[ad_1]
ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ جسے جمعۃ الوداع کہتے ہیں، دنیا بھر میں فلسطین کے نام سے منسوب ہے۔ اس دن کو ’’یوم القدس‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
اس دن کو یوم القدس کا لقب ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی نے دیا تھا۔ انھوں نے ایران میں انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے عوام کو باور کروایا تھا کہ ایران میں امریکی اور اسرائیلی اثر و رسوخ اور ایک ایسی حکومت کو ختم کرنا ہے جو امریکا اور اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے یعنی 1979سے پہلے ایران میں قائم پہلوی حکومت۔ لٰہذا رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں اقوام عالم نے اس دن کو فلسطینیوں کا دن منانا شروع کر دیا۔
آج بھی یوم القدس پوری دنیا بشمول فلسطین میں فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کا دن منایا جاتا ہے۔ امام خمینی کے اس اقدام سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جدوجہد صرف ایران تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں اور انسانوں کی ظالم طاقتوں کے مقابلے میں کامیابی کے خواہاں تھے۔ فلسطین کاز کی حمایت اور فلسطینیوں کے لیے جدوجہد بھی امام خمینی کی زندگی کا بے مثال نمونہ ہے۔
حالیہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کی آمد ہے، اس دن بھی یوم القدس منایا جائے گا۔ اس سال کا یوم القدس منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ فلسطین کے علاقے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے۔ تینتیس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی صرف غزہ کی پٹی میں گزشتہ چھ ماہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ غاصب اسرائیلی حکومت نے منظم انداز میں فلسطینیوں کو قتل کیا، بے گھر کیا اور اب ان کی مدد کے راستے روک کر بھوک اور پیاس کی شدت سے فلسطینیوں پر زندگی تنگ کر نے میں مصروف عمل ہے۔
دنیا بھر میں غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر احتجاج ، مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ عوام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ غزہ میں نسل کشی بند کی جائے۔ خود امریکا میں بھی امریکی عوام اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت غزہ میں نسل کشی سے خود کو باہر نکال لے۔ پوری دنیا میں انسانی جذبہ بیدار ہے اور فلسطینیوں کی حمایت ہر انسان کی فہرست میں اول درجہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مسلمانان عالم اس جمعہ کے لیے خصوصی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی مسلمان اقوام کی طرف سوالیہ نظروں سے بھی دیکھ رہے ہیں کہ کب تک ہم اپنی روزمرہ کی عادی نمازوں اور عبادات میں مشغول رہیں گے؟ کب تک ہم مساجد میں بیٹھ کر فقط دعائیں کرنے پر اکتفا کریں گے ؟ فلسطین کے مظلوموں کی نگاہیں مسلمانان عالم کی طرف سوالیہ انداز میں اٹھی ہوئی ہیں۔ افسوس ہے کہ مسلمان اقوام کے پاس فلسطینیوں کے سوالوں کے جواب موجود نہیں ہے۔فلسطینی عوام اپنے فیصلوں پرکار بند ہیں۔ انھوں نے طوفان اقصیٰ شروع کیا جسے اب طوفان آزادی کا نام دیا ہے۔
اس سال رمضان کے مہینے میں آخری جمعہ کو یوم القدس کو بھی فلسطینیوں نے طوفان آزادی کا عنوان دیا ہے۔ یعنی فلسطینیوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ یہ فلسطین کی آزادی کی جنگ ہے۔ یہ فلسطینی عوام کی عزت اور آبرو اور ناموس کی جنگ ہے۔ یہ جنگ پورے عالم اسلام کے دفاع اور انسانیت کی بقاء کی جنگ ہے۔ یوم القدس کا دن فلسطینیوں کا دن ہے۔ مظلوموں کا دن ہے۔ ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا دن ہے۔
یہ دن ایسے حالات میں ہمارے درمیان واقع ہو رہا ہے کہ جب ہمارے فلسطین کے بھائی اور بہنیں اور ہمارے بچے ایک ایک بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ کھانے کو روٹی نہیں ہے، پہننے کو لباس میسر نہیں ہے۔ جو بھی کوئی امداد آتی ہے اسے امریکا اور اسرائیل کے حکم پر روک دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں دو درجن بچے صرف اس لیے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں کیونکہ ان کو پانی اور خوراک میسر نہ تھی، یہ انتہائی درد ناک المیہ ہے۔
یوم القدس ہمیں موقع فراہم کر رہا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر نئے عزم اور جذبے کے ساتھ اپنی بیداری کا ثبوت دیں۔ آج فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم فلسطین کی مدد کر رہے ہیں بلکہ حقیقت میں ہم خود اپنی مدد کر رہے ہیں۔ آج یوم القدس ہمیں یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ ہم اپنی مدد کریں اپنے آپ کو ظالم اور شیطانی نظام سے نجات دلوائیں۔ اپنا حق ادا کریں۔ عبادات کے ساتھ ساتھ ایک ایسی فرض عبادت یعنی مظلوموں کی مدد کریں۔ یوم القدس ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ آئیں! مظلوم انسانیت کی بقاء اور تحفظ کے لیے متحد ہو کر نکلیں۔ یہ دن اتحاد اور یکجہتی کا عملی نمونہ ہے۔
یہ دن اللہ کے خاص ایام میں سے ایک ہے۔یوم القدس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فلسطین کی عوام اور مسئلہ فلسطین کی حمایت اور مدد سے کسی قسم کا دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ یوم القدس کے دن فلسطینی مظلوم عوام کے حق میں سڑکوں پر نکل آئیں۔ فلسطین کے لیے آواز بلند کریں۔ ظالم طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ اسی طرح حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ یوم القدس کے دن خصوصی تقریبات منعقد کریں اور خاص طور پر پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ یوم القدس کے دن کو ملک بھر میں حکومتی سطح پر منا کر غزہ کے مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم پٹی کرے۔
آئیں! ہم سب مل کر آخری جمعہ یعنی25رمضان المبارک کو اپنے دینی، اخلاقی، سیاسی اور انسانی فریضہ کی ادائیگی کے لیے یوم القدس کے عنوان سے منعقد ہونے والے اجتماعات میں بھرپور شرکت کریں اور یہ ثابت کر دیں کہ اہل پاکستان بیدار ہیں اور اہل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات کے پاسدار ہیں کیونکہ ہمارے قائد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے برصغیر میں سب سے پہلے یوم فلسطین یعنی یوم القدس منایا تھا ۔
انھوں نے سب سے پہلے فلسطین کے مظلوموں کے لیے فنڈ قائم کیا اور مالی مدد کی تھی۔ آج ہمارا یہی فریضہ ہے کہ ہم یوم القدس کے دن اس بات کا عہد کریں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ پالیسی پر گامزن رہیں گے اور فلسطین کے مظلوموں کے لیے سیاسی، اخلاقی اور انسانی ہر قسم کی مدد کریں گے۔ یہی یوم القدس کا پیغام ہے۔
[ad_2]
Source link