1

چکن پانی سے دھونا چاہیے یا نہیں؟

جدید سائنسی تحقیق کے تناظر میں اس اہم سوال کا صحت بخش اور مفید جواب ۔ فوٹو : فائل

جدید سائنسی تحقیق کے تناظر میں اس اہم سوال کا صحت بخش اور مفید جواب ۔ فوٹو : فائل

ہمارے معاشرے میں چکن من بھاتا کھاجا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہر کوئی چکن خرید کر اسے ضرور دھوتا ہے۔ بعض مردو خواتین تو دیر تک چکن کو پانی کی دھار کے نیچے رکھتے ہیں۔ اسے خوب مل مل کر دھوتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ یونہی گوشت اچھی طرح صاف ہوتا ہے۔ مگر سائنسی و طبی اعتبار سے کیا یہ عمل درست ہے؟

امریکا کے محکمہ زراعت (US Department of Agriculture) سے منسلک ماہر اور ماہرین غذائیت کہتے ہیں کہ چکن (اور گوشت کی دیگر اقسام کو بھی ) پانی سے دھونا غلط ہے۔

وجہ یہ کہ چکن کے گوشت پر مختلف اقسام کے جراثیم (بیکٹریا)موجود ہوتے ہیں۔گوشت دھونے سے یہ جراثیم پانی کے ذریعے دھونے والی جگہ میں پھیل جاتے ہیں۔ وہ پھر جس شے سے مس ہوں، اس کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ یوں وہ پھیل کر بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان جراثیم کا پھیلاؤ روکنے کی خاطر ہی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ چکن کو پانی سے نہ دھویا جائے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ چکن کو پیپر ٹاول سے صاف کیجیے۔ پیپر کو چکن کے ساتھ لگائیے تاکہ گوشت کی نمی اس میں جذب ہو جائے۔ پیپر پھر کوڑے میں پھینک دیجیے۔ اس طریقے سے چکن کے بیکٹریا کا پھیلاؤ انجام نہیں پاتا۔ گوشت کے ساتھ چمٹا خون یا چھیچھڑا بھی پیپر ٹاول یا کسی صاف کپڑے سے صاف کرنا ممکن ہے۔ معنی یہ کہ چکن کی صفائی کے لیے پانی استعمال نہ کیجیے کہ وہ جراثیم کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

یہ یاد رہے کہ چکن کے گوشت پر یہ جراثیم موجود ہو سکتے ہیں: سالمونیلا اینٹریٹیڈیس (Salmonella Enteritidis) ، سٹیفائلوکوکس اوریس (Staphylococcus aureus) کیمپائلوبیکٹر جیجونی (Campylobacter jejuni) اور لسٹیریا مونوسائٹوجینز (Listeria monocytogenes) وغیرہ ۔ یہ سبھی کمرے یا ماحول کے درجہ حرارت میں آتے ہی پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ ان کو مارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ چکن پکا لیا جائے۔ پکنے سے یہ جراثیم جل بھن کر مر جاتے ہیں۔

سالمونیلا اینٹریٹیڈیس جرثومہ انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو بارہ سے بہتر گھنٹے کے اندر وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ سردرد ہوتا ہے اور بخار بھی۔ پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ دست آنے لگتے ہیں۔ یوں انسان عجب عذاب میں پڑ جاتا ہے۔ علاج کے بعد ہی افاقہ ہوتا ہے۔

’سٹیفائلوکوکس اوریس‘ ایک خطرناک جرثومہ ہے کیونکہ اس کی ایسی ذیلی قسمیں جنم لے چکیں جن پر اینٹی بائیوٹک ادویہ اثر نہیں کرتیں۔ یہ جرثومہ انسانی جسم میں داخل ہو کر متفرق عوارض پیدا کرتا ہے، مثلاً پھوڑے پھنسیاں، جلد سرخ ہو کر پھول جانا، آنکھوں میں سرخی، تیز بخار، متلی، سر درد وغیرہ۔ اگر علاج کارگر نہ تو مریض مر بھی سکتا ہے۔

’کیمپائلوبیکٹر جیجونی‘ بھی معمولی جرثومہ نہیں۔ یہ دو سے پانچ دن کے درمیان انسان کو بیمار کر ڈالتا ہے۔ وہ دست کا شکار ہو جاتا ہے۔ پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ بخار و متلی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ یہ ایک ہفتے تک انسان کو دکھ وکرب میں مبتلا رکھتا ہے۔

’لسٹیریا مونوسائٹوجینز‘ بھی ایک خطرناک جرثومہ ہے۔ وجہ یہ کہ یہ فریزر کی شدید ٹھنڈک میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ نوزائیدہ بچوں، حاملہ خواتین اور پینسٹھ سال سے بڑی عمر کے مردوخواتین کے لیے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ان کا جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ یہ خدانخواستہ انسانی بدن میں پھلنے پھولنے لگے تو ابتداً انسان بخار، عضلات میں اینٹھن، متلی اور دست کا نشانہ بنتا ہے۔ مرض کی شدت بڑھ جائے تو انسان گھبراہٹ محسوس کرتا ہے اور اسے خود پہ قابو نہیں رہتا۔

چکن کے گوشت پہ موجود درج بالا موذی جراثیم سے محفوظ رہنے کا عمدہ طریق یہی ہے کہ اسے اچھی طرح پکایا جائے تاکہ اس سے چمٹے سبھی جراثیم نابود ہو جائیں۔ درجہ حرارت میں پکائی کا عمل اسے دیگر آلائشوں سے بھی پاک کر دیتا ہے۔ اس کے بعد چکن بہ اطمینان کھایا جا سکتا ہے۔

چکن کو مگرخصوصاً باورچی خانے کے سنک میں دھویا جائے تو گوشت سے چمٹے جراثیم پانی کے ذریعے جگہ جگہ پھیل جاتے ہیں۔ یوں کسی بچے، بوڑھے یا حاملہ خاتون میں ان کے منتقل ہونے کے مواقع بڑھتے ہیں۔ لہٰذا اپنے پیاروں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بہتر ہے کہ چکن کو پانی سے دھونے سے پرہیز کریں۔

یاد رہے، جدید طبی سائنس یہ بھی کہتی ہے کہ غذاؤں کو پانی میں زیادہ نہ دھویا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ کئی غذاؤں کی بالائی سطح پہ قیمتی غذائی مادے (Nutrients) موجود ہوتے ہیں۔ اگر غذا پانی میں زیادہ دھوئی جائے تو یہ مادے ضائع ہو جاتے ہیں۔اسی لیے ایسی غذائیں چھلکے اتارے بغیر کھانا بھی مفید ہے۔ نیز دھونا ضروری ہو تو کم سے کم پانی استعمال کیا جائے۔ یوں پانی کی بچت بھی ہوتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ چکن پہ موجود جراثیم ہوا میں اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔ مگر پانی انھیں پھیلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے چکن کو شاپر سے نکال کر کم سے کم برتنوں میں رکھیے۔ بلکہ ایک ہی برتن میں نکال کر اسے پیپر ٹاول سے صاف کریں۔ اور پھر ہانڈی میں ڈال دیں یا صاف شاپر میں فریز کر دیں۔ یوں جراثیم کو پھیلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

آج کل ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے ٹوٹکے بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ اکثر ٹوٹکوں میں بتایا جاتا ہے کہ اگر چکن کا گوشت لیموں کے پانی یا سرکے سے دھویا جائے تو سارے جراثیم مر جاتے ہیں۔ یہ غلط دعوی ہے۔ لیبارٹریوں میں ہوئے تجربات سے انکشاف ہوا ہے کہ لیموں اور سرکہ جراثیم ختم نہیں کرتے۔ ان کا تیزابی پن جراثیم پہ اثرانداز نہیں ہوتا۔ لہذا چکن کو ان اشیا سے صاف کر کے یہ مت سمجھیے کہ وہ بیکٹریا سے پاک صاف ہو گیا۔ الٹا یہ عمل ان کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ درست طریق یہی ہے کہ گوشت کی پیپر ٹاول یا صاف ستھرے کپڑے سے صفائی کر لیں۔

ایک اور بات یاد رکھیے۔ اگر چکن پیپر ٹاول سے صاف کریں تو صفائی کے فوراً بعد انھیں کوڑے میں پھینک دیں۔ تمام جراثیم اب پیپر ٹاول سے چمٹ چکے لہذا اسے کسی شے سے مس نہ کریں اور صفائی کرتے ہی کچرے میں پھینک دیں۔ بصورت دیگر پیپر ٹاول جس شے سے ٹکرایا، اس پہ جراثیم منتقل ہو سکتے ہیں۔

باورچی خانے میں آلودگی کم کرنے کے لیے کھانے کی تیاری کے کچھ اضافی بہترین طریقے درج ذیل ہیں۔

پولٹری اور گوشت کے لیے ایک مخصوص کٹنگ بورڈ اور دیگر غذائیں مثلاً سبزی و پھل کاٹنے کی خاطر دوسرا کٹنگ بورڈ استعمال کریں۔ اگر چکن اور دیگر غذائیں ایک ہی کٹنگ بورڈ پہ برتی جائیں تو غذاؤں میں موجود جراثیم ایک دوسرے میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ یوں نہ صرف انھیں کھانے والے بیمار ہو سکتے ہیں بلکہ مختلف جراثیم کے میل ملاپ سے جرثوموں کی زیادہ خطرناک اقسام جنم لینے کا خدشہ جنم لیتا ہے۔ علیحدہ کٹنگ بورڈوں کا استعمال یہ خطرہ ختم کرتا ہے۔

کھانے کی تیاری کے دوران سب سے پہلے سبزی تیار کیجیے۔ پھر مسالوں کو برتیے۔ آخر میں چکن یا گوشت لیں اور سیدھا ہانڈی میں ڈال دیں۔ اگر سب سے پہلے چکن کو برتا جائے تو اس میں موجود جراثیم برتنوں اور دیگر غذاؤں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ وہ پھر کمزور مدافعتی نظام والوں پہ حملہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

ایک اور اہم بات، وہ یہ کہ چکن سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھو لیں۔ یاد رہے، اس سنک میں برتن وغیرہ موجود نہ ہوں ورنہ چکن کے جراثیم ان سے چمٹ کر اپنی جانیں بچا سکتے ہیں۔ بہت سے جراثیم کی اقسام پہ عام صابن اثر نہیں کرتا اور وہ موزوں ماحول ملنے پر طویل عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بھی برتن چکن سے مس ہوا ہے، اسے بھی اچھی طرح دھوئیے اور خشک ہونے دیں۔ اگر اسے گیلی حالت میں دوبارہ استعمال کر لیا جائے تو اس کی سطح پہ جراثیم موجود ہو سکتے ہیں۔

آج کل باورچی خانوں میں اسفنج کا استعمال عام ہے۔ یہ برتن دھونے کے علاوہ سطح صاف کرنے میں کام آتے ہیں۔ مگر یہ ضروری بنائیے کہ ہر استعمال کے بعد اسفنج پانی سے اچھی طرح دھوئیے اور اسے خشک ہونے دیں۔ یہ دھیان رکھیں کہ اسفنج پہ غذائی باقیات موجود نہ ہوں اور وہ ہر وقت نم نہیں رہے کیونکہ ایسی حالت میں کئی جراثیم اس پہ پنپ جاتے ہیں۔ ان کی کالونیاں بن جاتی ہیں۔ اور وہ انسانوں کو بیمار کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

باورچی خانے (اور غسل خانے کے بھی) سنک کو روزانہ جراثیم کش مادے سے دھونا عمدہ رواج ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سطحیں اور چیزیں دھونے سے وہ صاف تو ہو جاتی ہیں مگر ان کی سطح پہ جراثیم موجود ہو سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ بازار سے مہنگا جراثیم کش مادہ خریدئے، آپ گھر میں بھی بنا سکتے ہیں۔

سوا دو کپ پانی لیجیے۔ اس میں آدھ چمچ مائع بلیچ ڈالیے۔ لیجیے جراثیم کش مادہ تیار ہو گیا۔ یہ مادہ اسپرے بوتل میں رکھیے اور باورچی خانے کی سطحوں پہ چھڑکیے۔چھڑک کر پیپر ٹاول یا صاف کپڑے سے صاف کر لیں۔ یہ عمل مکمل کر کے پیپر ٹاول پھینک دیں اور کپڑا ہے تو دھو لیجیے۔ ان طریقوں سے آپ خود کو اور اپنے اور پیاروں کو صحت وتندرستی کی لازوال دولت عطا کر سکتے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں