5

اعظم خان اچانک غائب کیوں ہوئے تھے اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

[ad_1]

 اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کے گواہ اعظم خان کے اچانک غائب ہونے اور واپس آکر بیان ریکارڈ کرانے سے متعلق کہا ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک سول سرونٹ اچانک غائب ہوجائے، پھر واپس آ جائے تو پوچھنے پر کہے کہ کسی کا کیا تعلق کہ وہ کہاں تھا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سزا کے خلاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے روبرو سماعت ہوئی۔ ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم کی جانب سے حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی اور عمران خان کی جانب سے سلمان صفدر پیش ہوئے۔ شاہ محمود قریشی کی اہلیہ، بیٹی گوہر بانو اور صاحبزادے زین قرشی بھی عدالت میں موجود تھے۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر عبد القیوم نیازی، میجر (ر) ستی، شاندانہ گلزار خان، سیمی ایزدی، سیمابیہ طاہر، زرتاج گل، شیخ وقاص، سیف اللہ نیازی سمیت دیگر رہنماؤں کی بڑی تعداد میں کمرہ عدالت موجود رہی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر سے کہا کہ سائفر کا طریقہ کار کیا ہے اس متعلق دستاویزی شواہد بھی پیش کردیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کے بیان میں کیا تبدیلی ہوئی، تفصیلات لکھ کر لایا ہوں، دو گواہوں کے متعلقہ حصے عدالت کے سامنے پڑھوں گا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈاکیومنٹری ثبوت جو پراسیکیوشن نے سائفر کے پیش کیے تھے وہ بتائیے گا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ گواہ اسد مجید، فیصل ترمذی اور اعظم خان کے بیان پر جرح سے متعلق بتایا تھا، اعظم خان نے وزیر اعظم کو ایڈوائس کی کہ وہ متن کو پبلک میں ڈسکلوز نہیں کرسکتے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس مقدمے میں کئی ملزمان نکالے گئے اور کئی الزامات واپس لیے گئے، اعظم خان نے بنی گالہ میٹنگ کے منٹس لکھے، 31 مارچ 2022ء کو نیشنل سیکیورٹی میٹنگ ہوئی، اعظم خان کے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے بیان میں فرق ہے، پرانے بیان سے پِھرنا ملزم کے حق میں جاتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کیسے کہہ سکتے ہیں اعظم خان بیان سے منحرف ہوگئے؟

چیف جسٹس نے پوچھا پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ سائفر کو ٹوسٹ کیا، گواہ نے اس متعلق ایسا کیا کہا؟ اعظم خان نے ایسا کیا کہا کہ جس سے پراسیکیوشن کا کیس خراب ہوا ہو؟

جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ اعظم خان کا بیان تو مستقل رہا اور وہ اپنے پچھلے بیان سے نہیں ہٹے، اعظم خان کا بیان ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے سائفر گم ہو گیا، اعظم خان بتا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے جلسے میں دستاویز لہرایا، وہ یہ تو نہیں کہہ رہا کہ ڈاکیومنٹ کیا تھا جس سے لگے کہ سائفر واپس مل گیا تھا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کاپی گھمائی، گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے اس کے سامنے سائفر کی کاپی کی تلاش کرنے کا کہا، اعظم خان عدالت میں بیان میں کہہ رہا ہے کہ سائفر گم ہو گیا، ’’مِس پلیس‘‘ الگ لفظ ہے اس سے کوئی بدنیتی نظر نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق پبلک گیدرنگ میں کاغذ 27 مارچ کو لہرایا اور سازش 28 مارچ کو میٹنگ میں تیار ہوئی،  پراسیکیوشن نے بعد میں اس نکتے پر اصرار ہی نہیں کیا، پراسیکیوشن نے ایف آئی آر کا الزام ہی نکال دیا، سرکار جب کیس بنائے تو توقع ہوتی ہے کہ تمام دستاویزات سامنے رکھے جائیں، جو ڈاکیومنٹس ملزم کے حق میں جا سکتے تھے وہ سامنے ہی نہیں لائے گئے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے ضمانت کے لیے رجوع نہیں کیا مگر اسد عمر نے تو درخواست ضمانت بھی دی تھی،  اعظم خان کو سترہ ماہ انکوائری میں شامل ہونے کے لیے طلبی کے نوٹس جاتے رہے ہیں، 15 تاریخ کو مقدمہ درج ہوتا ہے مگر 16 تاریخ کو اعظم خان 161 کا بیان ریکارڈ کروانے آجاتا ہے، اعظم خان ضمانت بھی کروا کر نہیں آیا، مجسٹریٹ نے اعظم خان کا بطور ملزم 164 کا بیان ریکارڈ کیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جب اعظم خان کا 164 کا بیان ہوا کیا وہ کسٹڈی میں تھا ؟ اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے 161 کا بیان ریکارڈ کیا اسی وقت 164 کا بیان کروا دیا گیا، شریک ملزمان کو نوٹس تک نہیں دیا گیا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کا 164 کا بیان پڑھا ہی نہیں جاسکتا۔

عدالت نے کہا کہ مان لیتے ہیں 164 کا بیان ہے ہی نہیں پھر کیا پوزیشن ہوگی؟ جب اعظم خان نے عدالت میں بیان دے دیا اور ان پر جرح بھی ہوگئی تو پھر 164 کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

سلمان صفدر نے کہا کہ  ایک اہم سول بیوروکریٹ اعظم خان غائب ہو جاتے ہیں، فیملی نے مقدمہ درج کرایا، عدالت میں درخواست بھی دائر کی، پھر جب وہ واپس آ جاتا ہے تو عدالت سے درخواست بھی آرام سے واپس لے لی جاتی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اعظم خان کی بازیابی کی درخواست اسی عدالت میں زیرسماعت تھی، اعظم خان کے واپس آ جانے پر وہ درخواست واپس لے لی گئی تھی۔

جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک سول سرونٹ اچانک غائب ہو جائے، پھر واپس آ جائے تو پوچھنے پر کہے کہ کسی کا کیا تعلق کہ وہ کہاں تھا؟ آپ کسی اور کو بتا کر نہیں جاتے کہ کہاں جا رہے ہیں؟ کیا اپنے بیوی بچوں کو بھی بتا کر نہیں جاتے کہ کہاں جا رہے ہیں؟ پھر وہ گھر والے عدالتوں میں آ کر درخواستیں دائر کرتے ہیں، ہم اس معاملے پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے بھی پوچھیں گے۔

بعدازاں سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، کل بھی بیرسٹر سلمان صفدر دلائل جاری رکھیں گے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں