11

معیشت، ملکی برآمدات میں اضافہ ناگزیر

[ad_1]

وزیراعظم شہباز شریف نے معیشت کی بحالی کے لیے ملکی برآمدات دگنی کرنے کی ایک جامع 5 سالہ حکمت عملی بنانے پر زور دیا ہے۔

اِس اقدام کا مقصد برآمد کنندگان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کے ذریعے بااختیار بنانا، کامیاب کاروباری طبقے اور اہم اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیتوں سے مستفید ہونا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو فروغ دینا حکومت کی اولین ترجیح ہے تاکہ چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کیا جا سکے۔

معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے نئی حکومت جو اقدامات اٹھا رہی ہے، وہ یقیناً دور رس نتائج کے حامل ہیں، کیونکہ جب تک ہماری ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا، اس وقت تک اقتصادی ترقی اور معاشی استحکام سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مصنوعات کی پیداواری لاگت زیادہ ہے جس سے ہمارے ایکسپورٹرز کو عالمی منڈیوں میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ جب انٹرنیشنل امپورٹرز کو دیگر ممالک کی سستی مصنوعات دستیاب ہوں گی تو وہ مہنگی پاکستانی مصنوعات کیوں خریدیں گے؟ اس ضمن میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے فوری ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے جہاں ہماری ایکسپورٹ مصنوعات کی پیداواری لاگت کم ہو، وہیں فوری برآمدات بڑھانا بھی یقینی ہوسکے۔

موجودہ صورتحال میں ملک کے معاشی استحکام کے لیے مختلف مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ، تجارتی خسارے اور درآمدات میں کمی، برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔

تجارتی خسارے میں کمی بھی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب درآمدات میں کمی کی جائے اور برآمدات کو بڑھایا جائے، لٰہذا مستقل بنیادوں پر معاشی بہتری کی جانب پیش قدمی کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات اور تجارتی خسارے میں کمی اور معاشی استحکام میں بہتری کے موجودہ رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی عدم استحکام دور کرنے پر بھی توجہ دی جائے، صنعتی پیداوار کے مختلف شعبوں میں بھی رفتار کو تیز تر کیا جائے تاکہ برآمدات میں اضافے کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ بچایا جا سکے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی حکومت کی تمام تر توجہ آئی ایم ایف سے حصول قرض کی ہے اور ان کے تمام اقدامات کا محور بھی قرضے کا حصول ہے۔ وزیراعظم نے وزارتوں کو آئی ایم ایف اہداف پورے کرنے کا ہدف دیا ہے۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نے آئی ایم ایف کو نئے پروگرام کے لیے بجلی، گیس مہنگی اور نئے ٹیکسز لگانے کی بھی یقین دہانی کرا دی ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے ختم ہوتے ہی سات ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تین سالہ نیا ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام ملنے کی توقع ہے۔

اس کے لیے حکومت نے بجلی گیس ٹیرف بڑھانے اور نئے ٹیکس اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ ایک جانب یہ سب اقدامات اور دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط پر عمل درآمد کے اثرات سامنے آنے لگے، جہاں ایک جانب آئی ایم ایف سے حصول کے لیے حکومتی مساعی جاری ہے، وہاں اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی عوام کو گنا کی طرح مشین میں ڈال کر نچوڑنا ہے۔

حکومتی اقدامات اور فیصلوں سے سارا بوجھ عوام ہی پر پڑے گا ان اقدامات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سے معاشی نمو متاثرہ ہوتی ہے صنعتی شعبہ اور کاروبار روز گار جو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہی ہیں ایندھن کی قیمت میں اضافہ اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ سہار نہیں سکیں گی۔

برآمدات میں کمی سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور حکومتی اقدامات کے باعث مقامی صنعتیں درآمدی اشیاء کے مقابلے میں غیر معیاری ہونے کے باوجود سستی نہیں جس کے باعث عوام غیر ملکی مصنوعات کے استعمال کی طرف مجبوراً متوجہ ہوتے ہیں تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود اسمگلنگ کا مال بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہا ہے ۔ ان حالات میں سمجھ نہیں آتی کہ عوام کوکب تک نچوڑا جاتا رہے گا، سخت اور ناگزیر معاشی فیصلے اپنی جگہ لیکن عوام کو بھی سرنگ کے دہانے پر روشنی کی کوئی کرن نظر آنی چاہیے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو فی الحال اس طرف غور کرنے کی فرصت نہیں۔پاکستان سے متعلق عالمی بینک نے معاشی ڈیویلپمنٹ اپ ڈیٹ کی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق پاکستان میں40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی اقتصادی شرح نمو3.5 کے بجائے1.8 فیصد رہے گی، رواں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 8 فیصد متوقع ہے، میکرو اکنامک خطرات برقرار ہیں اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے، مالی سال 2022-23میں غربت کی شرح میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا۔ گو مضبوط زرعی پیداوار سے مالی سال2024 کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیوں میں بہتری آئی، اعتماد میں بہتری کے ساتھ بعض دیگرشعبوں میں بھی بحالی میں مدد ملی ہے، نمو اور بہتری کی یہ شرح غربت کو کم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ جب بھی کوئی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو کیا اس کے پاس کوئی معاشی پالیسی ہوتی ہے؟ افغانستان لینڈ لاکڈ ملک ہے اور زمینی راستے سے وہاں سامان کی فراہمی کا واحد راستہ ہے۔ ہمیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو جاری رکھنا ہے ۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ہمارے ملک میں کْل سرمایہ کاری کا تناسب جی ڈی پی کے صرف پندرہ فیصد کے مساوی ہے جو بہت کم ہے۔ اس میں سے پرائیویٹ انویسٹمنٹ کا حصہ جی ڈی پی کے صرف دس فیصد کے مساوی ہے جسے بڑھانا ناگزیر ہوچکا ہے۔

مقامی سرمایہ کاری اس وقت تک نہیں بڑھ سکتی جب تک مقامی انڈسٹریز کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ مثال کے طور پر ہماری صنعتوں کو بہت سا خام مال، ضروری کمپونینٹس اور مختلف مشینری جوکہ ملک میں دستیاب نہیں ہوتیں، درآمد کرنا پڑتی ہیں جس پر انھیں 100فیصد کیش مارجن، ریگولیٹری ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا ہوتی ہے، جن کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ بزنس کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ زیرِ التواء ریفنڈز اور متعدد بار آڈٹ کے مسائل حل طلب ہیں۔ مقامی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ہماری حکومت کو ٹیکسیشن سے متعلق کچھ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہونگے جس سے ایز آف ڈوئنگ بزنس میں بھی بہتری آئے گی۔ موجودہ ٹیکس پیئرز کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے متعدد آڈٹ کروانے ہوتے ہیں، ان آڈٹ کی تعداد کو کم کیا جائے۔

اس کے علاوہ، ٹیکس دہندگان کو تمام آڈٹ، پینلٹیز، سرچارجز، بینک اٹیچمنٹ، انکوائریز، اسٹیٹمنٹس، ریٹرنز، رجسٹرڈ افراد کی وِد ہولڈنگ،ا سٹیٹمنٹس/انکم ٹیکس ریٹرن دیر سے فائل کرنے پر جرمانہ اور بہت سے دوسرے مسائل کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے لیے پینلٹیز اور سرچارجز کی شرح کو فوری طور پرکم کیا جائے۔ کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس کو کم کیے بغیر سرمایہ کاری کا بڑھنا تقریبا ناممکن ہے۔

ہماری صنعتوں کو پالیسی ریٹ جو 17فیصد تک جا پہنچا ہے اور ہائی انرجی کاسٹ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے جن کی وجہ سے پیداواری لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بہت سی انڈسٹریز کے لیے بقا برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے ایکسپورٹرز کے بیرونی منڈیوں میں مقابلہ کرنا مشکل تر ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسپیشل اکنامک زونز کی مدد سے صنعت سازی کو فروغ حاصل ہوگا لیکن اگر ان کو اسپیشل اکنامک زونز قرار دیا جائے تو اس سے ان میں سرمایہ کاری اور برآمدات کے فروغ میں بہت مدد ملے گی۔

پاکستان کو ایک عرصے سے اکنامک پالیسیز کے عدم تسلسل کا سامنا ہے، بورڈ آف انویسٹمنٹ اس سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی اداروں میں اعتماد پیدا کرنے اور معاشی پالیسیوں کو موثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے خطے میں اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔پاکستان کو اپنا امپورٹ بل کم کرنا ہوگا اور ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا، اب یہ ممکن کیسے ہوگا اس کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کرنی ہوگی، ویژن کے ساتھ آگے بڑھا جائے اور وسائل کا رخ زراعت سمیت دیگر اہم شعبوں کی طرف موڑا جائے تو بہت کچھ بہتر ہوسکتا ہے اور ماضی قریب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں