[ad_1]
رمضان المبارک کا عشرہ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ یہ مبارک مہینہ مسلمانوں کو دین اسلام اور پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ سے تعلق کو ایک نئی تازگی اور تراوت دیتا ہے۔
عشق رسول کی نعمت کی یوں تو ہر مسلمان کو خواہش اور تمنا ہوتی ہے لیکن اس کی عطا اسے زیادہ ہوتی ہے جسے تڑپ زیادہ ہوتی ہے۔ اس پر علامہ اقبال کا یہ فارسی قطعہ اپنی مثال آپ ہے:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
در حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفے پنہاں بگیر
(ترجمہ؛ اے اللہ آپ دو عالم کے مالک ہیں اور میں آپ کا ایک حقیر بندہ ہوں۔ روز محشر میری ایک درخواست قبول فرمائیں۔ اگر میرا حساب و کتاب لینا ناگزیر ہی ہو تو نگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر حساب لیں)۔
یوں تو امت مسلمہ پر پچھلی کئی صدیاں بھاری ثابت ہوئیں لیکن حال ہی میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری جنگ میں انسانی حقوق اور ظلم و ستم کی تو جیسے انتہا ہو گئی۔ستم بالائے ستم پوری دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے بشمول امت مسلمہ۔ منمناتی آواز میں او آئی سی اور کچھ مسلم ممالک جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ضرور نظر آئے لیکن ظالم کو یہ تسلی رہی کہ کوئی اس کا ہاتھ روکنے آگے نہیں آئے گا۔
نتیجہ یہ کہ سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ آج چھ ماہ کے بعد بھی جاری ہے، کچھ یوں کہ غزہ کی پوری آبادی تہس نہس اور تباہی کے ڈھیر بن چکی اور رفاہ کے چھوٹے سے علاقے میں دھکیل دی گئی ہے جہاں اسرائیل کی افواج بے دردی اور بے رحمی سے روزانہ سیکڑوں شہید اور ہزاروں کو زخمی کر رہی ہے۔ اور دنیا دیکھ رہی ہے ! سلامتی کونسل کی قرارداد، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی رولنگ اور مغربی ممالک میں شدید عوامی رد عمل کے باوجود دنیا کی بڑی سپر پاورز کسی انجانی مجبوری کا شکار ہیں۔ ظالم کا ہاتھ رکنے میں نہیں آ رہا۔ طبیعت پر مسلسل بوجھ ہے اور ملال بڑھتا جا رہا ہے۔
ایسے میں قرآن اور پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ کی طرف رجوع قلب کے لیے تقویت اور ہمت کا باعث ہے۔اہل عرب جب اپنے کسی بھائی کو دکھ یا تکلیف میں دیکھتے تو اس کی تسلی اور دل جوئی کے لیے اکثر یہ قول دہراتے؛ اے میرے عزیز بھائی! باہمت اور باوقار لوگوں کی طرح اولین لمحات میں صبر و تحمل کا راستہ اختیار کرو۔
آج جس دکھ یا مصیبت نے تجھے مغموم اور دل گرفتہ کر دیا ہے، اس عرصہ غم میں تم اگر اللہ کے حبیب رسول کریم کی حیات طیبہ میں پیش آنے والے دکھ کے لمحات اور صدمات کو یاد کرو تو تمہیں اپنی تکالیف اور غم چھوٹے نظر آئیں گے۔سیرت رسول موضوع ہی ایسا حیات افزاء ہے کہ اس پر لکھی گئی کتابوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
حال ہی میں ہمیں سیرت کی ایک منفرد کتاب “پیغمبر اسلام” کے مطالعے کا موقع ملا۔ اس کے مصنف محمد عبدالقیوم ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔کچھ عرصہ سیاست کے کوچے کی سیاحت بھی کی لیکن پھر کاروبار کے ہو رہے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ ان کا محبوب ترین مشغلہ سیرت رسول کا مطالعہ رہا۔ اپنے دفتر میں سیرت پر مشتمل کتب کا ایک وسیع ذخیرہ ہے جو دیکھنے لائق ہے۔
ایک دن دل میں یہ لگن سمائی کہ سیرت رسول پر ایک منفرد انداز میں کتاب لکھیں۔ سالہا سال کی کاوش اور مشقت کے بعد پیغمبر اسلام کے عنوان سے 700صفحات پر مشتمل کتاب اسی لگن کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں حیات طیبہ کے واقعات کی ترتیب اور پیش کاری میں یہ نکتہ پیش نظر رہا کہ رسول اکرم ﷺ کو نبوت سے قبل اور بعد از بعثت جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکر ترتیب وار اور حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جائے۔
رسول اکرم کی پیدائش سے قبل ان کے والد محترم کا انتقال، بعد میں والدہ محترمہ کی وفات، شفیق اور مہربان دادا جان کا انتقال… اور یوں ترتیب کے ساتھ ان تمام واقعات اور مصائب کا ذکر ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک آزمائش تھے۔ جس طرح رسول اکرم نے ان مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا ان کے امتی ہونے کے ناطے ہمارے لیے ان کی یہ سیرت مشعل راہ ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جائے؟ ڈاکٹر محمد حمید اللہ معروف اور عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر کی فرانسیسی میں تحریر کتاب کا اردو ترجمہ بھی پیغمبر اسلام کے نام سے کیا گیا، اس میں یہ توجیہ کچھ یوں درج ہے۔
تاریخ نے ایسے لاتعداد بادشاہوں، دانشوروں، ولیوں اور دوسرے ممتاز رہنماؤں کا ریکارڈ پیش کیا ہے جن کی زندگی ہمارے لیے بہترین قابل عمل مثالیں ہیں۔پھر آخر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جائے جو کہ 1400سال قبل اس دار فانی سے پردہ فرما گئے؟ اور اس دوران سائنس کی قابل قدر ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریات میں ٹھوس تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے رہبر و رہنما حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی نہ کرے لیکن وہ افراد جو ابھی تک نبی آخر زماں کی سیرت کی تفصیلات سے اگاہ و آشنا نہیں ہے، ان کے لیے بھی یہ مطالعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے آپ نے اپنی نگرانی میں انتہائی قابل اعتماد انداز میں محفوظ کرنے کی خاطر تحریر میں لانے کا اہتمام کیا۔دوسرے مختلف بڑے مذاہب کے بانیوں میں سے صرف محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس نے وقتا فوقتا رب تعالی کی جانب سے وحی اور احکامات کو نہ صرف اپنی امت کے افراد تک پہنچایا بلکہ اپنے کاتبوں کو لکھوایا اور اس کے کئی نسخے اپنے پیر و کاروں تک پہنچانے کا محتاط و محفوظ انتظام فرمایا۔
جہاں تک آپ کی تعلیمات کے تحفظ کا تعلق ہے، یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ رب تعالی کی جانب سے نازل ہونے والے کلام کے مختلف حصوں کو اپنی نمازوں میں تلاوت کریں۔ اس طرح اس متبرک کلام کا زبانی یاد کرنا لازم ہو گیا۔
یہ روایت بغیر کسی رکاوٹ کے آج تک جاری و ساری ہے۔نبی آخر الزماں اپنے مشن کے پہلے ہی روز سے تمام دنیا سے مخاطب ہوئے۔ آپ کسی ایک قوم یا کسی زمانے تک محدود نہیں رہے۔ آپ نے رنگ و نسل اور سماجی و معاشرتی درجہ بندیوں کی غیر مساوی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔
اسلام میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہیں اور ذاتی برتری کی بنیاد پر نیک اعمال و افعال پر ہے۔آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہے یعنی عقائد، روحانی عبادات، اخلاقیات، معاشیات ،سیاست الغرض وہ تمام کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی روحانی ومادی زندگی سے ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ ﷺ نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل و عمل کی مثال چھوڑی ہے۔چنانچہ کسی بھی فرد کو آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے۔
[ad_2]
Source link