[ad_1]
دنیا بھر میں یہ غلغلہ بلند ہے کہ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس عنقریب لاکھوں کروڑوں انسانوں کی ملازمتیں ختم کر دے گی۔وجہ یہ کہ ان کے کام مصنوعی ذہانت کی مدد سے بننے والے روبوٹ یا مشینیں سنبھال لیں گی۔
سچ یہ ہے کہ یہ محض ایک خیال ہے جو شاید عملی جامہ نہ پہن سکے۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد سافٹ وئیر یا کمپیوٹری پروگرام ہے۔ اور اب تک سائنس داں ایسا سافٹ وئیر ایجاد نہیں کر سکے جو آزادی سے ، ازخود انگلی بھی ہلا لے … انسان کی طرح خودمختاری سے کوئی سادہ سا کام بھی کرنے والا سافٹ وئیر ایجاد ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
دراصل سائنس داں بس ایسا سافٹ وئیر ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے جو معلومات کے سمندر یا ڈیٹا میں سے مطلوبہ معلومات تلاش کر کے انسانوں کے سامنے لے آئے۔
اس سافٹ وئیر کو ’’لارج لینگوئیج ماڈل‘‘ (Large language model)کہا گیا۔ اور اسی کی بنیاد پر اوپن اے آئی، گوگل، مائیکرو سافٹ اور دیگر مغربی کمپنیوں نے ایسے پروگرام (چیٹ جی پی ٹی، مائکروسافٹ کوپائلٹ، گوگل جیمنی وغیرہ) تخلیق کیے جن میں معلومات کا خزانہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں بھرا جاتا ہے اور جو انٹرنیٹ پہ رواں دواں ہیں۔ جب پروگرام سے کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ اپنی مصنوعی ذہانت بروئے کار لا دستیاب معلومات سے تلاش کر مطلوبہ جواب دے دیتا ہے۔
معنی یہ کہ بظاہر تہلکہ مچا دینے والے مصنوعی ذہانت کے یہ جدید ترین سافٹ وئیر یا عرف عام میں روبوٹک مشینیں دراصل انسان کی محتاج ہیں۔ اگر انسان انھیں معلومات فراہم نہ کریں تو وہ محض تاروں اور ننھے منے آلات کا مجموعہ رہ جائیں، بے جان اور تمام احساسات و جذبات سے عاری! انسان مگر سافٹ وئیر کو جتنی زیادہ معلومات فراہم کرے گا، اس کا جواب اتنا ہی زیادہ معیاری اور عمدہ ہو گا۔
گویا ان سافٹ وئیروں کی یہ افادیت ضرور ہے کہ کسی نتیجے تک پہنچنے اور کسی مشکل سے نکالنے میں وہ انسان کی بھرپور مدد کر سکتے ہیں۔ اور ان کو اسی لیے تخلیق کیا گیا کہ وہ روزمرہ زندگی کے دوران انسانوں کے مددگار بن جائیں اور انھیں تکالیف و مشکلات سے بچائیں۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک ایسا ہی ایک اور سافٹ وئیر ایجاد کیا ہے جسے’’ڈرگ جی پی ٹی‘‘ (DrugGPT) کا نام مل چکا۔ یہ بھی انٹرنیٹ پر اپنا کام انجام دے گا۔ اس کا بیٹا یا تجرباتی نمونہ کام کرنے لگا ہے۔
ڈرگ جی ٹی پی ڈاکٹروں کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب وہ کسی بیماری کے متعلق اسے بتائیں گے تو ڈرگ جی ٹی پی اس مرض سے متعلق تمام جدید ترین معلومات سامنے لے آئے گا۔ مثلاً یہ کہ بیماری کیوں ہوتی ہے۔ اس کی علامات کیا ہیں۔ علاج کیونکر ممکن ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سافٹ وئیر ایسی ادویہ تجویز کرے گا جو بیماری کو دور کر سکیں۔ وہ یہ بھی بتائے گا کہ فلاں دوا استعمال کرنے کے نقصان کیا ہیں اور فلاں فلاں ادویہ ایک ساتھ کھائی جائیں تو کیا منفی ردعمل پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی مقصد ہے جس کی خاطر ڈرگ جی ٹی پی کو تخلیق کیا گیا۔
دراصل دنیا بھر میں ڈاکٹر کسی بیماری کی ادویہ تجویز کرتے ہوئے کبھی نہ کبھی غلطی کر جاتے ہیں۔ اس باعث نہ صرف مریضوں کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات مریض جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔گویا غلط ادویہ تجویز کر دینا ایک سنگین اور خطرناک مسئلہ بن چکا۔
مثال کے طور پہ صرف برطانیہ میں برٹش میڈیکل جرنل کی رو سے ہر سال ڈاکٹر ادویہ تجویز کرنے میں’’ 237 ملین‘‘ (تئیس کروڑ ستر لاکھ) غلطیاں کرتے ہیں۔ان کی وجہ سے مریضوں کو ’’98 ملین پونڈ‘‘ (تقریباً پینتیس ارب روپے)کا مالی نقصان ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر’’ سترہ سو مریض‘‘ غلط ادویہ کھا کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کا حساب لگایا جائے تو مالی نقصان کھربوں روپے اور انسانی جانوں کا ضیائع کہیں زیادہ ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کو تشخیص اور ادویہ تجویز کرتے ہوئے مدد دینے کے لیے ہی ڈرگ جی ٹی پی وجود میں لایا گیا۔ یہ سافٹ وئیر آکسفورڈ کی ’’اے آئی لیبارٹری فار ہیلتھ کئیر‘‘ میں ڈاکٹر پروفیسر ڈیوڈ کلنٹن کی رہنمائی میں کام کرتی ٹیم نے تخلیق کیا۔ ڈاکٹر کلنٹن کی رو سے ’’یہ سافٹ وئیر اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ معالجوں کو بتاتا ہے، فلاں فلاں دوا علاج میں استعمال کرنا کیوں ضروری ہے۔‘‘
ڈرگ جی ٹی پی کی ایجاد سے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ دوران علاج اس سے دوسری رائے لے سکیں۔ یوں انھیں مریضوں کا علاج کرنے میں آسانی رہے گی۔ ڈرگ جی ٹی پی کو صرف اس لیے ڈیزائین کیا گیا ہے کہ وہ درست ادویہ منتخب کرنے میں معالجین کی مدد کر سکے۔ اس لیے چیٹ جی پی ٹی، مائکروسافٹ کوپائلٹ،گوگل جیمنی وغیرہ دوران سرچ جو عمومی اور بچکانہ غلطیاں کرتے ہیں، ڈرگ جی ٹی پی ان سے پاک ہو گیا۔ پھر بھی فی الحال ڈاکٹروں کو کہا گیا ہے کہ وہ یہ سافٹ وئیر دیکھ بھال کر استعمال کریں اور اس کی تجاویز پہ آنکھیں بند کر کے عمل نہ کریں۔
ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے ادویہ بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ انہی کی مدد سے مریض اپنے مرض سے چھٹکارا پاتا ہے۔ اسی باعث درست ادویہ کا انتخاب تندرستی پانے کی شرط ہے۔ اس عمل کی اہمیت کے پیش نظر ہی ماہرین نے ڈرگ جی ٹی پی ایجاد کیا۔ امید ہے کہ اس سافٹ وئیر کی مدد سے ڈاکٹر تشخیص اور ادویہ کی تجویز میں ہونے والی غلطیوں پہ قابو پا لیں گے۔
عام افراد مگر خبردار رہیں کہ وہ ازخود یہ سافٹ وئیر استعمال نہ کریں کیونکہ اسے صرف ڈاکٹروں کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔ ڈرگ جی ٹی پی کی بیان کردہ معلومات اور جوابات کو ڈاکٹر ہی بخوبی سمجھ سکیں گے۔ طب سے نابلد کسی انسان نے اپنی بیماری کا علاج اس سافٹ وئیر کے ذریعے کرنے کی کوشش کی تو معمولی سی کوتاہی بھی اُسے قبر میں اتار سکتی ہے۔ لہذا اس سافٹ وئیر کے ساتھ کوئی ایڈونچر کرنے سے باز رہیے گا۔
دنیا میں کچھ ڈاکٹر دوران علاج چیٹ جی پی ٹی یا گوگل جیمنی سے مدد لیتے ہیں۔ تاہم میڈیکل ایسوسی ایشنوں نے یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ ان سے مدد نہ لی جائے کیونکہ وہ کافی غلطیاں کرتے ہیں۔ مگر ڈرگ جی ٹی پی کے موجد، پروفیسر واٹسن کا کہنا ہے: ’’یہ بڑا ماہر اور باخبر سافٹ وئیر ہے۔ اس میں طب کی ساری معلومات فیڈ کی گئی ہیں اور مسلسل نئی ڈالی جا رہی ہیں۔ یہ امریکا میں ڈاکٹری کا امتحان بہ آسانی پاس کر لے گا۔‘‘
[ad_2]
Source link