[ad_1]
’’دریچوں میں رکھے چراغ‘‘ معروف افسانہ نگار رام لعل کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ اسے اٹلانٹس پبلی کیشنز نے سن 2018 میں شایع کیا ہے، پچھلے دنوں یہ کتاب میرے مطالعے میں آئی تو مجھے یہ خاکے بہت دلچسپ لگے۔
اس مجموعے میں رام لعل نے فراق گورکھپوری، تلوک چند محروم، سید احتشام حسین، سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، علی عباس حسینی، فیض احمد فیض، خواجہ احمد عباس، راجہ مہدی علی خاں، جگن ناتھ آزاد، مصطفیٰ زیدی، ستیش بترا، مہندر ناتھ، کنور مہندی سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، فہمیدہ ریاض، قتیل شفائی، احمد جمال پاشا اور عطا حسین عطا پر خاکے لکھے ہیں۔ یہ کتاب راشد اشرف کی کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
1980 کی دہائی میں یہ مجموعہ لکھنو سے شایع ہوا تھا اور اب اسے کراچی سے راشد نے شایع کیا ہے۔ راشد اشرف لکھتے ہیں ’’ ہندوستانی افسانہ نگار رام لعل کو ہندوستانی کہا جائے یا پاکستانی، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے، ان کے تحریر کردہ افسانوں میں ہندو مسلم بھائی چارے کی ایک ایسی فضا ملتی ہے جو برصغیر کی تقسیم کے دوران پیش آنے والے خون آشام فسادات کی مذمت کرتی نظر آتی ہے۔‘‘
رام لعلؔ کرشن چندر کا خاکہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں ’’میں نے اپنے گھر پر عصمت چغتائی کو چائے پر مدعوکیا، انھی دنوں یہ خبر سننے میں آئی کہ کرشن چندر نے اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں اردو افسانہ نگار سلمیٰ صدیقی سے شادی کرلی ہے، عصمت چغتائی سے اس شادی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی اس موقع پر وہاں موجود تھیں، میں نے پوچھا کہ ’’ سنا ہے کرشن چندر نے اس شادی سے پہلے اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔‘‘
اس بات کی بھی انھوں نے تائید کی، میں نے کہا کہ ’’ ان کا نام کیا رکھا گیا‘‘ تو وہ مسکرا کر بولیں: ’’ نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے، کرشن، کرشن چندر ہی رہیں گے‘‘ میں نے اصرار کیا ’’ یہ بات میں اپنی کریز کی تشفی کے لیے پوچھ رہا ہوں، بتا دیجیے کہ میرے بزرگ دوست کا آخر نیا نام کیا رکھا گیا؟‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولیں ’’سمجھ لو اللہ رکھا‘‘ اور بات قہقہوں میں آئی گئی ہوگئی۔
رام لعل 3 مارچ 1923 کو میانوالی میں پیدا ہوئے اور 16 اکتوبر 1996 کو اس دار فانی سے کوچ کیا۔ وہ عصمت چغتائی کے بارے میں اپنے خاکے میں لکھتے ہیں: ’’ بے باکی کا دامن انھوں نے نہیں چھوڑا ہے۔
عورت کی آزادی جیسے ان کے لیے مشن کا درجہ رکھتی ہے۔ کبھی کبھی وہ اچانک آزادی کی حمایت میں اس قدر آگے نکل جاتی ہیں کہ بے چاری لڑکیاں مارے شرم کے دہری ہو جاتی ہیں۔ اب وہ 77 برس پورے کر چکی ہیں، چلنے پھرنے میں تھوڑی سی دقت محسوس کرنے لگی ہیں، ان کی گردن میں خفیف سا رعشہ نظر آتا ہے، لیکن باتیں وہ ہمیشہ کی طرح چہک چہک کر کرتی ہیں اورکبھی تھکتی نہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک شرارت آمیز شوخی کی چمک بھی ابھی تک برقرار ہے۔
عصمت آپا کے ایک خط کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ ’’رام لعل جی! آپ ادیبوں کی کہانیاں چھاپ رہے ہیں، یا نر مادہ کی علیحدہ علیحدہ کابک بنا رہے ہیں، میں پہلے انسان ہوں بعد میں عورت ہوں۔
میں نے ساری زندگی عورت مرد دونوں کو برابرکی اہمیت دی ہے۔ دونوں کی جہالت، ظلم اور زیادتی پر قلم اٹھایا ہے، اگر مرد ظالم، چور اچکا ہے تو سب سے پہلے وہ عورتیں مجرم ہیں جنھوں نے اسے اپنے عیش و آرام کی خاطر چور اچکا، اٹھائی گیرا بنا دیا۔ مرد دنیا کے جرائم صرف ماں، بہن، بیٹی، بیوی، سالی اور ساس کے عیش و آرام کی خاطر کرتا ہے اور تباہ و برباد ہوتا ہے۔‘‘
علی عباس حسینی پر بھی رام لعل جی نے خاکہ لکھا ہے اور بڑے پیار اور پریم سے لکھا ہے، علی عباس حسینی کے چند افسانے مجھے بہت پسند ہیں، جیسے میلہ گھومنی ، باسی پھول اور رفیق تنہائی جیسے زبردست افسانوں کا ذکر انھوں نے کیا ہے۔ مجھے حسینی صاحب کا ایک افسانہ ’’رفیق تنہائی‘‘ باقی سب افسانوں سے زیادہ اچھا لگا۔
یہ ایک ایسا افسانہ ہے جسے کوئی صاحب دل پڑھے گا تو خود بخود اس کے آنسو نکل آئیں گے۔ رام لعل جی لکھتے ہیں ’’حسینی صاحب سے گھر پر ملنے سے مجھے ایک اور بات کا بھی انکشاف ہوا۔ ایک بہت ہی عجیب بات کا۔ وہ جاسوسی ناولوںکے بڑے رسیا ہیں، اتنے بڑے رسیا کہ آپ یقین بھی نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ اندازہ کر سکتے ہیں اور یقین بھی نہیں کریں گے کہ جس شخص نے ہمیشہ بڑی سنجیدگی سے لکھا، یا جو کچھ لکھا زندگی سے قریب ہو کر لکھا۔ وہی شخص اپنے معمول کا کچھ وقت جاسوسی اور سنسنی خیز کتابیں پڑھنے میں صرف کیا کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کوئی متقی شخص روزانہ چھپ چھپ کر شراب پیتا ہو اور کسی کوٹھے پر بھی جاتا ہو۔‘‘
راجہ مہدی علی خاں لاہور میں پیدا ہوئے۔ مزاح نگاری میں بڑا نام پیدا کیا، راجہ صاحب سے رام لعل کو بڑی عقیدت تھی ایک بار رام لعل صاحب بمبئی میں ان سے ملنے پہنچے تو نوکر نے بتایا کہ وہ باندرہ کے اسپتال میں داخل ہیں، وہ اسپتال کی طرف دوڑے تاکہ اپنے دوست کا احوال جان سکیں، وہاں گئے تو راجہ صاحب کی بیگم سمجھیں کہ کوئی ڈاکٹر انھیں دیکھنے آیا ہے۔
وہ راجہ صاحب سے بولیں ’’ اٹھیے۔۔۔ اٹھیے! ڈاکٹر صاحب آئے ہیں۔‘‘ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن راجہ صاحب نے آنکھیں میچ لیں۔ ’’میں سو رہا ہوں، ڈاکٹر صاحب سے کہہ دو۔‘‘ ان کی بیوی انھیں اٹھاتی ہیں لیکن وہ آنکھیں نہیں کھولتے بلکہ زور زور سے خراٹے لینے لگتے ہیں، میں دھیرے سے معذرت خواہانہ لہجے میں ان کی بیگم کو بتاتا ہوں کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں لکھنو سے آیا ہوں اور میرا نام …‘‘ اب راجہ صاحب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے دونوں بازو پھیلا کر ایک عجیب سے ڈھنگ سے روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’میرا دوست آیا ہے لکھنو سے مجھ سے ملنے، مجھے اٹھاؤ، ارے کم بختو۔۔۔۔ مجھے اٹھا کر بٹھا دو کہ میں اپنے دوست سے گلے مل سکوں۔‘‘ وہ گردوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ میں جتنی دیر ان کے پاس رہا وہ اپنی دلچسپ باتوں سے سب کو ہنساتے رہے۔ مجھ سے معذرت بھی کرتے رہے۔ ’’ میں اسپتال میں تمہاری کیا خاطر کروں؟‘‘ بولے ’’آپ یہیں رہ جاؤ میرے پاس، اسپتال میں دوسرا پلنگ خالی ہے۔‘‘
فہمیدہ ریاض کے بارے میں رام لعل یوں لکھتے ہیں ’’ اردو کے بیش تر مشہور و معروف اہل قلم کی طرح فہمیدہ ریاض کا جنم بھی آزادی سے پہلے 1945 میں ہندوستان میں ہوا تھا، تقسیم ملک سے پہلے ان کی پرورش ان کے آبائی شہر میرٹھ میں ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے وہیں سے سیاسیات میں ایم اے کیا تھا۔
ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ اس زمانے میں منظر عام پر آگیا تھا جب وہ زیر تعلیم تھیں۔ ایک ایسی شاعرہ جس کا ماضی ہندوستان کی نہ صرف شعری روایات بلکہ یہاں کی جدوجہد آزادی کی تاریخ سے بھی وابستہ رہا ہو۔ ایسی پرانی روایات کو توڑنا اور اپنی آنکھوں میں رہ کر اپنی سانسوں کا حال بیان کرنا اردو شاعری کی عورت کے لیے بہت مشکل تھا۔‘‘ جسے فہمیدہ نے سچ کر دکھایا، انھوں نے رائے کا اظہار بڑی شدت سے کیا۔‘‘
فیض احمد فیض کے بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں ’’1951 میں راولپنڈی سازش کیس میں جب فیض جیل میں ڈال دیے گئے تو ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ سجاد ظہیر بھی تھے۔ ان دونوں کا ساتھ 1955 تک رہا، یہیں سے فیض کی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تھی۔
سجاد نے جیل سے جو بے شمار خط اپنی بیوی رضیہ سجاد ظہیر کو لکھے ان میں فیض کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان خطوط سے اس بات کا پتا بھی چلتا ہے کہ فیض جب کوئی نئی نظم لکھتے تھے تو جیل کے اندر خوشی میں ایک جشن منایا جاتا تھا، اس سے متعلق خبروں کے علاوہ ان کی نظمیں جیل سے باہر بھی کسی نہ کسی ذریعے سے پہنچ جاتی تھیں، جنھیں پاکستان اور بھارت کے ترقی پسند رسالے ایک تحفے کے طور پر چھاپ لیتے تھے۔ جیل کے باہر ان کی شہرت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی ان کے اولین مجموعہ کلام ’’نقش فریادی‘‘ کے پانچ ایڈیشن چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔
لاہور جیل میں قید کے دوران فیض کے ایک دانت میں شدید درد رہنے لگا جس کے علاج کے لیے انھیں کڑے پہرے میں جیل کے باہر ایک ڈاکٹر کے کلینک میں لے جایا جاتا۔ ایک دفعہ وہاں لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست نہ ہو سکا تو انھیں تانگے میں سوار کر کے لے جایا گیا، ان کے دونوں طرف اور آگے بھی بندوق بردار سپاہی بیٹھے تھے۔ فیض کو 1959 میں بھی جیل جانا پڑا تھا، جب ایوب خان نے ملک میں پہلی بار فوجی نظام قائم کیا تھا۔ جیل میں رہ کر بھی فیض نے کئی نظمیں لکھیں جو ’’ زنداں نامہ‘‘ اور ’’ دست صبا‘‘ کے نام سے مجموعوں میں شایع ہوئیں۔
[ad_2]
Source link