس کے مخالف بڑا ملک لوٹنے والا قرار دے رہے ہیں جس نے عوام سے کیا اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا اور جیل میں مقدمات بھگت رہا ہے۔
عدالتوں میں جھوٹ پکڑے جانے اور توہین عدالت پر سزا ہو جاتی ہے مگر ملک میں بے انتہا جھوٹ بولنے والوں، انتخابی جلسوں میں بلند و بانگ دعوے اور عوام کو گمراہ کرنے والے سیاستدانوں کی کوئی گرفت نہیں ہے۔
ان پر کرپشن پر تو مقدمات بنے مگر عوام کو دھوکا دینے والوں کے لیے کوئی قانون ہی موجود نہیں اور کسی کو صادق و امین قرار دینے والے سے عدالت کچھ پوچھ سکتی ہے بلکہ اس کی گرفتاری پر اسے گڈ ٹو سی یو کہہ کر رہا کر دیتی ہے اور اس کے وعدوں و اعلانات پر یقین کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ ووٹ دے کر کچھ پوچھ بھی نہیں سکتے۔