[ad_1]
ارشاد ربانی کا مفہوم: ’’یقیناً ہم نے (قرآن حکیم) کو شب قدر میں نازل فرمایا تُو کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے! شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں ہر کام کے سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیلؑ) اترتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)
عربی میں قدر کے معنی تقدیر، حکم، عظمت، بڑائی اور عزت کے ہیں۔ اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ شب قدر میں چوں کہ تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال ماہ رمضان المبارک سے اگلے رمضان المبارک تک پیش آنے والا ہوتا ہے۔
وہ ان فرشتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے اس لیے اس رات کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ قدر کی رات کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب قرآن حکیم رسول کریمؐ پر نازل فرمائی، سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رسول کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم پر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ یقیناً ہر قسم کی بھلائی سے محروم رہ گیا۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے شب قدر کی فضیلت کی چار وجوہات بیان فرمائی ہیں: نزول قرآن۔ ہزار ماہ سے افضل عبادت۔ نزول ملائکہ اور پوری شب امن و سلامتی۔
رسول کریمؐ کے فرمان عالی شان کا مفہوم: ’’شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ شب قدر کا تعین نہ کرنے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے بہتری ہے۔ اگر شب قدر کا علم باقی رکھا جاتا اور بتا دیا جاتا تو پورا رمضان المبارک سستی اور غفلت میں گزرتا اور صرف شب قدر میں عبادت کی جاتی یا جس کی شب قدر بغیر عبادت کے گزر جاتی تو وہ باقی رمضان المبارک کے ایام دُکھ اور افسوس میں گزارتا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی رحمت نے گوارا نہ کیا کہ اس عظمت والی رات کے معلوم ہونے کے بعد کوئی گناہ پر جرأت کرے کیوں کہ اس شب کے پانے پر ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔ اب انسان شب قدر کی تلاش میں ہر وقت عبادت و ریاضت میں اعتکاف کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ تعالیٰ کی بندگی و عبادت میں گزارتا ہے۔
بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اﷲ کے قُرب اور اجَر کی خاطر کھڑا رہا (عبادت کی غرض سے) اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوگئے۔‘‘
محدثین نے لکھا ہے کہ اس رات گرمی ہوتی ہے اور نہ زیادہ سردی۔ اس رات میں شہاب ثاقب نہیں ٹوٹتے، اس رات کی صبح کو سورج طشت کی طرح طلوع ہوتا ہے۔ یعنی اس کی شعاعیں نہیں ہوتیں اور اس طرح ہوتا ہے کہ سورج نہیں بل کہ جیسے کہ چودھویں کا چاند ہے۔ شیطان کے لیے روا نہیں کہ اس روز کے سورج کے ساتھ نکلے۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص شب قدر سے محروم ہوگیا، گویا پوری بھلائی سے محروم ہوگیا اور شب قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو۔‘‘ (ابن ماجہ)
مذکورہ حدیث پاک کے پیش نظر مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات غفلت نہ کریں۔ شب قدر رمضان المبارک کا نہایت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے رسول کریمؐ سے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! اگر مجھے شب قدر کا پتا چل جائے تو کیا دعا مانگوں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’یااﷲ! بے شک! تُو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے معاف فرما۔‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی)
اہل ایمان کو اس رات میں نماز، تلاوت، درود شریف اور دعاؤں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ اس طرح ہر قسم کے اعمال کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ اﷲ تعالیٰ اہل ایمان کو ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کرنے اور سعادتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[ad_2]
Source link