[ad_1]
رمضان المبارک کا مہینہ الواداع کہہ رہا ہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رحمان کو راضی کررہے ہیں اور شیطان کی قید سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس مبارک ماہ میں اللہ پاک نے جن لوگوں پر خاص انعام وفضل وکرم کیا ہے وہ قابل دیدوقابل صد تحسین ہیں۔ رمضان کا مبارک ماہ اللہ پاک کی طرف سے احسان عظیم ہے جس میں عبادات کا لطف وسرور اور رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے اس مبارک ماہ کے اختتام پر اور شوال ماہ کے آغاز پر اللہ پاک نے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم دن اور مقرر کیا ہے جسے عیدالفطر کے نام سے جانا اور منایا جاتا ہے عیدالفطر مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے عیدالفطر کی رات کو عرف عام میں چاند رات کہا جاتا ہے۔ چاند رات کو فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ بتاؤ، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟
وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد (ﷺکی امت) کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام کی رات کے نام سے بھی مشہور ہے۔
؎وہ عید بھیج ،کہ لائے نویدِ آبادی
ہلالِ عید کو کر دے نویدِ آزادی
الٰہی آج نہ سائل پھرے ترا محروم
ترا غلام ہوا تیرے در کا فریادی
ذرا غور کریں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟ حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے، تمھاری خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میں نے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔
روزہ اور قرآن دونوں بارگاہ الٰہی میں سفارشی
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے: رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا: اے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا، اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا: اے رب! میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
کتاب ہدیٰ میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کام یاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور بے پرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے:
لیس العید لمن لبس الجدید۔۔۔۔۔انما العید لمن خاف الوعید
عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لیے، عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا۔
یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے عہد وذمہ داری کے امتحان میں کام یاب ہوگیا۔
ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔
مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنا نہیں۔
خالق وہی جہاں کا مالک وہی جہاں کا
داتاوہی جہاں کا، رازق وہی جہاں کا
جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔ اللہ تعالٰی سورہ محمد ﷺ میں فرماتے ہیں: اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔
عید کی مسرت اور خوشی یقیناً ان لوگوں کو زیادہ ہوگی جنہوں نے روزوں کا احترام کی اور قیام اللیل کیا۔ اللہ والے عید کے دن بھی آنسو بہاتے ہیں اور رب کو مناتے ہیں۔
ایک مرتبہ عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زاروقطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المومنین! آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟
آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا، ھٰذا یوم العید وھٰذا یوم الوعید۔
اے لوگو !یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کے لیے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لیے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ! مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کردیا گیا ہوں۔
یہ وقت کے امیرالمومنین تھے جن کے ان جملوں نے ہر مسلمان کو تڑپا کر رکھ دیا کہ مسلمانو! اپنے اعمال پر نہ اتراؤ بلکہ اعمال کی قبولیت کے لیے دامن کو بھی پھیلاؤ اللہ پاک اس ماہِ مبارک میں کی جانے والی ہماری تمام عبادات کو قبول ومنظور فرمائے اور عید کے دن کی خوشیاں ہمیں نصیب فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سید الانبیاء والمرسلین)
[ad_2]
Source link