[ad_1]
ہماری زندگی میں کچھ دن، تاریخیں، لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ کتنا بھی وقت گزر جائے جب بھی وہ دن تاریخ آتی ہے اس سے جُڑے واقعات چھم چھم کرتے ہمارے چاروں اُور گھومنے لگتے ہیں۔
جیسے ، یکم اپریل اور اس کے بعد کی تاریخیں———برس، برس کرتے پینتالیس برس بیت گئے پھر بھی لگتا ہے کل کی بات ہو۔
ہم خیبر میل کے ڈبے میں یکم اپریل کے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہے تھے اور شدت سے کراچی پہنچنے کے منتظر تھے، کراچی پہنچنے کی بے تابی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک اہم وجہ گھر پیارا گھر۔ سکھر سے اپنے عم زاد کی دلہن رخصت کراکے لا نے کی خوشی، رنگین آنکھوں اور سنہری رنگت والی دلہن سب کے درمیان میں یوں سکڑی سکڑائی بیٹھی تھی جیسے اُڑ جانے کا اندیشہ ہو اور ہمارا عم زاد خاندان کے دیگر چھوٹے بڑے عم زادوں کے بیچ نیند سے بوجھل آنکھیں لیے ریل کے جھٹکوں کے سنگ یوں جھول رہا تھا جیسے سچ مچ کا جھولا جھول رہا ہو۔
کوٹری یا شاید جنگ شاہی کے اسٹیشن پر ہاکر چیخ چیخ کر یہ بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ آج یکم اپریل ہے، آج یکم اپریل ہے اور بھٹو کی زندگی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
جس کا جتنا سیاسی شعور تھا یا جتنی دل چسپی تھی۔ اس نے چہرے اور زبان سے اتنا ہی اظہار کیا۔ ہاکر کے ہاتھوں میں دبے اخبارات مختلف قسم کی سرخیوں اور بھٹو کی تصویروں سے بھرے پڑے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر اخبار لینا چاہا لیکن بڑوں نے یہ کہہ کے روک دیا۔ آج یکم اپریل ہے۔ بے قوف بنا رہا ہے۔
اگلے آدھے ایک گھنٹے کے بعد کراچی آگیا۔ دلہن دولہا مع اپنوں کے اپنے گھر کی طرف اور ہم اپنے، اپنوں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٹرین کے سفر اور نیند کی جگار سے چور گھر پہنچے تو ممتا سے چور ماں کا خیال تھا کہ ہم سب نہا دھو کے سوجائیں لیکن پاگل دل تو ہاکر کی اس صدا سے بندھا تھا کہ بھٹو کی زندگی کا فیصلہ ہونے والا ہے اور اس بات کی تصدیق، تردید تو آفس جانے کی صورت ہی میں ممکن تھی۔
آفس پہنچے تو روز کے معمول میں ہم سے بعد آنے والے ہم سے پہلے موجود تھے۔ اس غیرمعمولیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کولیگ اور دوست مجاہد سے پوچھا،’’خیر ہے یہ شام صاحب اور اشرف اتنے سویرے سویرے کیسے آگئے۔‘‘
میز پر رکھا فون مسلسل بج رہا تھا، جس کا جی چاہتا اٹھاتا اور جو جی چاہتا جواب دے دیتا۔ ان ہی بجتی گھنٹیوں اور جوابات کے درمیاں مجاہد نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا،’’سانس لیں شہناز صاحبہ خیر کا وقت گزر چکا ‘‘ تو کیا اسے مار دیا۔
‘‘ نہیں ابھی نہیں۔‘‘ مجاہد نے مفکرانہ انداز میں جواب دیا۔
میں نے لمبی سانس کھینچی اور خود کو کرسی پر گرانے والے انداز میں بیٹھ گئی۔
یکم اپریل کا وہ سارا دن خبروں اور خبروں کی تردید تصدیق میں گزر گیا۔ سکھر کا نمائندہ کسی جہاز کے اترنے کی خبر دیتا تو لاڑکانہ والا کسی ہیلی کاپٹر کی— شام ڈھلے خود کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ آج یکم اپریل ہے گھروں کی جانب چل دیے۔
اگلی صبح شام صاحب نے مزید دل دہلا دینے والی خبروں کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا: ’’وردی والوں نے مقامی پولیس کے ساتھ قبرستان کی جگہ کا معائنہ کیا ہے، خاندانی مسجد کے مولانا سے ملے ہیں، بھٹو خاندان کا منیجر بھی موجود رہا، قبر کی جگہ پوچھی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
عمر کے اس دور میں لگتا تھا بھٹو مر نہیں سکتا یا اس کو کوئی مار نہیں سکتا کہ وہ تو بھٹو ہے۔
آفس کا فون ان دنوں کسی سودائی کی طرح بجتا ہی رہتا اور کیسی عجیب بات تھی کہ فون کرنے والے سب بھٹو کی پارٹی کے لوگ، سوکھے پتوں کی طرح اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے، بولائے ہوئے سے تھے۔
یہ سب ہوتے ہوتے اپریل کا دوسرا دن بھی تمام ہو ہی گیا اور ایک نئی صبح کی آس میں ہم سب پھر اپنے اپنے آشیانوں کی جانب چل دیے۔ اُس ماہ کا تیسرا دن بھی سرگوشیوں، چھوٹی چھوٹی خبروں، ہونے نہ ہونے کی الگنی پر لٹکتے گزر ہی گیا تھا۔
اس شام ہمارے اس عم زاد کا ولیمہ بھی تھا جس کی دلہن کو ہم سکھر سے ٹرین میں بٹھا کر لائے تھے۔ سارا دن کیوں کہ بری بری خبروں کی آمد ورفت میں گزرا تھا سو من کسی صورت کہیں بھی جانے کو تیار نہ تھا لیکن فرار کا کوئی راستہ بھی نہ تھا سو جانا ہی پڑا۔ ولیمہ کی تقریب میں جس کسی کو اردگرد کے حالات سے دل چسپی تھی اس نے ضرور پوچھا،’’بھٹو کا کیا ہورہا ہے؟‘‘ رٹو طوطے کی طرح ہم جواب دیتے،’’آج کی رات بھاری ہے کچھ نہ کچھ ہورہے گا۔‘‘
اس جواب میں ہماری اپنی کسی قابلیت یا دوراندیشی کا کوئی کمال نہ تھا۔ دراصل یہ وہ جواب تھا جو سارا دن ہم نے دفتر میں سرگوشیوں میں سنا تھا۔ گھر آکر کئی بار سوچا کہ شام صاحب کو فون کریں پر ہمت نہ ہوئی۔ ٹی وی دیکھا اور لیٹنے سے قبل اپنی کتابوں کی میز کو بستر سے قریب کرتے ہوئے ٹیلیفون کو اسٹینڈ سے اتار کے اس پر جمایا اور جاگتی آنکھوں سونے کی کوشش کرنے لگے۔ کمرے کی کھڑکی سے رات گزرنے کا اندازہ کرتے رہے۔ صبح کی اذان سنی تو دل کو تسلی ہوئی کہ رات گزر گئی۔ چائے میں دودھ کی طرح صبح کی روشنی نے ملاوٹ کی ہی تھی کہ سرہانے رکھا فون بجا یا چیخا یا کراہا جھپٹ کے فون اٹھایا اور میرے ہیلو کہتے ہی شام صاحب کے دو الفاظ صرف دو الفاظ ’’کام ہوگیا‘‘ سنائی دیے اور فون بند ہوگیا۔
سر اوپر اٹھایا تو کمرے کے دروازے پر امی پاپا سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے۔ میں نے بھی شام صاحب کی طرح صرف دو الفاظ کہے ’’کام ہوگیا‘‘ اور تکیے میں منہ چھپا لیا۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اپریل کی اس چوتھی صبح کو جس کا آغاز فون پر کہے دو الفاظ سے ہوا تھا اس صبح کی خاموشی میں دوسری گھنٹی ہمارے دروازے کی بجی تھی۔ وہ گھنٹی بجانے والا کوئی اور نہیں بھائیوں اور دوستوں جیسا جماعت اسلامی کے عشق میں گٹوں گوڈوں ڈوبا حسین حقانی تھا۔
ماں تو ماں ہوتی ہے نا اولاد کے سارے مزاجوں سے آشنا سو انھوں نے اسے دروازے ہی سے یہ کہہ کے واپس کردیا۔ اسے خبر مل چکی ہے تم گھر جاؤ۔
سارا گھر جاگ گیا تھا، کوئی بول نہیں رہا تھا۔ سب کے بیچ خاموشی بول رہی تھی اور ریڈیو کی آواز گونج رہی تھی۔
بی بی سی جیل کے اوپر اُڑنے والے ہیلی کاپٹر، جیل سے نکلنے والے ٹرکوں کی باتیں کررہا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ صبح سویرے سڑکوں کی صفائی کرنے والا عملہ کام کرہا ہے۔ ٹریفک چل رہا ہے وغیرہ۔
سورج آہستہ آہستہ اوپر آر ہا تھا۔ سب گو مگوں کا شکار تھے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آج کیا ہوگا؟دن آگے بڑھے گا یا ٹھہرا رہے گا۔
اخبار آیا، الجھی الجھی خبروں کے ساتھ، باہر سڑک خاموش تھی، وہ جو صبح کے ساتھ آوازوں کا ایک ہنگامہ جاگتا تھا وہ نہ جانے کہاں سویا تھا۔
دن تھوڑا اور بڑھا تو اندر کے صحافی نے للکارا۔ گھر کے باہر سڑک پر خاموشی کا راج تھا، اکا دکا کوئی چلتا پھرتا نظر آر ہا تھا۔ اپنے دفتر تک پہنچنے کے لیے سواری کا بہت انتظار کرنا پڑا۔ وہ دن بہت اداس تھا۔
ہر سو اُداسی بال بکھرائے کھڑی تھی، رو تو نہیں رہے تھے لیکن سڑک، گلی، چوبارے، کھڑکی دروازے، چھت، آسمان، پھول پودے سب سسک رہے تھے۔
دن بھر دفتر میں لوگ آتے رہے، بولیاں بولتے رہے، لاڑکانہ خبریں دیتا رہا، ضمیمے چھپتے اور بکتے رہے، رینگتے رینگتے اپریل کا وہ دن اختتام کو پہنچا۔
ہم بھی گھر کو لوٹے تو ہماری سنگت میں مجاہد، شاہد، خورشید اور بھی شاید ایک دو لوگ تھے۔ شام ڈھلے ہم سب نے دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھ کے بی بی سی سنا، بنا ایک دوسرے کو دیکھے سب نے آنسو بہائے اور کسی انہونی کے انتظار میں اگلے دن ملنے کی آس میں جدا ہوگئے۔
ان پینتالیس سالوں میں پینتالیس ماہ اپریل آئے اور گزر گئے لیکن وہ انہونی نہ ہوئی جس کا انتظار تھا۔ البتہ جس دلہن کو ہم ٹرین میں بٹھاکر سکھر سے لائے تھے وہ آٹھ سال ہوئے برین ٹیومر کا شکار ہوکے چند ماہ میں چٹ پٹ ہوگئی اور ٹرین کے جھٹکوں کے سنگ ادھر ادھر جھٹکے کھاتا اس کا دولہا اور ہمارا عم زاد بھی چھے ماہ گزرے معدے کے ٹیومر کا نوالہ بن کے اپنی دلہن کے پاس چلا گیا۔
اپریل پھر آیا کھڑا ہے!
لگتا ہے کل کی بات ہو!
[ad_2]
Source link