گزشتہ پچھتر برسوں میں ایک نعرہ ہمیشہ زبان زد عام رہا ہے کہ ملک خطرے میں ہے جو سیاست دان بھی اقتدار کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے، اس کا مقبول ترین نعرہ یہی ہوتا ہے اور وہ خود کو ہی نجات دہندہ قرار دیتا ہے۔ پاکستانی عوام نجات دہندوں سے یہ بات سن سن کر عاجز آچکے ہیں۔
سیاست دان تو خود کو قوم کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں لیکن جمہوریت کے وقفہ میں جو فوجی حکمران بھی آیا، اس نے بھی یہی نعرہ لگایا، بس اس میں تھوڑی سی آمیزش یہ شامل ہوتی رہی کہ سیاستدان چونکہ ’کرپٹ‘ ہیں، ان سے قوم کو نجات دلا دی گئی ہے لیکن افسوس سے یہ سچ کہنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی حکمران نجات دہندگی کے نعرے کو سچ میں نہ ڈھال سکا۔
کل بانی تحریک انصاف نجات دہندے تھے، آج اس نعرے کو میاں نواز شریف تازگی عطا کر رہے ہیں وہ تواتر سے فرما رہے ہیں کہ ان کی ملک واپسی اقتدار کے لیے ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ ملک بچانے کے لیے آئے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میاں نواز شریف نے چار برس ملک سے باہر رہ کر پاکستان کے حالات کا جو جائزہ لیا ہے، اس کا نتیجہ وہ یہ نکال رہے ہیں کہ اب سوال وزارت عظمیٰ کے حصول کا ہر گز نہیںہے بلکہ اقتدار کے بجائے ملک بچانے کا ہے۔
بقول میاں نواز شریف ان کے گزشتہ دور حکومت میں ملک جس تیزی سے ترقی کر رہا تھا ،اگر ان کے اقتدار کو نہ چھیڑا جاتا تو آج ملک کا معاشی نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔ میاں صاحب اپنے وہ سوالات دہرا رہے ہیں کہ انھیں بتایا جائے کہ ان کو اقتدار سے الگ کیوں کیا گیا۔
اس کا جواب جن کے پاس ہے وہ فی الحال جواب دینے کے موڈ میں ہر گز نہیں ہیں لہٰذا میاں صاحب جمع خاطر رکھیں اور فی الوقت اپنے سوالوں کو موقوف کر دیں اور اقتدار کی تیاری کریں البتہ جب کبھی ماضی کی یاد آجائے تو اس سوال کو دہرایا جا سکتا ہے لیکن اس کا جواب شاید ان کے لیے خوش کن نہ ہو۔
پاکستان چار صوبوں کا وفاق ہے، جس میں اب فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جا چکا ہے اور گلگت بلتستان کو علیحدہ شناخت دی جا چکی ہے ۔ ان اکائیوں کا باہمی اتفاق اور اتحاد ہی وفاق کی مضبوطی کی علامت ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک ایک بار پھر ایسے شورش زدہ حالات پیدا کیے جارہے ہیں جن سے ملکی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خاص طور پر بلوچستان میں ایسے حالات پیدا کیے جا چکے ہیں کہ جس کی وجہ سے بلوچستان میں انتشار پیدا ہو، آج کل بلوچ برادری کے کچھ لوگ بشمول خواتین اسلام آباد میں احتجاج کررہے ہیں، میں تو کہتا ہوں کہ بلوچستان کے لوگ اپنے مطالبات لے کر اسلام آباد آتے رہیں، یہی ہمارے لیے اچھا ہے، اگر انھوں نے کہیں اور کا رخ کا کر لیا تو معاملات بہت بگڑ جائیں گے۔
خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع میں حکومت کی رٹ کمزور دکھائی دیتی ہے ۔ افغانستان کا بارڈر تاحال غیر محفوظ ہے۔ گرانی کی وجہ سے پورے ملک میں لوگ پریشان ہیں ۔ جرائم کی بھرمار ہے، نظام انصاف زوال پذیر ہے۔
خارجہ امور کی طرف دیکھیں تو کئی دشمن ہمیں کھانے کو تیار بیٹھے ہیں، ملک معاشی طور پر کھوکھلا کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اپنے بھی مدد کو تیار نظر نہیں آتے اور جو تیار دکھائی دیتے ہیں وہ بھی مدد کے بجائے خریداری کے لیے کمر بستہ ہیں یعنی مدد نہیں ہو گی۔
آج ہمارے اندر سے ہی بغاوت کی بو آرہی ہے۔ اس ملک کے ساتھ ہر وہ زیادتی کی گئی ہے جو ممکن تھی لیکن کسی نے رحم کھانے کی کوشش بھی نہیں کی۔پاکستان کو لاحق خطرات کی فہرست بہت طویل ہے اور یہ بدقسمت ملک اپنوں کے ہاتھوں خاکستر کا ایک ایسا ڈھیر بن چکا ہے جس میں کوئی چنگاری نہیں ہے۔
دانشوروں کی محفل میں میاں نواز شریف کی اس بات پر بحث ومباحثہ جاری ہے کہ کیا وہ واقعی ملک بچانے آئے ہیں یا صرف اقتدار کا حصول ہی ان کا مطمع نظر ہے۔ اگر میاں نوازشریف حقیقت میں ملک کو بچانے کی کوئی سبیل نکالنا چاہتے ہیں تو جیسے اقتدار ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اس متوقع اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے انھیں ماضی کی تلخیوں کو بھول جانا پڑے گا اور بسم اللہ پڑھ کرنئے سرے سے ملک کی معاشی تعمیر نو کا آغاز کرنا ہو گا۔
چاہے اس کے لیے ان کو اپنے بدترین سیاسی مخالفین سے ہی بات کیوں نہ کرنی پڑے کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام صرف اسی صورت میں ممکن نظرآتا ہے کہ اقتدار پر براجمان شخصیت وسیع قلبی کا مظاہرہ کرے اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کرپاکستان کی معیشت کو درست کرنے کا آغاز کرے۔
سیاسی اور نظریاتی اختلاف رائے اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں لیکن میاں نواز شریف کے مزاج میں پاکستانیت ہے اور وہ یہ خود یہ بتا رہے ہیں کہ ان کے قدم اقتدار کے لیے نہیں ملک بچانے کے لیے اٹھ رہے ہیں۔ خدا کرے یہ سچ ہو کیونکہ یہ ملک مظلوم محب وطن لوگوں کا ملک ہے جن کے لیے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے۔