9

عوام کو ریلیف دینے پر صرف زور

[ad_1]

مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف سے ان کے چھوٹے بھائی وزیراعظم شہباز شریف نے ملاقات کی جو پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے چیمبر میں ہوئی جس میں سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔

تین بارکے وزیراعظم نے دوسری بارکے وزیراعظم بننے والے اپنے بھائی پر مشکلات کے باوجود ایک بار پھر عوام کو ریلیف دینے پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں اپنے منشور پر فوکس کرنا چاہیے، عوام کو ہم سے بہت سی توقعات ہیں۔

وزیراعظم نے اس زور پر اپنے قائد کوکیا جواب دیا، اس کا خبر میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ وزیراعظم پر یہ زور اس دن دیا گیا جس روز ملک بھر کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی تھی کہ عید سے قبل پٹرول کی قیمت میں تقریبا دس روپے فی لیٹر اضافے کے بعد عوام کو دوسرا جھٹکا بجلی2.75 روپے فی یونٹ مہنگی کر کے دیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق دوسری سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کی گئی ہے ، جس سے صارفین پر 85 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا اور مہنگائی مزید بڑھے گی۔

روزنامہ ایکسپریس کے سروے کے مطابق بدترین مہنگائی کے باعث غریب اور متوسط طبقہ عید کی خوشیوں سے دورہوگیا ہے۔ رواں برس 25 فیصد گھرانے عیدکی خریداری سے محروم اور مصنوعی مہنگائی سے ملک کے سب سے بڑے شہرکے شہریوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے۔ ماہر معیشت کہتے ہیں کہ مہنگی اشیائے خورونوش نے غریبوں کی کمر توڑکر رکھ دی ہے، جب پیٹ پالنا مشکل ہو تو لوگ عید پر اخراجات کیسے برداشت کریں گے؟

مہنگائی کی وجہ سے کئی لوگ آمدنی کے حصول کے لیے جرائم کی دنیا سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ حکومت سماجی تحفظ کے لیے جامع پالیسی کا اعلان کرے۔ روزنامہ ایکسپریس کے سروے کے مطابق لوگوں کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے غریبوں سے عیدکی خوشیاں چھین لی ہیں بہت سے لوگ بچوں کے لیے عید کے کپڑے نہیں خرید سکتے۔ لوگوں نے کہا کہ یوٹیلٹی بلز بڑھنے سے گھریلو معاشی حالات بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور حکومت بجلی،گیس اور پٹرول کی جب بھی قیمتیں بڑھاتی ہے تو مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔

یہ حالات ہیں کہ غریب عیدکی خریداری کر ہی نہیں سکتے، کپڑوں اور جوتوں کی قیمتوں میں 30 سے 50 فیصد اضافہ ہوچکا ہے مگر حکومت کو غریبوں کا احساس نہیں۔ مخیر حضرات کی مالی مدد سے چند ایک غریب عیدکی خوشی میں شریک ہوجاتے ہیں مگر غریبوں کے حالات انھیں عید پر خریداری کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ مہنگائی کی وجہ سے اس بار عیدکی خریداری کا بجٹ فی کس پانچ ہزار روپے ہوگیا ہے، جو پہلے تین ہزار روپے فی کس تھا۔

پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما وقار مہدی نے اس سلسلے میں کہا کہ سندھ حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ صوبے میں مہنگائی کوکنٹرول کرے، غریب ومتوسط طبقے کی مدد کے لیے حکومت سندھ کی طرف سے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، حکومتی وزراء کے منہ سے ایسی باتیں برسوں سے سن رہے ہیں اور سنتے آرہے ہیں۔

عید بھی قریب آگئی ہے مگر مہنگائی روکنے کے اقدامات منظر عام پر نہیں آئے، مگر اخبارات میں روزانہ یہ خبر ضرور شایع ہو رہی ہیں کہ گراں فروشوں سے روزانہ لاکھوں روپے جرمانہ وصول کیا جارہا ہے، مگر مصنوعی مہنگائی کم نہیں ہوئی، البتہ جرمانوں سے حکومت کے خزانے میں کروڑوں روپے ضرورجمع ہوگئے ہیں، جس سے حکومت کو ضرور فائدہ پہنچے گا، مگر عوام کوکوئی بھی فائدہ نہیں ہوا،گراں فروشوں نے جرمانے ادا کیے، جرمانے کی رقم بمعہ سود عوام سے اشیاء کے نرخ مزید بڑھا کر وصول کر لیے اور عوام حکومتوں کا منہ دیکھتے رہ گئے، جو برسوں سے صرف وعدے کرتی آرہی ہیں مگر مہنگائی کو کنٹرول نہیں کرتیں۔

گزشتہ سال رمضان المبارک اور عید پر بھی مسلم لیگ کی اتحادی حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وہی نمائشی بیانات اور حکومتی دعوے تھے مگر عوام کو ریلیف نہیں ملا تھا۔ گزشتہ سال میاں نواز شریف ملک میں نہیں تھے جو اب ملک میں موجود ہیں جن کی صاحبزادی اب پنجاب کی وزیراعلیٰ اور چھوٹے بھائی دوبارہ وزیراعظم ہیں اور وہ اپنے بھائی کو حکم یا ہدایت نہیں بلکہ صرف زور دے رہے ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دیں۔

مختلف حکومتوں کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے صرف وعدے ہی ہوئے مگر عمل ہوتا نظر نہیں آیا اور عوام ریلیف ملنے کا انتظار کرتے رہ گئے، مگر ریلیف نہ ملا کیونکہ حکومت کے نزدیک مشکلات ہیں اور حکومت کو آئی ایم ایف سے مزید قرضے کے لیے مہنگائی بڑھانی پڑتی ہے اور عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا، جس کے نتیجے میں غریب مزید غریب اور متوسط طبقہ اب غریب ہو کر رہ گیا ہے۔

وزیراعظم کے بقول حکومت کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں ہے جس کے لیے حکومت قرض لیتی ہے اورگزشتہ قرضوں کی قسطیں ادا کرتی ہے اور عوام کو دینے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دے سکیں۔ خیر ملکی قرضوں کے باعث ہماری اب نہیں بلکہ سالوں سے مقروض نسل پیدا ہو رہی ہے جس نے یا اس کے والدین نے نہیں بلکہ قرض ہر حکومت نے لیا اور ہر حکومت ملک کے مشکل حالات کا ذمے دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہراتی رہی ہیں۔

چھ ماہ کی نگران حکومت سے قبل بھی ملک میں 16 ماہ تک مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور چھ ماہ بعد اب پھر ملک میں بھی پیپلز پارٹی کا صدر مملکت اور مسلم لیگ نون کے وزیراعظم موجود ہیں اور دونوں پارٹیاں ملک میں مہنگائی بڑھانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

میاں نواز شریف نے وزیراعظم پر عوام کو ریلیف دینے کا زور دے کر جان چھڑائی مگر صدر مملکت اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو خاموش ہیں، جن کی دوصوبوں میں حکومت ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی وفاق میں حکومت ہے اس لیے اب انھیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے، دعوؤں سے تو عوام بیزار ہوچکے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں