14

الہ دین کے اسٹیشن پر قدم رکھا تو لگا جیسے کسی گلاب کے باغ میں قدم رکھ دیا ہے

[ad_1]

(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ بارہواں پڑاؤ)

زر کوب

یہ عجب سی کارگہ تھی

جہاں چمڑے کی بو رچی تھی

انھیں کی سات تہوں میں

رکھی سونے کی ڈلیاں تھیں

جنہیں کچھ کارگر بس کوٹتے تھے

گیت گاتے تھے

اور دائرے میں گھومتے تھے

لہراتے جاتے تھے

وہ لے اور سر میں سب رقصاں

ضربیں لگاتے تھے

یہ منظر اس قدر مسحورکن تھا

کہ رومی ایک لمحے کو سنجیدہ سا ہوگیا

مگر اگلے لمحے رومی بھی رقصاں تھا

ابھی تک رومی رقصاں ہے

(مظہر شہزاد خان)

 

یہ نظم مظہر شہزاد خان کی نظموں کے مجموعے جنم جنم کے بھید سے لی گئی ہے۔ ہم نے رومی ؒ کو سب سے پہلے علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے جانا پھر مثنوی مولانا رومی کے چند حصے پڑھے۔ مثنوی کے لیے کہا جاتا ہے یہ وہ کتاب ہے جو سینے میں عشق خداوندی کی آگ لگا دیتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ قرآن در زبان فارسی ہے۔

علامہ اقبال ؒ مولانا رومی ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں

نہ اٹھا پھر کوئی رومی ؒ عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی

مولانا رومیؒ کا مزار قونیہ میں ہے اور آپ کے پیرو مرشد حضرت شمس تبریزؒکا مزار بھی قونیہ میں ہے۔ مولانا رومیؒ فارسی کے مشہور شاعر اور عالم و فقیہ تھے مگر شمس تبریزؒ وہ تھے جنہوں نے انہیں مولائے روم بنایا۔

قونیہ جانے کا فیصلہ میرا تھا۔ عزیز کو قونیہ کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔ ان کے علم میں تو استنبول، انقرہ، اناطولیہ مشہور شہر تھے۔ لیکن عزیز کا دل انقرہ میں زیادہ نہیں لگا حالاںکہ انقرہ خاصا موڈرن اور نیا بنا ہوا شہر ہے اور جو طریقہ بڑے اور موڈرن شہروں کا ہوتا ہے وہی ہے۔ البتہ استنبول اسے بہت اچھا لگا اور استنبول میں اس کا دل بھی لگا اس لیے جب میں نے عزیز سے قونیہ چلنے کا کہا تو وہ بالکل تیار نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہمیں کپاڈوکیا چلنا چاہیے۔ ہمارا ترکی میں یہ دوسرا ہفتہ تھا اور اس ہفتہ کے لیے ہمیں فیصلہ کرنا تھا کہ ہمیں کون سے شہر جانا چاہیے۔ قونیہ کا نام سننے کے بعد وہ کہنے لگا اماں ہم ابھی تو استنبول میں مسجدیں اور مزارات کی زیارت کرکے آرہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قونیہ بھی استنبول جیسا ہوگا۔

مگر پھر اسے احساس ہوا کہ اسے میری خوشی کی خاطر قونیہ جانا چاہیے۔ اس نے انقرہ آتے ہی قونیہ میں ہوٹل کی بکنگ کروالی تھی۔ ہمیں اب انقرہ کے میٹرو اسٹیشن سے میٹرو ٹرین کے ذریعے فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن تک آنا تھا۔ ہم انقرہ بھی فاسٹ ٹرین سے آئے تھے۔ اسٹیشن تو ہمیں معلوم تھا اور راستے کا بھی اندازہ ہوگیا تھا جس سے ہم کو میٹرو اسٹیشن جانا تھا اور انقرہ کارڈ بھی موجود تھا، اس لیے ہم سمجھ رہے تھے کہ کوئی دقت نہیں ہوگی مگر انقرہ کا میٹرو ٹرین سسٹم بے انتہا جدید ہے اور پورا سسٹم کمپیوٹر سے منسلک ہے۔

انقرہ کے رہنے والے تو عادی ہیں مگر ایک نئے انسان کے لیے اس کو سمجھنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے حالاںکہ عزیز کو کمپیوٹر کی بہت سمجھ ہے اس نے استنبول کے سسٹم کو بہت حد تک سمجھ لیا تھا مگر انقرہ کا سسٹم استنبول سے بھی زیادہ جدید تھا۔ ہم میٹرو اسٹیشن تو آسانی سے پہنچ گئے۔

اور انقرہ کارڈ کے ذریعے اسٹیشن کے اندر بھی پہنچ گئے ہم جب انقرہ آئے تھے تو نیچے کی طرف اترتے تھے مگر یہ اسٹیشن کئی منزلہ تھا اور یہ معلوم نہیں تھا کہ فاسٹ ٹرین اسٹیشن جانے کے لیے ہمیں کون سی منزل پر جانا ہوگا۔ وہاں تو ایک دنیا آباد تھی ہر ایک موبائل ہاتھ میں لیے نقشہ دیکھتا ہوا بھاگم بھاگ اپنے اپنے اسٹیشن کی طرف جارہا تھا۔ مگر عزیز کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔

جو وہاں ورکر موجود تھے ان کو ہماری بات سمجھ نہیں آرہی تھی ایک ورکر نے ہمیں دوسری منزل پر بھیج دیا مگر جب عزیز نے نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ میٹرو تو انقرہ کے دوسری طرف جارہی ہے۔

جہاں ہم کھڑے تھے وہاں ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا کھڑا تھا اسے تو اسی ٹرین سے جانا تھا اس نے عزیز سے انگریزی میں پوچھا آپ لوگوں کو کہاں جانا ہے۔

عزیز نے اسے فاسٹ ٹرین اسٹیشن کا بتایا تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تم غلط اسٹیشن پر ہو آؤ میرے ساتھ اس نے میرا ہینڈ کیری لے لیا اور ہم سے آگے تیزی سے چلنا شروع ہوگیا۔ تمہاری تو میٹرو آنے والی ہے تم لیٹ ہو جاؤگے۔

ہم کو اوپر جانا ہوگا وہ بار بار مڑ کر ہمیں جلدی چلنے کا کہہ رہا تھا۔ عزیز نے اس سے کہا تمہاری ٹرین بھی تو آنے والی ہے۔ اس نے کہا میں تو دن میں کئی چکر لگاتا ہوں اسکول جاتا ہوں اپنی دادی کے ہاں جاتا ہوں۔ مجھے وقت کا معلوم ہے تم سیاح ہو تم کو صحیح راستہ دکھانے کا میرا فرض ہے۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے صحیح جگہ آگئے وہ ہمیں وہاں ٹرین کا انتظار کرنے کا کہہ کر تیزی سے واپس پلٹ گیا اس نے الیکٹرک سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر ہمیں ہاتھ ہلایا۔ ہم انہی سیڑھیوں سے اوپر آئے تھے وہ اب اپنے اسٹیشن پر واپس جارہا تھا یقیناً اس کے بڑوں نے دعائیں لینے کا طریقہ بتا دیا تھا۔ میری طرف سے بھی اس اجنبی لڑکے کے لیے بہترین دعائیں جو اس اجنبی ملک میں ہمارے لیے خضر راہ بنا۔

انقرہ آتے ہوئے بھی ایک ایڈونچر ہوا تھا اب جاتے ہوئے بھی ایک ایڈونچر ہوا۔ ہم فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن پر تو آرام سے پہنچ گئے تھے ابھی ٹرین جانے میں بھی دیر تھی۔

ٹکٹ کاؤنٹر پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ عزیز نے جب اس سے قونیہ جانے کے لیے ٹکٹ لینا چاہا تو اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ عزیز نے بزنس کلاس کے ٹکٹ کا پوچھا اس نے نفی میں گردن ہلائی پھر اپنی ساتھی کی سیٹ کی طرف گیا اور اس سے سیٹ کا پوچھا اس لڑکی نے کہا کہ ایک نشست موجود ہے۔

ہم نے اس سے کہا کہ ہمیں دو کی ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگی ایسا کریں کہ ایک نشست ابھی کی ہے ایک ساڑھے تین بجے کی ہے ورنہ جب پندرہ منٹ رہ جائیں گے تو اگر دونوں ٹائم کی ٹرین میں کوئی ٹکٹ کینسل ہوا تو ہم وہ آپ کو دے دیں گے ابھی آپ انتظار کریں۔ ہم بکنگ کردیتے ہیں۔ اس دوران ایک ٹرکش خاتون آکر میرے پاس بیٹھ گئیں انہوں نے گلے میں کوئی بیج ڈالا ہوا تھا وہ پہلے تو مجھ سے کچھ پوچھتی رہیں پھر ان کی سمجھ میں نہیں آیا تو پھر وہ ٹکٹ کاؤنٹر پر گئیں اس سے کچھ پوچھا اور میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہماری مدد کرنا چاہتی تھیں۔ اتنی بات چیت میں جو لفظ میری سمجھ میں آیا وہ ’’بس‘‘ تھا

اتنی دیر میں کاؤنٹر والے لڑکے نے عزیز کو بلایا اور کہا کہ کوئی ٹکٹ کینسل نہیں ہوا ہے ایسا کرو کہ ایک پہلے چلا جائے دوسرا ساڑھے تین بجے والی ٹرین سے چلا جائے اور کوئی حل نہیں ہے۔ عزیز کے لیے یہ حل قابل قبول نہیں تھا کیوںکہ جو ساڑھے تین بجے والی ٹرین تھی وہ رات کو پہنچتی۔ وہ خاتون پھرکاؤنٹر پر اٹھ کر گئیں اور اس سے مسئلہ سمجھا۔ عزیز نے میرے پاس آکر پوچھا اماں اب کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا دونوں ٹکٹ کینسل کروا دو ہم بس سے چلتے ہیں۔ جب ہم ٹکٹ کینسل کروا رہے تھے تو وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوگئیں اور کاؤنٹر والے لڑکے سے کہا ان لوگوں کو بولو کہ بس سے چلے جائیں یہ لوگ اتنی دیر سے میری بات نہیں سمجھ رہے ہیں۔ بس بہت آرام دہ ہے تھوڑا وقت زیادہ لے گی۔

عزیز نے انہیں کہا کہ ہم بس سے جائیں گے انہوں نے اپنا موبائل نکال کر عزیز کو دکھایا جس میں نقشہ بنا ہوا تھا۔ عزیز نے ان خاتون کو اردو میں جواب دیا کچھ زبان اشاروں کی تھی جس کا مطلب تھا ہم کو راستہ معلوم ہے اور نقشہ بھی ہے۔ عزیز نے اپنا موبائل نکال کر ان کو نقشہ دکھا دیا۔ انہوں نے اطمینان کی سانس لی اور شکر الحمداﷲ کہا اور میرا ہاتھ پکڑ کر دوست دوست کہتی رہیں اور پھر موبائل پر انہوں نے ترکی میں کچھ کہا۔

جس کا جواب انگریزی میں انہوں نے سنایا۔ میرا وطن قونیہ ہے میری یہاں نوکری ہے مگر میری یادوں میں قونیہ ہے۔ تم لوگوں کو قونیہ کی ٹرین نہیں ملی تو میرا دل اداس ہوگیا۔ اب میں خوش ہوں تم لوگ میرے شہر جاؤگے۔ اب میں گھر جارہی ہوں خداحافظ وہ تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھ گئیں۔

اور ہم دونوں ماں بیٹا خاموش کھڑے ان کو جاتا دیکھتے رہے۔ یہ خاتون ہم کو بھی جذباتی کرگئیں تھیں۔ پھر میں نے عزیز سے کہا بیٹا ’’میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ شہر زمین پر نہیں دلوں میں بستے ہیں۔‘‘

اور میں یہ سوچ رہی ہوں وہ شہر کتنا خوب صورت ہوگا جس شہر کے رہنے والے دور رہ کر بھی اس سے بے تحاشہ محبت کرتے ہوں گے اور ان کے شہر کو جانے والے مسافروں سے بھی محبت کرتے ہوں گے۔

اب عزیز جو میری خواہش کے مطابق قونیہ جانا چاہ رہا تھا اب ان خاتون سے مل کر اس کی دل چسپی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہمیں بہت آسانی سے بس مل گئی جس نے ہمیں قونیہ جانے والی بس کے اسٹاپ پر اتار دیا۔ یہ ایک بہت بڑا ٹرمینل تھا باہر تو بہت ساری بسیں کھڑی تھیں جو مختلف شہروں کو جارہی تھیں۔ ایک ہال نما کمرے میں لائن سے کمپنی کے دفاتر تھے۔ ہم نے پہلے ہی آفس پر جاکر قونیہ کے لیے بس کا پوچھا اس نے ہمارا پاسپورٹ مانگا۔ پاسپورٹ چیک کرکے ٹکٹ بنا دیا اور کہا کہ جو پہلی بس کھڑی ہے وہی قونیہ جارہی ہے۔ ایک یونیفارم پہنے صاحب ہم کو لے کر بس تک آگئے۔ ہمارا سامان رکھ کر ہمارے حوالے ٹوکن کیا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔

بس کو روانہ ہونے میں پندرہ منٹ تھے۔ ہمارا مسئلہ ہی وقت کا تھا۔ کوئی بھی نیا شہر ہو وہاں دن کے وقت جانا بہتر ہوتا ہے۔ بے شک وہ اپنے ملک کا ہی کیوں نہ ہو مگر قونیہ جاتے وقت ہمیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہورہی تھی۔ بس بھی بہت آرام دہ تھی۔ ہم استنبول سے انقرہ تو فاسٹ ٹرین سے آئے تھے مگر اب انقرہ سے قونیہ بس سے جارہے تھے بس ٹرین سے بھی کم کرایہ لیتی ہے مگر وقت زیادہ لیتی ہے۔ یہ ہمارا ایک شہر سے دوسرے شہر بس سے پہلا سفر تھا اور کرایہ بھی مناسب تھا ایک طرف کا کرایہ صرف 175لیرا تھا۔

بس وقت سے روانہ ہوگئی تھی۔ ترکی میں شہروں کے درمیان بھی سفر بہت آسان ہے۔ سڑکیں بھی بہت بہترین بنی ہوئی ہیں۔ کسی ملک کی ترقی میں اس کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا بہت دخل ہوتا ہے۔ بہت سی قوموں نے اس راز کو پاکر ترقی کی ہے۔ ابھی پندرہ بیس منٹ کا ہی سفر کیا تھا کہ ایک چیک پوسٹ آگئی۔ ایک اہل کار نے ہمارے پاسپورٹ جمع کیے معلوم نہیں ترکش اپنی شناخت کے لیے کیا استعمال کرتے ہیں مگر وہ اہل کار ہر ایک سے پاسپورٹ ہی طلب کررہا تھا۔ وہ جمع کرکے اپنے کیبن میں چلاگیا اس کے ساتھ بس کے عملے کا بھی اہل کار تھا۔ کافی دیر ہوگئی تھی مجھے تو گھبراہٹ ہونے لگی نہ جانے کیا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کیوں لے لیے گئے ہیں۔

کافی دیر گزرنے کے بعد ہمارے پاسپورٹ واپس ہوئے، معلوم ہوا کہ تمام مسافروں کا کمپیوٹر میں اندراج ہورہا تھا۔ اس لیے دیر ہوئی۔ پھر کئی چیک پوسٹ آئیں مگر دو منٹ سے زیادہ نہیں لگے۔ انہوں نے بس کو آگے جانے کی اجازت دے دی۔

راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے شہر آئے بس ’’ازکے شہر‘‘ سے بھی گزری مگر روکی نہیں ’’از کے شہر‘‘ ترکی کا مشہور شہر ہے۔ یہ شہر بھی بہت خوب صورت ہے اور بہت ترتیب سے بنا ہوا ہے۔

کافی گاؤں بھی راستے میں آئے جن میں کاشت کاری کی گئی تھی۔ زیادہ تر فلیڈ سورج مکھی کی آئیں شاید یہ موسم سورج مکھی کی کاشت کا تھا لیکن جوں جوں ہم قونیہ کی طرف بڑھ رہے تھے پہاڑی سلسلے دور ہوتے جارہے تھے اور سرسبز علاقے بڑھتے جارہے تھے۔ جیسے ہم اپنے شمالی علاقوں سے پنجاب میں داخل ہورہے ہوں۔ ہم نے اب تک جتنا راستہ طے کیا تھا وہ پہاڑی تھا اور تمام پہاڑوں پر ونڈ انرجی کے بڑھے پنکھے لگے ہوئے تھے۔ اب وہ پہاڑوں کے ساتھ دور ہورہے تھے۔ یہ ملک بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ ہوسکتا ہے ان علاقوں میں سولر انرجی سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ کہیں سولر پینل لگے ہوئے نظر تو آرہے تھے۔ ہم ایک چیک پوسٹ پر روکے معلوم ہوا قونیہ آگیا ہے۔ جب ایک بار شناخت ہوگئی تھی تو روکنے کے لیے صرف دو تین منٹ زیادہ لگنے تھے۔ قونیہ میں داخل ہوتے ہی جو پہلی چیز ہمیں نظر آئی وہ باغ تھا جو سڑک کے دونوں جانب ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور جو روش تھی وہ گلابوں کی تھی جو فٹ پاتھ کے بعد دور تک چل رہی تھی۔ یہ کوئی پبلک پارک تھا کیوںکہ روش کے بالکل ساتھ واکنگ ٹریک تھا۔ جہاں لوگ واک کررہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنچیں اور جھولے لگے ہوئے تھے اور بچے کھیل رہے تھے۔

کافی بڑا باغ تھا، جس کے ساتھ ہی رہائشی کالونیاں شروع ہوگئی تھیں جس میں سرخ کھپریلوں والے ایک یا دو منزلہ مکانات بنے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ شہر سے دور کالونیاں تھیں کیوںکہ کافی سفر ہم نے ایسے راستوں پر کیا جہاں کوئی کنسٹرکشن نہیں ہوئی تھی۔ عام طور پر ایسے بس ٹرمینل شہر شروع ہوتے ہی بنے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایسا ہی ٹرمینل تھا۔ بس جس جگہ روکی تھی وہ ٹرمینل کے دوسری طرف تھی جہاں کچھ آفس، بس کھڑی کرنے کے شید اور واش روم بنے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ اہتمام مسافروں کی سہولت کے لیے کیا گیا تھا۔ باہر بینچیں پڑی تھیں حالاںکہ لیڈیز جنٹس علیحدہ اور کافی تعداد میں تھے مگر پھر بھی اتنے سارے لوگوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ جو انتظار کرسکتے تھے وہ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل مسئلہ تو بچوں کا تھا اس لیے خواتین والا حصہ زیادہ رش لے رہا تھا۔ وہ بچے جو سارے راستے خاموش بیٹھے رہے تھے اس وقت چیخ و پکار کررہے تھے۔ عزیز تو سامان رکھواکر فریش ہونے چلاگیا میں ایک طرف بینچ پر بیٹھ گئی تو مجھے ایک خوشبو کا احساس ہوا میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ایک لمبی روش تھی جو گلاب کے پھولوں کی جھاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ گلابی، سفید، سرخ دو رنگا ہر طرح کا گلاب بہار دکھا رہا تھا۔

فضا میں ہلکی سی خنکی تھی یہ عصر سے مغرب کے درمیان کا وقت تھا اور سورج میں بالکل تپش نہیں تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ایسے میں لگ رہا تھا جیسے میں بس ٹرمینل پر نہیں کسی باغ میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ اس وقت تھکن بالکل بھی محسوس نہیں ہورہی تھی کیونکہ اب یہاں بے تحاشہ سکون محسوس ہورہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے سامان اٹھائے مختلف راستوں سے باہر جارہے تھے۔ کیونکہ یہاں سے کئی راستے باہر جارہے تھے۔ نہ کوئی چاردیواری تھی نہ گیٹ لگے ہوئے تھے لیکن ہمیں تو ہوٹل جانے کے لیے بس لینی تھی اور قونیہ کارڈ بھی بس ٹرمینل سے ہی ملنا تھا۔

ابھی ہم ٹرمینل میں داخل ہوئے تھے یہ بھی ایک بڑا ہال تھا، جس میں مختلف روٹس کے کاؤنٹر بنے ہوئے تھے۔ عزیز نے ایک کاؤنٹر پر جاکر قونیہ کارڈ کا پوچھا۔ وہاں ایک پولیس والا بھی کھڑا تھا۔ کاؤنٹر والے صاحب نے اس سے عزیز کی مدد کرنے کا کہا۔ وہاں ایک ٹرکش لڑکی بھی کھڑی تھی اور اپنا ٹکٹ بک کروارہی تھی اس نے پولیس والے کو اپنا قونیہ کارڈ پکڑاتے ہوئے کہا۔

میں قونیہ سے جارہی ہوں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے یہ تم اس لڑکے کو دے دو اس کارڈ میں اتنے لیرا ہیں کہ یہ لوگ ہوٹل پہنچ جائیں گے۔ وہ پولیس والے کو کارڈ دیتی ہوئی باہر چلی گئی ہم تو اس کا شکریہ بھی ادا نہیں کرپائے ابھی ہم ٹرمینل سے باہر آئے تھے کہ سامنے ایک بڑا شاپنگ مال تھا باہر ٹیبل لگاکر چائے اور کھانے کا انتظام تھا۔

عزیز کو بہت بھوک لگ رہی تھی میں نے سوچا ہوٹل پہنچتے تو رات ہوجائے گی کھانا کھالینا چاہیے۔ ہم نے کھانے کا آرڈر دیا کھانا بہت مزے کا تھا اور بھوک میں تو اور مزے کا لگ رہا تھا مگر بل پہلے ادا کرنا تھا لیکن ہم نے جیسے ہی کھانا ختم کیا۔ بیرا چائے لے کر آگیا۔ عزیز نے کاؤنٹر پر جاکر بل ادا کرنا چاہا تو اس نے مسکراتے ہوئے تھم کا نشان دکھاتے ہوئے کہا فری فری nomony یہ دوسری مہربانی تھی جو قونیہ والوں کی طرف سے ہوئی تھی۔

مجھے تو فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن پر قونیہ کی خاتون سے ملاقات یاد آگئی ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ یہ تو ہے ہی شمش تبریزؒ اور مولانا رومی ؒ کے متوالوں کا شہر ہمارے بس اسٹیشن کا نام الہ دین تھا۔ اصل میں جانا تو شمس تھا مگر جو بس ہمیں ملی تھی وہ الہ دین سے دوسری طرف مڑ گئی تھی۔ اب جو ہم نے الہ دین کے اسٹیشن پر قدم رکھا تو لگا جیسے کسی گلاب کے باغ میں قدم رکھ دیا ہے۔ اسٹاپ سے باہر آتے ہی گلابوں کی روش ساتھ ساتھ تھی۔ یہ الہ دین پارک تھا جو مکمل طور پر پھولوں سے دھکا ہوا تھا اس پارک کی بھی کوئی دیوار نہیں تھی۔ ایک سرسبز پہاڑی تھی جو سبزے اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی ہم جہاں اترے تھے وہ پارک کا پچھلا حصہ تھا یہ بہت پرانا پارک تھا، اس میں کئی سو سال پرانے درخت تھے۔ پارک کا سامنے والا حصہ ہم نے بعد میں دیکھا جس میں ایک مسجد بھی موجود تھی۔ ابھی تو ہمیں ہوٹل پہنچنے کی جلدی تھی۔ ہم آرام سے پیدل چلتے ہوئے ہوٹل آگئے کیوںکہ قونیہ میں استنبول اور انقرہ کی طرح چڑھائیاں اتریاں نہیں ہیں بلکہ فٹ پاتھ اور سڑکیں ہموار ہیں۔ ہمارا یہ تیسرا ہوٹل تھا۔ استنبول کا ہوٹل بھی استنبول کی فاتح مسجد سمندر اور بس ٹرمینل کے قریب تھا۔ انقرہ میں بھی سب سے بڑی مسجد کے ساتھ ہوٹل ملا تھا۔ ہم جس وقت الہ دین کے اسٹاپ پر اترے تھے۔ اس وقت مغرب کی اذان ہوچکی تھی اور بلب روشن ہوچکے تھے تو ہمیں شہر کا اندازہ نہیں ہوا ۔

جب ہوٹل میں داخل ہوئے تو کاؤنٹر خالی تھا۔ ایک لڑکا دروازے کے باہر کرسی پر بیٹھا تھا ہم نے اس سے پوچھا تو اس نے ہاتھ سے نماز کا اشارہ کیا۔ عزیز نے کاؤنٹر کے پیچھے دیکھا تو ریسپنشٹ وہاں نماز پڑھ رہا تھا۔ ہم وہیں صوفوں پر بیٹھ گئے۔ وہ نماز سے فارغ ہوا تو ہم حیران رہ گئے وہ کوئی چوبیس پچیس سال کا نوجوان لڑکا تھا۔ کلین شیو، ہم تو سمجھ رہے تھے کوئی بزرگ ہوں گے۔ اس نے مسکراتے ہوئے ہمیں سلام کیا اور بہترین انگریزی میں کہا Well Come میں تو آپ کا انتظار کررہا تھا۔ بہت دیر ہوگئی، میں سمجھا آپ لوگ نہیں آئیں گے۔ آپ کا کمرا تیار ہے۔ اس نے لڑکے کو بلاکر سامان لے جانے کا کہا۔

عزیز نے اسے بتایا کہ ہم فاسٹ ٹرین سے آنا چاہتے تھے مگر بکنگ نہیں ملی تو بس سے آئے ہیں دیر تو ہوگئی ہے مگر آرام سے آئے ہیں۔

وہ کہنے لگا میرا نام Erhan ارحان ہے کوئی ضرورت ہو تو بتانا پہلے اپنا کمرا دیکھ لو۔ فریش ہوکر آجاؤ تو مل کر کھانا کھاتے ہیں۔ عزیز کو حیرت ہوئی۔کیا ہوٹل میں کھانے کی بھی سہولت موجود ہے اس نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ناشتے کی سہولت موجود ہے مگر رات کا کھانا میں نے اپنے لیے بنوایا ہے اور آپ آج میرے مہمان ہو اور ہمارا سماوار تو چوبیس گھنٹے گرم رہتا ہے آپ جب چاہو چائے پی سکتے ہو۔

مجھے معلوم تھا بس اسٹاپ پر کھایا ہوا کھانا تو عزیز کا کب کا ہضم ہوچکا۔ ہوگا لیکن مجھے بالکل بھوک نہیں لگ رہی تھی مجھے اب آرام کرنا تھا۔ عزیز نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ہے مگر تم چاہو تو یہ دعوت شیراز قبول کرسکتے ہو۔ ہماری گفتگو میں Erhanکو صرف دعوت شیراز کا لفظ سمجھ میں آگیا۔ یقیناً یہ لفظ ہمارا مشترکہ اثاثہ تھا۔ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا Yes Yes دعوت شیراز مگر مزے کی بات یہ تھی کہ عزیز کو دعوت شیراز کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ اب اسے بھی تفصیل بتانی پڑے گی۔ اماں یہ دعوت شیراز کیا ہوتی ہے عزیز نے مڑکر پوچھا۔ بعد میں سمجھا دوں گی ابھی تو اس کی دعوت قبول کرلو۔ عزیز نے اس سے کہہ دیا اماں تو آرام کریں گی مگر میں تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں گا۔

ارحان خوش ہوگیا اتنے میں وہ لڑکا ہمارا سامان اوپر پہنچا چکا تھا ۔ ارحان کہنے لگا میں تم کو کھانا لگتے ہی بلوالوں گا اتنی دیر میں تم فریش ہوجاؤ۔ ہم چابی لے کر اوپر آگئے۔ یہ دوسری منزل کا کمرا تھا۔ پہلی منزل پر کچن، ڈائننگ ہال، ایک آفس نما میٹنگ ہال بنا ہوا تھا باقی سارے رہائشی کمرے اوپر تھے۔ کمرا بہت بڑا نہیں تھا جیسے کمرے ہمیں استنبول اور انقرہ میں ملے تھے مگر صاف ستھرا اور آرام دہ تھا۔ ایک ڈبل بیڈ اور سنگل بیڈ موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ارحان نے عزیز کو کال کرکے کھانے کے لیے بلالیا۔

عزیز تقریباً ایک گھنٹے کے بعد واپس آیا۔ میں نے اتنی دیر میں گھر کال کرکے قونیہ Konea پہنچنے کی اطلاع دی اور سب گھر والوں سے بات بھی کرلی۔ عزیز کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے وہی لڑکا مجھے چائے دے کر چلاگیا۔ وہی ترکش چائے تھی پی کر طبیعت فریش ہوگئی۔

عزیز نے آکر بتایا کہ وہاں تو دس لوگوں کا کھانا تھا۔ دالوں کا سوپ، بیگن آلو ٹماٹر مٹر کی مکس سبزی، قورمہ، سادے چاول اور کلچے، بہت مزیدار کھانا تھا۔ کھانے پر میرے علاوہ ارحان کے دو دوست، کام والا لڑکا، ہوٹل میں کام کرنے والا ایک شخص اور باورچی نے بھی ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور چائے بھی پی۔ ارحان کہہ رہا تھا کہ آپ کو کمرے میں کھانا بھجوادیتا ہوں، مگر میں نے منع کردیا کہ ہماری اماں سونے سے پہلے کچھ نہیں کھاتی صرف چائے پی لیں گی تو اس نے آپ کو کمرے میں چائے بھجوادی اور اصل بات تو آپ کو بتانا تھی ارحان اس ہوٹل کا مالک ہے۔ پہلے یہ چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا پھر اس کے ابا نے اپنی محنت سے اتنا بڑا ہوٹل بنایا اور اپنے دونوں بیٹوں کے حوالے کردیا۔ صبح اس کا بڑا بھائی یہاں ہوتا ہے، مغرب تک یہ آجاتا ہے یہ قونیہ کی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اس لیے صبح نہیں آتا ہے۔

صبح کے وقت اس کے ابا اور بھائی آجاتے ہیں۔ ظہر کے وقت اس کے ابا MAVLNA چلے جاتے ہیں وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا ہوٹل ایسی جگہ ہے جہاں دائیں ہاتھ پر شمس ؒ اور بائیں ہاتھ پر MAVLNA ہیں دونوں طرف پیدل کا راستہ ہے وہ سب لوگ تو مولانا رومیؒ کے بہت عقیدت مند ہیں لیکن وہ کہہ رہا تھا MAVLNA جانے سے پہلے شمس تبریزؒ کی زیارت کو جانا اس سے پہلے کہیں مت جانا۔

انشاء اﷲ ہم صبح شمس ؒ کی زیارت کو جائیں گے یہ بھی اتفاق ہے کہ ہم دونوں اہم جگہوں سے اتنے قریب ہیں۔ ہم یہاں اپنے بارہویں پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں