[ad_1]
کرہ ارض پہ بستے دو ارب سے زائد مسلمان عنقریب عیدالفطر منائیں گے۔یہ دو بڑے اسلامی تہواروں میں سے ایک مقدس و عالم اسلام کا محبوب تہوار ہے۔
عربی میں لفظ عید کے معنی ہیں:’’خوشی، فرحت، جشن۔جبکہ فطر کا مطلب ہے:روزہ کھولنا۔ چونکہ عید کے دن رمضان کے روزے اختتام کو پہنچتے ہیں لہذا اس روز اللہ تعالی روزے رکھنے اور عبادت کرنے پر مسلمانوں کو اجر وثواب سے نوازتے ہیں۔یہ خوشی کا مقام ہے، اسی لیے اسے عید کہا گیا۔
اس سال عید کے موقع پہ اہل غزہ کو بھی یاد رکھیے جو نہایت مشکل وقت گذار رہے ہیں۔اسرائیل ان کی نسل کشی پہ تُلا ہے اور دنیا والے اس ظالم کو ظلم وستم کرنے سے روک نہیں پائے۔عید کا یہ موقع مسلمانان ِ دنیا کو دعوت دیتا ہے کہ انھیں اپنی ایسی خصوصی فوج بنانی چاہیے جو اسرائیل جیسے ظالموں کا راستہ روک سکے اور انھیں بے سہارا و بے یارومددگار مسلم بہن بھائیوں اور بچوں پہ ظلم نہ کرنے دے۔
مسلمانان ِ عالم اس پُرمسرت موقع پہ بعض روایات مشترکہ طور پہ اپناتے ہیں۔مثلاً صبح کوئی میٹھا پکانا، پھر نماز پڑھنے جانا، نماز کے بعد عیدی ملنا، بچوں کو رقم کا تحفہ دینا، رشتے داروں سے ملنے جانا اور پارکوں میں جا کر سیر کرنا ۔جبکہ عید الفطر کی ہر ملک سے مخصوص روایات بھی جنم لے چکیں جنھیں وہاں رہنے والے مسلمان ہنسی خوشی انجام دیتے ہیں۔ذیل میں بڑے اسلامی ممالک میں عید الفطر کی روایات کا معلومات افروز اور دلچسپ احوال پیش ہے۔
انڈونیشیا
ایک زمانے میں یہ دیس دنیا میں سب سے بڑا اسلامی مملکت تھا۔مگر اب پاکستان اس سے یہ اعزاز لے کر اپنے نام کروا چکا۔ جدید اعداد وشمار کی رو سے انڈونیشیا میں تئیس کروڑ دس لاکھ مسلمان بستے ہیں۔جبکہ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی تئیس کروڑ تیس لاکھ سے بڑھ چکی۔یوں اب کرہ ارض پہ سب سے زیادہ مسلمان پاکستان میں بستے ہیں۔گو انڈونیشیا کی آبادی اب بھی پاکستان سے چار کروڑ زیادہ ہے۔
انڈونیشیا میں عید کو ہری رایا عید الفطر کہتے ہیں جس کے معنی ہیں: عید کا جشن۔ جشن کا آغاز تکبیرِ اذان سے ہوتا ہے۔عید کی نماز عام طور پر بڑی کھلی جگہوں پرپڑھی جاتی ہے۔ نماز کے بعد لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے جاتے اور ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں۔ انڈونیشیا میں’ ’مودک‘‘ کی روایت بھی ہے، جس کا مطلب ہے: تعطیلات کے لیے اپنے آبائی شہر واپس جانا۔ مودک کی روایت اتنی اہم ہے کہ حکومت لوگوں کے لیے سفر میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ مہیا کرتی ہے۔ لاکھوں لوگ جو بڑے شہروں میں کام کرتے ہیں،گھر والوں کے ساتھ عید گزارنے کے لیے واپس اپنے آبائی قصبوں یا دیہات میں جاتے ہیں۔
عید الفطر کے موقع کو مقامی طور پر ’’ لبنان ‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ انڈونیشیا میں سب سے اہم چھٹی ہے۔ دیگر مسلم اقوام کی طرح انڈونیشیائی بھی دعاؤں، اجتماعات اور خاندانی ملاپ کے ساتھ جشن مناتے ہیں۔
بچوں سے بزرگ جب ملتے ہیں تو انہیں رقم کے رنگین لفافے تحفے میں دیتے ہیں۔ زیادہ تر انڈونیشی مسلمان عید کے دن ثقافتی لباس پہنتے ہیں، جو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مختلف ہیں۔ عید کے موقع پر رشتے دار اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مانند انڈونیشیا میں بھی عید کی خوشیوں کا آغاز عید سے ایک رات پہلے ہو جاتا ہے اور لوگ آخری لمحات کی خریداری میں مصروف ہوتے ہیں۔اس دوران لوگ ہجوم ڈھول اور پٹاخوں کی آوازوں سے خوش ہوتے ہیں۔ لوگ مشعلیں بھی جلاتے ہیں اور ملک کے کچھ حصوں میں سڑکوں پر لے آتے ہیں۔
بانس سے پکا ہوا چاول، جسے مقامی طور پر لیمانگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور لاپیس لیگٹ، ایک ہزار پرتوں والا کیک، دو روایتی کھانے ہیں جو دن بھر پکائے جاتے ہیں۔ عید پر تیار کی جانے والی دیگر کھانے پینے کی اشیا میں کیتوپت، اوپور ایام اور مکھن اور انناس کے جام سے بنی کوکیز شامل ہیں۔
صبح عید کی نماز کے بعد انڈونیشی “سلامت عید الفطر” کے الفاظ کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، جس کا مطلب ہے عید مبارک۔ مسلمان عید کے دن ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں، بشمول خاندان، دوستوں اور پڑوسیوں کے – اس روایت کو انڈونیشیا میں’’ حلال بہلال‘‘ کہا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش
ہمارا سابقہ حصہ مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرا بڑا ملک بن چکا۔گو بنگلہ دیش سے زیادہ مسلمان بھارت میں آباد ہیں۔تاہم بھارتی مسلمانوں کی روایات ِ عید پاکستانیوں سے ملتی جلتی ہیں، اسی لیے ان کا تذکرہ نہیں کیا جا رہا۔مگر بنگلہ دیشی مسلمان بھی پاک وہند کے دیگر مسلمانوں کی طرح ہی عیدالفطر مناتے ہیں۔
عید نزدیک آتے ہی ڈھاکہ، چٹاگانگ، غازی پور، نارائن گنج، کھلنا اور دیگر بڑے شہروں میں مقیم دیہاتی اپنے آبائی گھر جانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔عید سے چند دن پہلے بسوں اور ریلوں میں خوب ہجوم ہوتا ہے۔سیکڑوں لوگ تو بسوں اور ریلوں کی چھتوں پہ بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ان کے چلے جانے سے شہر انسانوں سے خالی ہو جاتے ہیں۔اس وقت سے شہری بہت لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ سڑکوں پہ ٹریفک کا رش نہیں ہوتا۔
’’سیمائی ‘‘(Semai)عید کے دن بننے والا بنگلہ دیشی قوم کا مخصوص پکوان ہے۔ یہ سوجی، ناریل، دودھ اور چینی ملا کر تیار ہوتا ہے۔جیسے پاکستانی عید پڑھ کر گھر آئیں تو سویاں یا شیر خورمہ کھاتے ہیں۔اسی طرح بنگلہ دیشی نماز پڑھ کر گھر پہنچتے ہی سیمائی کھاتے اور عید مناتے ہیں۔
سیمائی کی کئی اقسام ہیں۔ امیر لوگ اس پکوان میں رنگ برنگ میوے ڈال لیتے ہیں۔بنگلہ دیشی عید پہ ’کھچڑی ‘بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ غذا چاول اور دال ملا کر پکتی ہے۔ہماری کھچڑی سے ملتا جلتا کھانا ہے۔ان کھاجوں کے علاوہ بنگلہ دیشی عیدالفطر پہ مذید مخصوص کھانے بھی پکاتے ہیں۔
نائیجیریا
یہ براعظم افریقا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مملکت کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے تاہم مغربی میڈیا اس عدد کو دانستہ کم کر کے دکھاتا ہے۔دراصل مغربی نہیں چاہتے کہ نائیجیریا اسلامی ملک قرار پا جائے۔ پھر بھی اس دیس میں تقریباً دس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔
نائیجیریا میں عید الفطر کو ’چھوٹی صلاۃ ‘کے نام سے جانا اور دو دن تک منایا جاتا ہے۔ چھوٹی صلاۃ کے دن نائیجیرین عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے اور پھر اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ نماز پڑھ کر ایک دوسرے کو ’’برکت صلاۃ‘‘کہنا معمول ہے۔مقامی ہوسا زبان میں اس لفظ کا مطلب ہے:عید کی برکات آپ کو نصیب ہوں۔
نماز ختم ہو تو مسلمان گھر پہنچ کر خاص طور پہ پکے کھانے کھاتے ہیں۔بچوں کو عیدی ملتی ہے تاکہ وہ خوشی کے اس دن جی بھر کر کھیل سکیں اور من مسند چیزیں بھی خرید لیں۔سبھی نئے کپڑے پہنتے اور سیر کرکے وقت کو سہانا بناتے ہیں۔
مصر
یہ عالم اسلام کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ یہاں بھی عید الفطر تزک واحتشام سے منائی جاتی ہے۔حکومت چار چھٹیوں کا اعلان کرتی ہے۔پورے ملک میں کام بند رہتا ہے۔ سبھی بڑے جوش وجذبے سے عید مناتے ہیں۔نت نئے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جو عید الفطر سے مخصوص عالمی روایت ہے۔ مصری عید کی نماز پڑھنے جاتے ہوئے تین کھجوریں تناول کرتے ہیں۔
یہ سنت نبوی ﷺ ہے۔البخاری میں حضرت انس ؓ بن مالک کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہوئے تین کھجوریں تناول فرماتے تھے۔
مصری اس دن خصوصی پکوان تیار کرتے ہیں جیسے کہ فتاجو چاول، گوشت اور روٹی کا مرکب ہے۔ اور کنافہ پنیر اور شربت سے تیار کی جانے والا میٹھاہے۔ مصریوں میں بھی اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے بنانے اور مٹھائیاں خریدنے کی روایت ہے۔کئی مصری دریائے نیل میں کشتیوں کی سیر کرتے ہیں۔
ایران
عالم اسلام کے چھٹے بڑے اس ملک میں بھی عید الفطر خوشیوں بھرا تہوار ہے۔ ایرانی عید کا چاند نظر آتے ہی اس مبارک موقع کو منانے کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں۔ کپڑے تیار ہوتے اور کھانے پکتے ہیں۔ صبح نماز ِ عید پڑھی جاتی ہے۔ ایران میں کئی متنوع اقوام آباد ہیں۔وہ سبھی عید الفطر کے اپنی مخصوص رسوم ورواج رکھتی ہیں۔ شولہ زرد (زعفران چاول کا کسٹرڈ)، حلوہ اور بقلاوا روایتی پکوانوں میں شامل ہیں۔
ترکی
اسلامی دنیا کے ساتویں بڑے دیس ،ترکی میں عید الفطر کو رمضان بیرامی (رمضان کا تہوار) یا سیکر بیرامی (مٹھائیوں کا تہوار) کہا جاتا ہے۔ یہ نام ان میٹھی چیزوں کی عکاسی کرتا ہے جو عید کے جشن کا لازمی حصہ ہیں۔ ترک دن کا آغاز نئے کپڑے پہن کر کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے بزرگوں سے برکت اور بخشش طلب کرتے ہیں۔ بچے اپنے بڑوں سے مٹھائیاں اور پیسے وصول کرتے ہیں۔ ترک بقلاوا اور حلوہ جیسے روایتی پکوان بھی تیار کرتے ہیں۔
ایک روایت جس کا پورے ترکی میں احترام کیا جاتا ہے ،وہ بزرگوں کا احترام ہے۔ خاندان کے کسی بزرگ یا دوست کے داہنے ہاتھ کو چومنا اور بیرم سلام کہتے ہوئے اسے ماتھے پر رکھنا احترام کی سب سے اہم شکل ہے۔
ترک نماز ِعید پڑھ کرایک دوسرے کو Bayraminiz Mubarek Olsun کہتے ہیں جس کا ترجمہ ہے ’’آپ کی بیرم (عید) مبارک ہو‘‘۔ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ سرکاری دفاتر اور اسکول عام طور پر تہوار کے پورے تین دن بند رہتے ہیں۔
بیرم کی مبارکباد دیتے وقت بزرگ شہریوں کے داہنے ہاتھ کو چومنے اور پیشانی پر رکھ کر ان کی تعظیم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ گھر گھر جا کر اپنے پڑوس میں ہر ایک کو “مبارک بیرم” کی مبارکباد دیں۔جواب میں مغرب میں رائج ہالووین کے رواج کے مطابق انہیں کینڈی، روایتی مٹھائیاں جیسے بقلاوا اور ترک ڈیلائٹ، چاکلیٹ یا تھوڑی سی رقم سے نوازا جاتا ہے۔
ترکی میں عید کا ایک انوکھا رواج یہ ہے کہ جب کسی کے گھر مہمان آئیں تو ان پہ خوشبو یا عطر چھڑک کر ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔اس طرح مہمانوں کو تعظیم دی جاتی ہے۔ پاکستان کی طرح ترک بھی عید کے دن ہلکی پھلکی غذائیں زیادہ بناتے ہیں کیونکہ کوئی بھی مہمان کھانے نہیں ملنے ملانے آتا ہے۔لہذا اس کی خاطر تواضع کے لیے سویاں، دہی بھلے، نمکو، چنے وغیرہ قسم کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔
مورخین کہتے ہیں کہ ترکی میں عثمانی سلاطین نے یہ طرح ڈالی کہ عیدیں کو شان وشوکت سے منایا جائے۔ ہندوستان میں یہی عمل مغل بادشاہ، اورنگ زیب عالمگیر نے انجام دیا۔ان حکمرانوں کی سعی سے دونوں عیدیں اسلامی دنیا کے سب سے بڑے تہوار بن گئے۔
الجزائر
براعظم افریقا کے اس دوسرے بڑے اسلامی دیس میں بھی عید الفطر پورے مذہبی جوش سے منائی جاتی ہے۔ پورے ملک میں کام بند ہوتا ہے اور سبھی الجزائری عید کی چھٹیوں کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں۔
پاکستان کی طرح الجزائر میں بھی رواج ہے کہ کھانے کی دعوت پر کھانا کھا کر مہمان کو پھل پیش کیے جاتے ہیں۔اس موقع پہ روایت ہے کہ مہمان خود پھل چھیلتا ہے۔الجزائر میں مگر عید الفطر کی یہ خوبصورت رسم ہے کہ میزبان تمام پھل چھیل کر مہمانوں کو پیش کرتا ہے۔
عیدیں جیسے اسلامی تہوار دراصل مسلمانوں کو قریب لاتے ہیں ، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب۔یوں ان کے درمیان پیار ومحبت اور اتحاد جنم لیتا ہے۔تب مسلمان تکلیف و دکھ کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے اور سہارا بنتے ہیں۔
افغانستان
ہمارے پڑوسی اس اسلامی دیس میں عیدالفطر مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل دن ہے جسے تین دن تک پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پشتو بولنے والی برادری عید کو ’کوچنائی اختر‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ عید کی تیاری دس روز پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔گھروں کی صفائی ہوتی ہے اور عید سے چند روز قبل بازاروں کا رخ کیا جاتا ہے تاکہ مٹھائیاں اور نئے کپڑے خریدے جا سکیں۔ عید کے پرُمسرت موقع پر مہمانوں کی تواضع کرنے کے لیے جلیبیاں اور کیک بانٹا جاتا ہے جسے ‘واکلچہ’ کہا جاتاہے۔ افغانی عید کے پہلے دن اپنے گھروں پر خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
نیوزی لینڈ
یہ دنیا کے ایک کونے میں واقع مملکت ہے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں۔نیوزی لینڈ میں عید مساجد یا آؤٹ ڈور مقامات میں صبح کی نماز کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ اس کے بعد کمیونٹی کے اجتماعات اور دعوتیں ہوتی ہیں جہاں خاندان تحائف کا تبادلہ اور روایتی کھانوں کا اشتراک کرتے ہیں۔
حال ہی میں بڑے شہروں جیسے آکلینڈ، ویلنگٹن اور کرائسٹ چرچ میں عوامی عید کے تہوار زیادہ مقبول ہو گئے ہیں۔ ان تہواروں میں ثقافتی پرفارمنس، کھانے کے اسٹالز اور بچوں کے لیے سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔ آکلینڈ میں تہواروں کا آغاز صبح کی نماز اور صفائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایڈن پارک میں تفریحی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں کارنیول کی سرگرمیاں جیسے مکینیکل بیل، ہیومن فوز بال اور کھانا فروش علاقے کے آس پاس لذیذ کھانے فروخت کرتے ہیں۔ یہ تقریبات مسلم ثقافتی روایات اور نیوزی لینڈ کی وسیع تر کمیونٹی کے امتزاج کی عکاس اورملک کے تنوع اور جامعیت کو ظاہر کرتی ہیں۔
متحدہ عرب امارات
پاکستان کے قریب واقع اس اسلامی مملکت میں کثیر تعداد میں پاکستانی اور بھارتی مسلمان آباد ہیں۔عید کے موقع پرزیادہ تر مقامی اماراتی کھانا کھا کر اور خاندان کے ساتھ وقت گزار کر عید مناتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر روایات بھی ہیں جو متحدہ عرب امارات کے لیے خاص ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے خاندان اپنے گھروں کے باہر قوس قزح کے رنگوں والے قالین اور بینر لٹکاتے ہیں۔ یہ روایت نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ پارکوں اور میدانوں کو بھی ان لوگوں کے لیے تہوار کے جھنڈوں سے مزین کیا جاتا ہے جن کے پاس کنبہ نہیں لیکن پھر بھی وہ اس خوشی کے تہوار کو بطور کمیونٹی منانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭
عید کے مخصوص پکوان
عید الفطر کے موقع پر نت نئے پکوان بنانے اور مٹھائی کھانے کی روایت ممکنہ طور پر مدینہ منورہ کے ابتدائی مسلمانوں سے شروع ہوئی تھی۔وہ اپنے تہواروں کے لیے کھجور اور شہد کی مدد سے کھانے پکاتے تھے۔ جیسے جیسے اسلام زیادہ جغرافیائی خطوں میں پھیلا، ہر ثقافت نے اپنے دستیاب غذائی اجزا اور کھانا پکانے کا طریقہ عید الفطر کی اپنی تقریبات کے لیے استعمال کیا ۔ نتیجے میں آج ہمارے پاس بے شمار پکوان موجود ہیں جو عید الفطر کے مبارک موقع پر خاص طور پہ پکتے ہیں۔
بقلاوا
یہ ایک میٹھی پیسٹری ہے جو مشرق وسطیٰ میں بننا شروع ہوئی لیکن اب پوری مسلم دنیا میں مقبول ہے۔ اسے کٹے ہوئے گری دار میوے (عام طور پر پستے یا اخروٹ) اور میٹھے شربت یا شہدکے ساتھ فائیلو آٹا کی تہہ لگا کر بنایا جاتا ہے۔ بقلاوا ایک میٹھا اور دلکش میٹھا ہے ۔
کوئی لاپس(Kue lapis)
یہ عید الفطر پر انڈونیشیا میں بننے والی خاص ڈش ہے۔انڈونیشی زبان میں لاپس کا مطلب ہے :تہیں۔یہ چاول کے آٹے، نشاستے، ناریل کے دودھ،چینی،نمک اور رنگوں سے بنا کیک ہے جس میں کئی تہیں بنائی جاتی ہیں۔اسی لیے یہ لاپس کہلایا۔ہر تہہ مختلف رنگ کی ہوتی ہے۔یہ جیلی سے ملتی جلتی غذا ہے۔ملائشیا اور سنگاپور میں بھی لوگ اسے شوق سے کھاتے ہیں۔
بولانی
یہ افغانستان کی روٹی ہے جس کے اندر مختلف اشیا ڈال کر اسے پکایا جاتا ہے، جیسے آلو،قیمہ، دالیں ، مسالے اور دیگر سبزیاں۔ یہ پکوان عیدین کے علاوہ سالگرہ اور شادی پر بھی تیار کیا جاتا ہے۔بولانی دہی یا رائتے کے ساتھ تناول ہوتا ہے۔کابل، قندھار اور جلال آباد کے باسیوں کا من پسند کھاجا ہے۔
ترکش ڈیلائٹ
ترکی میں ماہ رمضان اور عیدین پہ یہ خصوصی مٹھائی وسیع پیمانے پر تیار ہوتی ہے۔ یہ مٹھائی نشاستے اور چینی سے بنتی ہے۔تیاری کے دوران اس میں کھجوریں، پستے ، اخروٹ اور دیگر مغزیات شامل کی جاتی ہیں۔یوں یہ کافی مقوی غذا بن جاتی ہے۔اس مٹھائی میں گلاب یا لیموں کے پانی بھی شامل کیا جاتا ہے۔جبکہ تیار مٹھائی پہ کھوپرا چھڑک کر اسے مزید مزے دار بنایا جاتا ہے۔
معمول(Ma’amoul)
یہ سوجی سے بنے بسکٹ ہیں جن کے اندر مکھن بھرا جاتا ہے۔عیدالفطر کے موقع پر عرب ممالک میں اس کو تیار کرنا عام رواج ہے۔مکھن کے اندر بادام، اخروٹ، پستے، کشمکش اور دیگر میوے بھی ڈالے جاتے ہیں تاکہ معمول کو زیادہ سے زیادہ مزے دار بنایا جا سکے۔مہمان آئیں تو کافی یا قہوے کے ساتھ معمول پیش کیا جاتا ہے۔
طاجین(Tagine)
یہ مغربی افریقا کی مقبول ڈش ہے جسے عموماً عیدین کے وقت پکایا جاتا ہے۔اسے تیار کرتے ہوئے بڑا گوشت، چکن اور مچھلی ایک ساتھ شورے میں پکاتے ہیں۔اس شوربے میں مختلف سبزیاں اور پھل ڈالے جاتے ہیں۔مسالہ جات اور میوں کا بھی استمال ہوتا ہے۔یوں یہ کھانا بہت مزے دار ہونے کے ساتھ ساتھ مقوی و پُرغذائیت بھی ہوتا ہے۔
[ad_2]
Source link