[ad_1]
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام ضروری ہے، نئے معاہدے کی شرائط آسان نہیں ہوں گی لیکن ہمارا منصوبہ ہے کہ غریب آدمی اور پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ کم سے کم پڑے اور یہ بوجھ ان پر ڈالا جائے جو یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب عالمی بینک نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات نہ ہوئیں تو بجلی کی قیمت میں مزید اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا ۔
نئی منتخب حکومت آنے کے بعد ملکی معیشت میں بہتری کی امید چلی ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ پہلی بار وزیراعظم آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے سب کچھ چھپانے کے بجائے عوام کو سچ بتا رہے ہیں۔
بلاشبہ معیشت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ اچھی خبریں آرہی ہیں، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے، گزشتہ چند ماہ سے روپے کی قدر میں بھی استحکام نظر آ رہا ہے۔ مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد ضروری ہے۔ ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا اور ٹیکس چوری کو روکے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
صنعتی ترقی کو آسان بنانے اور برآمدی مسابقت کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، جیسے سڑکیں، بندرگاہیں اور توانائی کے منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا۔اس وقت پاکستان کا گردشی قرضہ بڑھ کر 5.7 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے جو کہ جی ڈی پی کا 5.4 فیصد ہے ،آئی ایم ایف کی جانب سے 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے جائزے کے دوران مقررکردہ 4 فیصد کی حد کو عبور کر گیا ہے۔
پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.703 جب کہ گیس سیکٹر کا 3.022 ٹریلین روپے ہے۔ اسمارٹ ٹیکنالوجی سے بجلی سسٹم لاسز چھ ماہ میں پچاس فیصد تک کم کیے جاسکتے ہیں۔ بھارت سمیت مختلف ممالک میں اسمارٹ گرڈ اور اسمارٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے، لیکن پاکستان میں اس کا فقدان ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں بجلی کافی مہنگی بنائی جارہی ہے، ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن لاسز بھی کافی ہیں، جدید ٹیکنالوجی سے ان پر قابو پاکر صارفین کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت کے نزدیک معاشی استحکام لانے کے لیے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے کندھوں پر پڑا ضرورت سے زیادہ بوجھ اُتار پھینکیں اور یہ کام جتنی جلدی ہو، اتنا ہی اچھا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بولیاں طلب کر لی گئیں۔
حکومت صرف ہوا بازی کا شعبہ نجی تحویل میں دینا چاہتی ہے جس کے 51 فیصد شیئرز نجی تحویل میں دیے جائیں گے جب کہ باقی ماندہ 49 فیصد شیئرز حکومت پاکستان کی ملکیت میں ہی رہیں گے۔ ماضی میں پی آئی اے وہ ادارہ تھا جس کی تعریف ملکہ برطانیہ نے بھی کی تھی، مگر یہ ادارہ بھی کبھی تبدیل ہوتا نظر نہیں آیا۔
کچھ وقت کے لیے عارضی طور پر یہ منافع میں نظر آتا ہے، مگر پھر سیاست کا شکار ہوجاتا ہے۔ پی آئی اے سے اگر حکومت فائدہ اٹھانا چاہے اور کم قیمت پر عوام کو ٹکٹ اور کارگو کی ٹرانسپورٹیشن کے مواقع دے تو تجارت میں بھی اضافہ ہوگا اور قومی ایئر لائن کے تمام جہاز مکمل گنجائش کے استعمال کے ساتھ چلنا شروع ہوجائیں گے، لیکن اس کی نسبت اس ادارے کی نجی کاری کو ہی حکومت بہتر سمجھ رہی ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ ریکوڈک میں بھی سعودی عرب کی طرف سے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔
ہم انسانی وسائل اور خصوصاً ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، عالمی ادارے تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان درست سمت پر گامزن ہے، سخت فیصلے لینے کے ثمرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے صنعتوں کے لیے ٹیکس مراعات سے متعلق کابینہ اور ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات منسوخ کرنے، تعمیراتی شعبے کے لیے خصوصی ٹیکس نظام جلد از جلد ختم کرنے، زرعی آمدن اور پراپرٹی ٹیکس کی بنیاد میں توسیع کے علاوہ غیر منافع بخش تنظیموں کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کر کے ٹیکس نیٹ میں لانے اور ایف بی آر کو خیراتی اداروں کو دی جانے والی ٹیکس مراعات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کر دی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے نے وزارت خزانہ میں ٹیکس پالیسی یونٹ قائم کرنے کی سفارش کے علاوہ بجلی و گیس چوری ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومتی ڈسکوزکی انتظامیہ نجی شعبے کو منتقلی کا ٹائم فریم مانگ لیا ہے، ساتھ ہی ساتھ زیادہ نقصانات والے علاقوں میں بجلی بل وصولی آؤٹ سورس کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا کل حجم بڑھنے کے بجائے 2 سال میں مزید سکڑ کر 341 ارب ڈالرز کی سطح پر آگیا ہے، بنگلا دیش کی معیشت کا سائز 460 ارب ڈالرز جب کہ بھارت کا 3400 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا۔ معیشت سکڑنے کے باعث روزگار بھی کم ہوگیا، 10 کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ مہنگی بجلی اور اونچی شرح سود کی وجہ سے کاروبار ٹھنڈے پڑے ہیں، کاروباری لاگت کم ہوگی تو خوشحالی آئے گی۔ پاکستان ایک شاندار ثقافتی ورثے اور متنوع آبادی والا ملک ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ برسوں سے مسلسل اقتصادی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔
اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل کے باوجود پاکستانی معیشت کو بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ معاشی مشکلات ہی پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔جہاں حکومتی اخراجات محصولات سے زیادہ ہیں۔ یہ خسارہ ملک کے قرضوں کے بحران میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بھاری قرضے لینے کا باعث بنا ہے۔ مہنگائی کی اونچی شرح نے اوسط پاکستانی کی قوت خرید کو ختم کر دیا ہے، جس سے شہریوں کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔
ملک میں نوجوانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں نوجوانوں کی تعداد خوش آیند ہے وہیں بے روزگاری کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بجلی کی مسلسل قلت صنعتی ترقی میں رکاوٹ ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ حکمران طبقہ توانائی بحران کو حل کرنے میں بہتر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل اور دہشت گردی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا ہے اور معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بدعنوانی بھی ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
جہاں امن و امان کی خراب صورتحال نے معاشی ترقی کو روکا ہے وہیں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام بھی معاشی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں، بدعنوانی کے اسکینڈلز اور طویل مدتی پالیسی کے تسلسل کی کمی نے اقتصادی منصوبہ بندی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مختلف حکومتوں میں متضاد اقتصادی پالیسیوں نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی عدم فراہمی سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر نے صنعتی ترقی اور برآمدی صلاحیت کو روکا ہے۔
وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اور ایک بڑی غیر رسمی معیشت نے حکومتی محصولات کو محدود کردیا ہے اور مالیاتی خسارے میں حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ معیاری تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی سے محروم ہے جس کے نتیجے میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔ پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شرح مبادلہ میں متواتر اتار چڑھاؤ نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضوں اور مالی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے اور بہتری کی راہ ہموار کرنے کے لیے کئی انقلابی اور حقیقت پسندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افراد کو تیار کرنا نہایت اہم ہے۔ علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی استحکام کو اقتصادی پالیسیوں میں ضم کرنا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور طویل مدتی منصوبوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کو تیار کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا، اگر ہم یہ فیصلے کرتے ہیں تو مشکل حالات اور بڑی بڑی رکاوٹوں کے باوجود گو کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں لیکن اسٹرٹیجک اصلاحات اور اقدامات سے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔
سیاسی استحکام، مالیاتی نظم و ضبط، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور سرمایہ کاری کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنے کے کلیدی شعبے ہیں۔ مزید برآں، بدعنوانی، تعلیم، اور سماجی تحفظ جیسے مسائل کو حل کرنا جامع اور لچکدار معیشت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوگا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پائیدار اصلاحات اور ترقی کے عزم کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔
[ad_2]
Source link