10

بیرونی سرمایہ کاری، معاشی استحکام کی کنجی

[ad_1]

پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور باہمی امور پر تبادلہ خیال ہوا، پاک سعودی تجارتی، سرمایہ کاری اور اقتصادی امور پر بھی گفتگوکی گئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم اور ان کے وفد کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا۔

غیر ملکی سرمایہ کار ماضی میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کے ذریعے کثیر زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان ان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا کر اپنی معیشت سنوار سکتی ہے جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی اور زراعت جیسے شعبوں میں مزید بہتری آنے کے امکانات ہیں۔ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن بھی ہے تاہم ابھی ایک لمبا معاشی سفر طے کرنا ہے۔ ویسے تو ملکی معیشت کو بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہے تاہم سب سے بڑا مسئلہ حد سے زیادہ قرض اور اِس کی ادائیگیوں کا ہے۔

سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک سے توانائی خصوصاً قابل تجدید توانائی، آئل ریفائننگ،کان کنی، غذائی تحفظ، بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز، لاجسٹکس، واٹر سپلائی اور ویسٹ مینجمنٹ کے شعبوں میں کثیر سرمایہ کاری متوقع ہے۔ پاکستان موجودہ حالات میں انتہائی مشکلات سے دوچار ہے، پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، اوورسیز پاکستانیوں کو بھی چاہیے وہ اپنے ملک میں بھی سرمایہ کاری کریں تاکہ معاشی حالات میں بہتری آئے۔

سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ پاکستان کی معاشی مشکلات میں حکومت کی مدد کے لیے سعودی عرب نے پہلے ہی دو ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کروائے تھے جس سے ملک کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائرکوکچھ ڈھارس ملی تھی، جب کہ حالیہ دنوں میں ریکوڈک میں سعودی عرب کی جانب سے ایک ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کیے جانے کا امکان ہے۔

پاکستانی حکام مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں سعودی عرب سے بڑی سرمایہ کاری کے منصوبے متوقع ہیں، جن میں معدنی وسائل، تجارت، مالیات، ماحولیات، زراعت، نقل و حمل، لاجسٹکس، کمیونیکیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت سمیت دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ پاک، سعودی تجارتی حجم کو 20 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔

اسی طرح سعودی عرب آیندہ پانچ سالوں میں پاکستان سے براہ راست چاول کی درآمد بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ سعودی عرب ، پاکستان کی بڑی اور معروف کمپنیوں سے معاہدوں کے ذریعے براہ راست پاکستانی کاشتکاروں سے زرعی پیداوار کو حاصل کرے گا اور اسے سعودی مارکیٹ میں صارف تک کم قیمت پر پہنچایا جائے گا۔ سرمایہ کاری، مشترکہ منصوبوں، تعمیراتی خدمات، آئی ٹی، خوراک ٹیکسٹائل اور مالیاتی خدمات سمیت مختلف کاروباری شعبوں میں تعاون بڑھانے پر غور جاری ہے۔

گزرے برس خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کا قیام عمل میں آیا تو یقین تھا کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج پوری قوم کو دیکھنے کو ملیں گے۔ ایس آئی ایف سی کے قیام سے قبل غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کرنے سے قبل کچھ اداروں سے این او سیز اور اجازت نامے حاصل کرنے پڑتے تھے، پھر ان کو صوبائی سطح پر تو کبھی وفاقی سطح پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے سبب ملک میں بڑی سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔

ایس آئی ایف سی کے قیام سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے کیونکہ اس کونسل میں وفاقی اور صوبائی وزارتیں، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز سمیت اہم وزراء اور وزیر اعظم بھی شامل ہیں جب کہ سول حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اس میں عسکری قیادت بھی شامل ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت جن شعبوں میں بہتری آئے گی ان میں زراعت، لائیو اسٹاک، کان کنی، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے کلیدی شعبے سرفہرست ہیں۔

اس وقت پاکستان کو شدید معاشی للکار کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے خوراک،گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، ماضی کی ناقص حکمرانی اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر رہی کہ ابتدائی اور درمیانی آمدنی کے حامل ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم پیداواری فی کس کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن میں بحران پیدا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ ملک اتنا زر مبادلہ کمانے سے قاصر تھا کہ درآمدات کے لیے فنڈ مہیا کر سکے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مالیاتی ادارے کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ 820 کھرب روپے جب کہ آیندہ مالی سال (2024-25) کے اختتام تک 922 کھرب روپے سے تجاوزکر سکتا ہے۔

گزشتہ مالی سال مجموعی سرکاری قرض اور واجبات 680 کھرب روپے تھا یوں عوامی قرضوں اور واجبات سے متعلق اعداد و شمار ظاہرکرتے ہیں کہ رواں مالی سال لگ بھگ140 کھرب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یوں بڑھتے مالیاتی خسارے کی وجہ سے کل سرکاری قرضے اور واجبات مزید بڑھ جائیں گے۔

عالمی مالیاتی ادارے کے تخمینے کے مطابق رواں مالی سال کا مالیاتی خسارہ 82کھرب سے تجاوزکر جانے کا امکان ہے جو جی ڈی پی کا لگ بھگ آٹھ فیصد ہو گا جب کہ ملکی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی 86 کھرب روپے سے زائد رہنے کا تخمینہ ہے جو آیندہ مالی سال بڑھ کر 96 کھرب روپے سے زائد ہوسکتی ہے۔ اِن اعداد وشمار کے پیش نظر آیندہ مالی سال کا بجٹ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

دوسری جانب ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگرچہ گزشتہ برس کے ساڑھے 17ارب سے کم ہوکر تین ارب ڈالر تک رہنے کا امکان ہے تاہم اِس سے مقامی صنعت کو نقصان کا اندیشہ بھی ہے جب کہ درآمدات میں کمی کے منفی اثرات پہلے ہی نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں کہ رواں مالی سال شرح نمو صرف 0.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے اور مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار 25 فیصد کم ہو چکی تھی۔

دگرگوں معاشی حالات کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں (ایس آئی ایف سی) خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا اور اِس کا مقصد کاروبار کی لاگت کم کرنا، نئے صنعتی کلسٹرز کا قیام اور پالیسی میں ہم آہنگی لا کر ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا خصوصاً دوست ممالک (قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب) سے سرمایہ کاری فوری پاکستان لانا تھا، اِس نے قیام کے فوراً بعد ہی کام شروع کر دیا تھا اور اب تک اِس کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جا چکے ہیں جب کہ مزید کئی معاہدے بھی متوقع ہیں۔

معاشی ماہرین متفق ہیں کہ اِن سب کوششوں کے باوجود آیندہ مالی سال کے دوران قرضوں کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ 35 ارب ڈالرکے علاوہ دیگر معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرنے کی ضرورت ہوگی، وگرنہ ملک پر پھر سے دیوالیہ ہونے کے خدشات منڈلانے لگیں گے۔

قرضوں کی ری شیڈولنگ کو یقینی بنایا جانا بھی بہت ضروری ہے کہ اِس کے بغیر شاید مسائل قابو میں نہ آئیں جب کہ غیر ملکی زر ِمبادلہ کے ذخائر، برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلاتِ زرکے علاوہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس اصلاحات کے ذریعے ٹیکس آمدن بڑھانے کے ساتھ ساتھ اندرونی قرض، غیر ضروری حکومتی اخراجات، شرح سود اور مہنگائی میں کمی لانا ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

ضروری ہے کہ پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان لانا ملک کے معاشی مسائل کے حل کی کنجی ضرور ہے تاہم وہ ملک جہاں سیاسی استحکام نہ ہو اُس کے لیے سرمایہ کار کو راغب کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اِن پہاڑ جیسے معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ملکی معیشت کو بہتر بنانا سول و عسکری قیادت کی بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔

وزیراعظم پاکستان ملکی معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے خواہاں ہیں تو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اقتصادی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ پاک فوج کے ہر ممکن تعاون کے عزم کا اظہارکر چکے ہیں۔

روایتی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو موجودہ حالات کے پیش نظر اقتصادی سفارت کاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستان کے تمام مشنزکو سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان مربوط اقدامات اور کوششوں کی بدولت ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں