[ad_1]
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ اور حکومت اور الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے جس کے لیے انھوں نے دیگر جماعتوں سے بھی رابطے شروع کردیے ہیں اور اپنی تحریک کا آغاز 25 اپریل کو پشین میں جلسے کرنے کے اعلان سے کیا ہے جس کے بعد کراچی، پشاور اور لاہور میں بھی جلسے منعقد ہوں گے۔
مولانا کے مطابق 2018 کے بعد فروری 2024میں بھی عوام کے حق رائے دہی پر شب خون مارا گیا ہے۔ انھوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے آگے بڑھ کر عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔مولانا اپنے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے ہارے اور پشین سے محمود خان اچکزئی کے تعاون سے قومی اسمبلی میں کامیاب ہوئے ہیں اور اپنی تحریک کا آغاز بلوچستان سے کریں گے۔ مولانا نے ابھی صرف جلسوں کا اعلان کیا ہے اور اسلام آباد سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا۔
مولانا 2022کی اتحادی حکومت میں شامل تھے اور پی ڈی ایم کے بھی سربراہ تھے جس میں پہلے پیپلز پارٹی بھی شامل تھی اور سولہ ماہ کی اتحادی حکومت میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے بعد جے یو آئی کا حکومتی حصہ زیادہ تھا اور کے پی کے میں انھوں نے اپنے سمدھی کو نہ صرف گورنر بنایا تھا بلکہ اتحادی حکومت کے بعد کے پی کی نگراں حکومت میں بھی جے یو آئی کا اہم کردار تھا مگر کے پی میں جے یو آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ بلوچستان میں انھیں قومی و صوبائی نشستیں ضرور ملیں اور جے یو آئی کو کے پی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں پیپلز پارٹی سے مقابلے میں ایسی شکست ہوئی جس کی انھیں تو کیا اتحادیوں کو بھی توقع نہیں تھی جس کے بعد مولانا کے سابق اتحادیوں نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لیں اور چوہدری شجاعت کے گھر جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تو مولانا کو مدعو کیا نہ ان سے مشاورت کی جب کہ وہاں ایم کیو ایم اور باپ پارٹی موجود تھی مگر جے یو آئی کو بلایا تک نہیں گیا اور جب ان کے آپس میں معاملات طے ہو گئے تو بعد میں میاں نواز شریف جا کر مولانا سے ملے۔
اس ملاقات میں مولانا نے جو شکوے کیے وہ درست تھے مگر پیپلز پارٹی نے تو مولانا کو بالکل بھلا دیا اور پی پی کا کوئی لیڈر مولانا سے ملنے نہیں گیا بلکہ بعض نے مولانا پر تنقید بھی کی جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما غیر متوقع طور پر مولانا کے گھر جا کر ان سے ملے۔ مولانا کی پارٹی نے تحفظات کے باوجود اسمبلیوں کا بائیکاٹ نہیں کیا اور حلف بھی اٹھائے مگر جے یو آئی نے وزیر اعظم اور صدر مملکت کے الیکشن کے بائیکاٹ کا پیشگی اعلان کیا تھا مگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا سے الیکشن کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی نشستوں میں تھوڑا ہی فرق تھا مگر پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے کا اعلان اور آزاد ارکان توڑنے کا اعلان کر دیا تھا اور اپنے ارکان کی تعداد 17 کر لی تھی اور مسلم لیگ (ن) سے عہدوں کی بندربانٹ پہلے ہی کرلی تھی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اصل مقابلہ جے یو آئی کا تھا اور پہلی بار جمعیت کے امیدواروں نے پی پی کے بعد بڑی تعداد میں ووٹ لیے دوسرے نمبر پر جی ڈی اے رہی اور اب جے یو آئی اور جی ڈی اے انتخابی نتائج کے خلاف اندرون سندھ احتجاج کر رہے ہیں اور بڑے جلسے بھی کر چکے ہیں۔سندھ میں پی ٹی آئی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ملنے والی نشستوں پر صرف کراچی میں احتجاج اور دونوں پارٹیوں پر اپنا مینڈیٹ چوری کرنے کے الزامات لگا رہی ہے اور پی پی سندھ میں تنہا اپنی حکومت بنا چکی ہے اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہے جس نے آصف زرداری کو صدارتی الیکشن میں ووٹ بھی دیے ہیں اور مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کر چکی ہے۔
ملک کی سیاست میں آصف زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے مولانا کو نظرانداز کرکے اکثریت نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) سے مل کر بلوچستان میں اپنی حکومت بنا لی اور پیپلز پارٹی میں نئے شامل ہونے والے سرفراز بگٹی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ۔
آصف زرداری نے وزیر اعظم کے لیے میاں شہباز شریف کو ووٹ دے کر اپنی صدارت کے لیے مسلم لیگ (ن) سے ووٹ اور بلوچستان کی حکومت لے لی، اگر پیپلز پارٹی نے اپنے پرانے اتحادی مولانا فضل الرحمن کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوتا تو الیکشن کے بعد مولانا سے رابطہ کرتی اور (ن) لیگ کے ساتھ مل کر مولانا کو اپنے ساتھ ملاتے اور مولانا کو بلوچستان کی حکومت اور کے پی کی گورنر شپ دے کر انھیں اپنے ساتھ رکھا جا سکتا تھا اور (ن) لیگ کو اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کو راضی کرنا چاہیے تھا مگر پی پی نے سندھ میں اپنا مقابلہ کرنے پر جے یو آئی کو اپنا حریف سمجھا، جس کی وجہ سے مولانا بھی پی پی اور (ن) لیگ سے ناراض ہوگئے اور انھوں نے تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے،اگر بات اسلام آباد میں دھرنے تک گئی تو ممکن ہے پی ٹی آئی مولانا کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے تعاون پیش کرے اور یہ سب کچھ دونوں حکومتی پارٹیوں کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہوگا ۔
[ad_2]
Source link