[ad_1]
قتیل شفائی کی ایک خوبصورت غزل کا مطلع ہے ؎
دور تک چھائے تھے بادل اور کوئی سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
اس میں اگر’تھا‘‘ کی جگہ’’ہے‘‘ کردیا جائے تو شعر ماضی سے حال میں آجائے گا۔اور پھر آپ سامنے دیکھیں گے تو ٹھیک ہی منظر آپ کے سامنے موجود ہوگا
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
ہر طرف بادل ہی بادل ہیں گھٹائیں ہی گھٹائیں ہیں رنگ برنگے بادلوں میں طرح طرح کی شکلیں بھی بن رہی ہیں۔لیکن سایہ کوئی نہیں وہی بیابان ہے وہی دشت ہے وہی جھلسادینے والی دھوپ ہے وہی آگ برساتا ہوا موسم ہے وہی ریگستان ہے اور اس میں وہی ’’بگولے‘‘ ناچ رہے ہیں۔وہی پسینے اور جلتے بھنتے، ہانپتے کانپتے خدامارے لیڈر زدہ،جمہوریت زدہ۔اور بیانات زدہ احمق بے وقوف کالانعام
سارے بدن کا خون پسینے میں ڈھل گیا
اتنا جلے کہ جسم ہمارا پگھل گیا
لیکن بادلوں میں کوئی فرق نہیں آیا اس میں وہی بیانات کے گرج ہیں چمک ہیں اور برق وشرر ہیں وہی کھوکھلے جھوٹے اور منافقانہ بیانات وہی ریکارڈ شدہ لوریاں، وہی کبھی نہ آنے والے سبز باغ۔وہی پیراڈائز لاسٹ پہنچانے کے وعدے ؎
اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے
جسم سے آگ نکلتی ہے قباگیلی ہے
رونا رہزنوں پر نہیں آتا۔بلکہ بار بار لٹنے والوں پر آتاہے یہ کتنے احمق لوگ ہیں۔لٹتے ہیں اور پھر رہزنوں کو رہبر بناتے ہیں۔ ہم نے سنا ہوا ہے کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا۔تو یہ کیسے مومن ہیں جو بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں اور یہ پھر ان ہی سوراخوں میں انگلیاں گھسیڑتے ہیں، شاید یہ بات صحیح ہے کہ
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
مجھ کو بے رنگ نہ کردیں کہیں یہ رنگ آئنے
سبز موسم ہے ہوا سرخ فضا نیلی ہے
پورا حساب تو کوئی ریاضی دان ہی لگائے گا لیکن ہم اندازے اور سرسری نظر سے دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اس وقت بہت سے میدانوں میں ٹاپ کررہا ہے مثلاً صرف جائزہ لیا جائے تو اس وقت پاکستان میں جتنا ’’جھوٹ‘‘ بولا جارہا ہے لکھا جارہا ہے اور سنا پڑھا جارہا ہے ساری دنیا میں سارا بولنے والا جھوٹ اس سے کم ہی نکلے گا۔اسی طرح کرپشن میں بھی پاکستان چمپئنزٹرافی کا حق دار ہے جب کہ قانون کے نام پر لاقانونیت میں بلیک لسٹ کے لیے کوالی فائی کرچکا ہے
پہلے رگ رگ سے میرا خون نچوڑا اس نے
اب وہ کہتے ہیں کہ رنگت تیری کیوں پیلی ہے
عدالتوں کو بے کار کرنے میں بھی اس کا جواب نہیں ہے۔اسی طرح سیاست کو تھیٹر بنانے اور جمہوریت کو طوائف بنانے میں دنیا کا کوئی ملک اس کی ہمسری نہیں کرسکتا’’ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے‘‘
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ایک زمانے میں میلے سجا کرتے تھے، یہاں طوائفوں کی درجہ بندی ان کی کمائیوں اور تماش بینوں کا مقام ان کی رسوائیوں سے ہوتا تھا۔ملک بھر سے نامی گرامی طوائفیں اور تماش بین آکر اکٹھے ہوتے تھے، ایک وسیع علاقے میں طوائفوں کے الگ الگ طائفے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔اس میں اکثر بڑے بڑے امرا لوگ بھی آکر طوائفوں کے فن ، گانے ، رقص اور اداؤں کی داد دیا کرتے تھے۔ ہم خود تو کبھی اس بابرکت اجتماع میں نہیں گئے تھے کیونکہ آخر میں یہ ٹورنامنٹ بند ہوگئے تھے۔ البتہ جب ہم ریڈیو میں تھے تو ایسے لوگوں سے بہت کچھ سنا جو اس میلے کے یاتری رہے تھے۔
ان میں ایک ربابی استاد بھی تھا جو کئی طوائفوں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوتا رہا تھا۔ واقعات تو اس نے ہمیں بہت سنائے تھے کہ کس طرح بڑے بڑے لوگوں میں ٹھنی رہتی تھی۔طوائفوں پر پیسہ لٹانے میں تماش بین اپنے اجداد کی کمائیاں یوں اڑاتے تھے جیسے اگر بہت جلد اس سے چھٹکارا نہیں پایا تو قیامت آجائے گی۔ان کے اجداد اولادوں کے لیے کاروبار کی شکل میں ٹکسال چھوڑ گئے تھے جب کہ دوسرے فریق نے جھوٹے خداؤں یعنی حاکموں کی خوشامد کرکے جائیدادیں اور جاگیریں چھوڑی تھیں۔اور ان دونوں قسم کے ’’زادگان‘‘ نے ان دولتوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے تماش بینی کو وطیرہ بنالیا تھا۔
آخر ’’مواد‘‘ کو نہ نکالا جائے تو ’’پھوڑا‘‘ تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ ربابی استاد اس عبرت سرائے دہر میں تھوڑا بہت فلسفی بھی ہوگیا تھا،اکثر باتیں کہاوتوں اور شعروں میں کرتا تھا چنانچہ اس کا کہنا تھا کہ حرام کی دولت کبھی ’’حلال‘‘ کے راستے پر جاتی ہی نہیں۔اور اپنے لیے کوئی نہ کوئی حرام کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ہمارے سامنے بھی جو’’میلہ‘‘ چل رہا ہے وہ تقریباً ویسا ہی، تماش بین بھی ویسے ہی ہیں، نواب زادے بھی ویسے ہی ہیں، کچھ دنیاوی ’’اجداد‘‘ کے زادگان ہیں اور کچھ نام نہاد روحانی اجداد کے زادگان۔جو اس طوائف کو نچا رہے ہیں جس کا نام’’اگلے زمانوں میں’’رادھا‘‘ تھا اور اسے نچانے کے لیے ’’نومن تیل‘‘ چاہیے ہوتا تھا او آج کل اس کا نام سیاست ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ یہ کالانعام صدیوں کے ’’دماغی عدم استعمال‘‘سے کتنے احمق ہوگئے ہیں اور اشراف دماغی کثرت استعمال سے کتنے چالاک ہوگئے ہیں
میر کیا سادہ ہیں ’’بیمار‘‘ ہوئے جس کے سبب
اسی ’’عطار کے لونڈے‘‘ سے دوا لیتے ہیں
کتنی صدیاں بیت چکی ہیں۔پلوں کے نیچے کتنا پانی اور اوپر لوگ گزر چکے ہیں لیکن وہی بے ڈھنگی چال جو چل رہی تھی چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔وہی بتکدہ وہی بت ہیں وہی پچاری اور وہی پوجنے والے
صرف’’خوشبو‘‘ کی کمی تھی فصل گل میں اے قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
[ad_2]
Source link