[ad_1]
کراچی: سپریم کورٹ نے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین بحالی سےمتعلق عمل درآمد یقینی بنانے سے متعلق درخواست پر دونوں مرحلے مکمل ہونے کے بعد آئندہ 2 ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین بحالی سے متعلق عمل درآمد یقینی بنانے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف سیکریٹری سندھ، ایڈوکیٹ جنرل سندھ، کمشنر کراچی سمیت ڈپٹی کمشنرز اور دیگر پیش ہوئے۔
عدالت نے فریقین سے سوال کیا کہ اب تک کیا پیشرفت ہوئی۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ ہم نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کو خط لکھ دیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں ہر محکمے کا ایک ذمہ دار اس معاملے میں نمائندہ بنے۔ ہم اس بات کویقینی بنانا چاہتے ہیں کہ بعد میں زمین کی الاٹمنٹ اور رقم کا تنازعہ نہ ہو جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ متاثرین کی جانب سے کوئی نمائندہ بننا چاہتے ہیں۔ عدالت نے متاثرین کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ ایسا کریں کہ آپ نمائندہ بن جائیں، اس پر جواباً فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ نہیں میں نمائندہ نہیں بننا چاہتا۔ معاملے میں جو درخواست گزار ہیں وہ شہری تنظیم کی سربراہ ہیں۔
فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے مزید کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے لگایا گیا جو بھی تخمینہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہوگا۔ ہماری تجویز ہے کہ تنظیم شہری کی سربراہ کو پی ای سی سےمشاورت میں شامل کردیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ کہیں گے کہ پہلے مرحلے میں پی ای سی کا تخمینہ آجانے دیں۔ اگر آپ کو اعتراض ہو تو آپ دوبارہ عدالت سے رجوع کرلیں۔ متاثرین کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عدالت کی وجہ سے یہ معاملہ پائے تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوجائیں گے۔
اس موقع پرگجرنالہ متاثرین کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں ان متاثرین کی لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ یہ کیسےرہ گئے آپ کی لسٹ سے۔ ان لوگوں کو بھی تو متاثرین میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ کیا آپ کی معلومات میں ان لوگوں کو چیک ملے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ اگر انہیں پیسے نہیں ملے تو یہ لوگ کمشنر آفس سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
عدالت نے افسران سے استفسار کیا کہ اس معاملے کو دیکھیں ان کے نام 6932 افراد کی لسٹ میں شامل ہیں آپ کو پتہ نہیں۔ متاثرین کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم یہ کہہ رہے کہ پہلے مرحلے میں جن لوگوں کے نام فائنل ہوچکے ہیں انھیں متبادل فراہم کرنے کا کام شروع کیے جائیں۔
نمائندہ گجر نالہ متاثرین عارف شاہ نے کہا کہ فروری میں کمشنر آفس میں جو میٹنگ ہوئی تو سب متاثرین کے نام تھے۔ پھر دوسری میٹنگ میں ہمارے نام نکال دیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ متاثرین چیک لینے گئے تو ان کے نام شو نہیں ہو رہے تھے جس پر اداروں سے معلومات حاصل کی تو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے 6932پر لاک کردیا ہے جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم نے لاک نہیں لگایا۔
نمائندہ گجرنالہ متاثرین نے عدالت کو سرکاری اداروں کی جانب سے ایم سی کو بھیجی گئی سپورٹ انکوائری ڈن کی لسٹیں دکھائیں اور کہا کہ متاثرین روزانہ دھکے کھا رہے ہیں، اگر اکاؤنٹنگ 6932 پر رہی تو ان کا کیا بنے گا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملات درست نظر نہیں آرہے۔
متاثرین کے وکیل نے شکوہ کیا کہ ہم کہتے ہیں کہ ایک پراسس شروع ہوجائے پھر باقی رہ جانے والوں کو بھی دیکھا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ معاملے کو فائنل کریں۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ 2 کمرے،کچن، باتھ روم، صحن اور چھت پر مشتمل گھر کا تخمینہ ہم نے نکالا ہے۔ 80 گز کی جگہ میں ایسی ہی کنسٹرکشن ہوتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم سب کچھ پی ای سی پر نہیں چھوڑ سکتے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اور وکیل متاثرین میں تلخ کلامی ہوگئی۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ متاثرین وکیل بلاوجہ معاملے کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں، سب معاملات کابینہ میں طے ہوچکے ہیں۔
دوران سماعت متاثرین کے نمائندوں نے بھی عدالتی کارروائی میں بولنے کی کوشش جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے انہیں جھاڑ پلادی۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل بات کررہے ہیں اگر آپ معاملہ حل نہیں کرنا چاہتے توآرام سےبیٹھ جائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ لوگ اس پر تیار نہیں، کل کہہ دیں گے گراؤنڈ پلس 2 بنادیں۔ پھر بولیں گے لفٹ لگا دیں۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ ہم عدالت میں معاملے کو حل کرنے آئے ہیں لیکن متاثرین کے وکیل لوگوں کو پریشان کرنے آئے ہیں۔ ہم تخمینہ کیلیے پی ای سی کی بات سننا چاہتے ہیں اگر وہ کہتے ہیں کہ 25 لاکھ تخمینہ ہے تو ہم مان لیں گے۔
عدالت نے فریقین سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہاں معاملہ کو نمٹانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ 3 ہفتوں کے بعد مزید 2 ہفتوں میں عمل درآمد اور متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات شروع کریں۔ عدالت نے 3 ہفتوں میں پی ای سی سے معاملہ حل کرانے کا حکم دے دیا۔
[ad_2]
Source link