[ad_1]
یوں تو پاکستانی ریاست کے تمام شعبے بحران کا شکار ہیں مگر ملک کی سرکاری یونیورسٹیاں انتظامی اور شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ ماہِ رمضان میں سڑکوں پر تنخواہوں کے لیے احتجاج پر مجبور ہیں۔
وفاق کے زیر ِ انتظامی وفاقی اردو یونیورسٹی میں اساتذہ اور ریٹائرڈ اساتذہ کو تنخواہیں اور پنشن التواء کا شکار ہیں۔ اردو یونیورسٹی میں گزشتہ چار برسوں سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ کو واجبات نہیں مل سکے۔ ملک کی 64یونیورسٹیوں میں عرصہ دراز سے مستقل وائس چانسلر نہیں ہیں۔
سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی ایک تنظیم نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مستقل وائس چانسلروں کے تقرر کے لیے عدالتی احکامات جاری کیے جائیں۔ آل پبلک یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر سمیرالرحمن نے سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت دائر کی ہے۔ اس عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ پختون خوا کی 34 یونیورسٹیوں میں سے 24، پنجاب کی 50 یونیورسٹیوں میں سے 32، سندھ کی 6 یونیورسٹیوں اور بلوچستان کی 2 یونیورسٹیوں میں عرصہ دراز سے مستقل وائس چانسلر کا تقرر نہیں ہوا ہے۔
ان اساتذہ نے اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ مستقل وائس چانسلر نہ ہونے سے یونیورسٹیاں انتظامی اور علمی بحران کا شکار ہیں اور اگر مستقل وائس چانسلر کا تقرر نہ کیا گیا تو یونیورسٹی کا انتظامی، مالیاتی اور علمی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی معاشرے میں اہمیت علمی آزادی (Academic Freedom) کی بناء پر ہوتی ہے، اگر ملک میں یونیورسٹیوں کے حالات ایسے رہے تو پھر علمی آزادی کا ادارہ بھی تحلیل ہوجائے گا۔
وفاق اور صوبوں میں مستقل وائس چانسلر کے تقرر میں دیر کرنے کی ذمے داری صرف گزشتہ دو برسوں میں قائم ہونے والی حکومتیں ہی نہیں بلکہ 2018 کے بعد سے اس اہم مسئلہ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے شہید بے نظیر یونیورسٹی لیاری کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ کو ان کے عہدہ سے ہٹادیا تھا۔ پھر اس جنرل یونیورسٹی کی نگرانی کی ذمے داری جناح سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جو میڈیکل ڈاکٹر ہیں کے سپرد کی گئی۔ نگراں حکومت کے وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے صوبہ کی پہلی قانون کی یونیورسٹی ذوالفقار علی بھٹو شہید لاء یونیورسٹی کی ذمے داری ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید قریشی جو پیشہ کے لحاظ سے سرجن ہیں کے سپرد کی گئی اور آج اس آرٹیکل کی اشاعت تک یہی صورتحال ہے۔
پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر قائم ہونے والی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ یونیورسٹی کے مستقبل کے لیے دعاؤں پر مجبور ہیں۔ جب 2013میں خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو صوبائی حکومت نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کو وائس چانسلروں کی تلاش کی سرچ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا اور کئی ماہرین ِ تعلیم اس کمیٹی میں شامل کیے گئے۔
اس کمیٹی نے سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی اہلیت کے لیے جو معیار مقرر کیا اس پر چند ہی اساتذہ پورے اترتے تھے۔ یوں عرصہ دراز تک یونیورسٹیاں اپنے رہنما سے محروم رہیں۔
جب 2018میں محمود خان خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ بنے تو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی تقرر ی کا معاملہ اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ کچھ یونیورسٹیوں کے لیے وائس چانسلر تلاش ہوئے اور کچھ میں تقرر نہ ہوسکا۔ نگراں حکومت نامعلوم وجوہات کی بناء پر سرچ کمیٹیوں کی سفارشات کے مطابق وائس چانسلروں کا تقرر نہیں کرسکی۔
اب یہ خبر اخبارات میں شایع ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کے نئے وزیر اعلیٰ نے سابق حکومت کے وائس چانسلروں کے تقرر کے تمام مراحل کو مسترد کرتے ہوئے یہ پورا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں پختون خوا کی یونیورسٹیاں پھر کب تک قیادت سے محروم رہیں گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
گزشتہ صدی کے اختتام تک جب تک سرکاری یونیورسٹیوں کو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے گرانٹ ملتی تھی تو وفاق میں صدر پاکستان اور صوبوں میں گورنر سرکاری یونیورسٹیوں کے بلحاظ عہدہ چانسلر ہونے کی حیثیت سے وائس چانسلر کا تقرر کرتے تھے۔ صدر عمومی طور پر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے سربراہ وفاقی وزارت تعلیم کی مدد سے وائس چانسلر کا تقرر کرتے تھے۔ اس وقت وائس چانسلر کی اہلیت بھی طے شدہ نہیں تھی۔
برسر اقتدار حکومتیں بیوروکریٹ کو بھی انتظامی تجربہ کی بناء پر وائس چانسلر مقرر کردیتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی زبان کے شاعر شیخ ایاز کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسروں کو خاص طور پر پنجاب اور بلوچستان کی یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا مگر یہ حضرات انتظامی تجربہ کے تو دعویدار تھے مگر انھیں اکیڈمیک اور ریسرچ کا کوئی تجربہ نہ تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو اپ گریڈ کرکے ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC قائم کیا گیا۔ ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن نے وائس چانسلر کے تقرر کی سفارش کے لیے سرچ کمیٹی کا تصور پیش کیا۔ ایچ ای سی کے قیام کے بعد جو وفاق میں نئی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں ان کے قانون میں سرچ کمیٹی کی تشکیل شامل کی گئی تھی ۔ اس وقت کی برسر اقتدار حکومتوں نے صوبوں کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کی تجویز کو قبول کرلیا مگر سرچ کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں قانون نہیں بنایا۔
ہر حکومت اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف کیریئر کے افراد کو سرچ کمیٹی میں شامل کرتی ہے۔ کبھی کبھی کسی سابق وائس چانسلر کو سرچ کمیٹی کا سربراہ بنادیا جاتا ہے اور کبھی کوئی بیوروکریٹ سربراہ بنایا جاتا ہے اور اراکین میں کبھی ماہرین تعلیم کی تعداد مناسب ہوتی ہے اور کبھی انتہائی کم ہوتی ہے۔ اگرچہ صوبہ کے گورنر صوبہ کی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہوتے ہیں مگر اب وائس چانسلر کی تقرری کا معاملہ وزیر اعلیٰ کا اختیار بن گیا ہے۔
صوبوں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے شعبے قائم ہوچکے ہیں جو یونیورسٹیوں کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یوں سرچ کمیٹی کی تشکیل اور اس کی سفارشات کی منظوری کا معاملہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کے ذمے جاتا ہے۔ اب سرچ کمیٹی ہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے اشتہار دیتی ہے، عمومی طور پر وائس چانسلر کے لیے یونیورسٹی کے پروفیسر کی اہلیت کے علاوہ انتظامی تجربہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
بعض دفعہ ایسا ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے سرچ کمیٹی کی تمام سفارشات کو مسترد کردیا یا وزیر اعلیٰ نے سرچ کمیٹی کی فہرست میں نمبر اول آنے والے امیدوار کو مسترد کرکے دوسرے نمبر کے امیدوار کا وائس چانسلر کی حیثیت سے تقرر کیا مگر سندھ ہائی کورٹ نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے معاملہ میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے تقرر کو غیر قانونی قرار دیدیا تھا۔ اب سرچ کمیٹی امیدواروں کے نام ان کے حاصل کردہ نمبروں کے حوالہ سے تحریر نہیں کیے جاتے مگر سندھ کے وزیر اعلیٰ نے پہلے تین امیدواروں کے ذاتی طور پر انٹرویو لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس پر بعض حلقے شدید اعتراض کرتے ہیں۔
مگر بیوروکریسی نے اس طرح صورتحال سے بچنے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ عارضی وائس چانسلر سے کام چلایا جائے، یوں معاملات مسلسل التواء کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یونیورسٹیاں علمی آزادی کے ادارے کے ذریعے معاشرہ کے دیگر اداروں کی رہنمائی کرتی ہے اور ترقی کے راستہ کا تعین کرتی ہے،اگر یونیورسٹیاں قیادت سے محروم رہیں گی تو ان کا بنیادی کردار ختم ہوجائے گا۔
[ad_2]
Source link