[ad_1]
حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا خیال ہمیشہ ‘اس وقت آتا ہے جب لاشوں کی تعدادکم از کم پچاس سے زیادہ ہویا مرنے والے غیر ملکی ہوں ‘ ورنہ یہ ایک دو لاشیں تو باعث تشویش نہیں ہوتیں۔اب بھی دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی باتیں ہورہی ہیں۔
دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالی ‘حالانکہ ان کا وعدہ تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے لیکن یہ وعدہ تب ہی مشکوک نظر آرہا تھا جب طالبان نے افغانستان کی جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو رہا کردیا، افغانستان کی اشرف غنی حکومت نے ان دہشت گردوں کوگرفتار کر کے جیل میں ڈالا تھا‘یہ دہشت گرد حکومت پاکستان کو مطلوب تھے۔
افغان طالبان نے کابل کا اقتدار سنبھالتے ہی تحریک طالبان پاکستان کے ممبران کو ملک میںآزادانہ نقل وحرکت کی اجازت دے دی ‘ یوں پاکستان کے دشمنوں اور پاکستانی سہولت کاروں کے گٹھ جوڑ نے ملک کو ایک بار پھر دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا ‘دہشت گردی کی وارداتوں میںاضافہ اس امر کا متقاضی ہے کہ سیکیورٹی کے ذمے دار ادارے،قانون نافذ کرنے والے ادارے، انٹیلیجنس کے تمام ادارے ہمہ وقت مستعد رہیں اور دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔
برادر چینی باشندوں کے خلاف‘ دہشت گردی کے واقعے نے حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کی یاد دلادی۔ اپنے قارئین اور حکومت کی یاد دہانی کے لیے ، نیشنل ایکشن پلان کی تفصیل دوبارہ بیان کرنا شاید بے موقع نہیں ہوگا ۔نیشنل ایکشن پلان کیا ہے؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ پلان یا منصوبہ 16دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بنایا گیا تھا۔ دہشت گردوں نے سو سے زائد معصوم طالب علموں کو انتہائی بے رحمی اور سفاک سے شہید کردیا تھا، اس دلدوز سانحے کوتقریبا10 برس گزر چکے ہیں لیکن اس کا زخم آج بھی تازہ ہے جب کہ درد سوا ہے ۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے تمام مصروفیات منسوخ کر کے پشاور کا ہنگامی دورہ کیا ‘ملک کی تمام سیاسی قیادت نے 17دسمبر کو پشاور کے گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی ‘اس کانفرنس میں سیاسی جماعتوںکی تمام قیادت کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کی تمام قیادت بھی موجود تھی۔
اس سانحے کے اثرات و مضمرات اتنے گہرے تھے کہ عمران خان کو بھی اسلام آباد کا اپنا دھرنا لپیٹ کر پشاور آنا پڑا‘سانحہ پشاور کے سنگین اور گہرے نتائج اور مضمرات کے پیش نظر پاکستان کی ساری سیاسی قیادت اور ساری ریاستی قیادت عوامی دباؤ برداشت نہ کرسکی اور انھیں پہلی بار دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا پڑا ‘ پاکستان کی ساری سیاسی قیادت نے پہلی بار متحد اور متفق ہوکر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا اور یہ جنگ بھرپور انداز میں لڑنے کا اعلان کیا اور عزم ظاہر کیا کہ پوری یکسوئی کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی دہشت گرد موجود ہے۔
اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے واضح اعلان کیا کہ اچھا اور برا کوئی نہیں ‘طالبان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہوگی ‘اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ وزیر داخلہ کی قیادت میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے گی ‘جو ایک ہفتے میں دہشت گردی کے خاتمے کا پلان آف ایکشن تیار کرکے قومی قیادت کو پیش کرے گی ‘قومی اور عسکری قیادت کی منظوری کے بعد ان پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
اس کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد سفارشات دوبارہ قائدین کو پیش کی گئیں‘اس سلسلے میں24دسمبر 2014کی تاریخی دن کو وزیر اعظم کی زیر صدارت تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہوگئی ہے ‘کمزور فیصلے کیے تو قوم مطمئن نہیں ہوگی، ہم قوم کے مفاد میں فیصلے کریں گے۔‘‘اس مسئلے پر مزید تفصیل سے قبل چند حقائق ‘جن سے اس المناک واقعے کا پس منظر زیادہ واضح ہو جائے گا۔
ادھر افغان جنگجو گروپس امریکا، روس، ایران ،سعودی عرب اور پاکستان کی مدد و تعاون سے افغانستان میں پراکسی وارز میں مصروف رہے‘ ان پراکسی وارز میں افغانستان تباہ ہوگیا لیکن افغانستان کے بعد ان پراکسیز کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ ’’پراکسی وار‘‘ کا پھیلاؤ ہوا، دہشت گردی پاکستان میں پہنچ گئی‘ ہمارے پالیسی سازوں نے اپنے ملک میں دوست ملکوں کی پراکسی وارز روکنے کی سنجیدہ اور عملی کوشش نہیں کی بلکہ عوام کو حقائق بتانے کے بجائے حقائق چھپانے کی پالیسی اختیار رکھی گئی۔
ہم کیوں بھول گئے کہ دہشت گرد گروہوں کی قیادت کو آج اگر کوئی ملک خرید کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے تو کل کوئی ملک یا بلیک اکانومی کے اسٹیک ہولڈرز زیادہ پیسے دے کر اپنے حق میںاستعمال کر سکتا ہے اگر افغان مجاہدین اور طالبان امریکا ، برطانیہ، فرانس، خلیجی عرب ممالک اور پاکستان کی مدد، سہولت کاری اور دولت سے فائدہ اٹھاتے رہیں تو وہ روس، چین، ایران اور بھارت سے بھی باآسانی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔
ہماری پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پوری دنیا میں انتہا پسند اور دہشت گردوں کے سہولت کارمشہور ہو گئے۔2007سے نیٹو فورسز کے کمانڈرز افغان طالبان کے حوالے سے انتباہ کرتے رہے ،کوئٹہ شوریٰ کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہیں ‘پاکستان میں افغان طالبان کے سہولت کاروں کا نیٹ ورک طاقتور ہوگیا، ان سہولت کاروں کے تعاون سے افغانوں کے پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بننے شروع ہوئے، افغان طالبان کی قیادت نے خفیہ ناموں سے جائیدادیں خریدنا شروع کردیں۔
پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ جنرل راحیل شریف افغانستان گئے اور مطالبہ کیا کہ افغانستان میں چھپے ہوئے پاکستانی طالبان کو ختم کیا جائے اور ساتھ یہ وعدہ کر آئے کہ پاکستان کی سر زمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا‘ان کے یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ واقعی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے تھے۔
اب اصل بات یعنی نیشنل ایکشن پلان کی طرف آتے ہیں۔ NAP بنیادی طور پر 20نکات پر مشتمل تھا ‘اس سلسلے میں ہر صوبے میں جنوری 2015میں Apexکمیٹیاں بنائی گئیں‘ان کمیٹیوں میں صوبائی سول اور ملٹری قیادت مل کر وزیر اعلیٰ کی قیادت میں فیصلے کرتی تھیں تاکہ NAPپر عمل درآمد کا عمل تیز کیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان کاباقی قصہ بعد میں۔
The post بھولی بسری نیپ appeared first on ایکسپریس اردو.
[ad_2]
Source link