[ad_1]
ماہ صیام کے اختتام پر آنے والا مشرقی روایتوں کا امین عیدالفطر کا تہوار اپنے جلو میں کچھ ایسے رنگ لیے نمودار ہوتا ہے کہ اس سے جُڑی ہوئی روایتیں ہماری لگی بندھی زندگی میں بے پناہ مسرتوں کے ساتھ دھنک کے کتنے ہی رنگ بکھیر دیتی ہیں اور ان رنگوں کو سمیٹنے کے لیے عید کی تیاریاں ماہ رمضان کے پہلے ہفتے ہی سے شروع ہو جاتی ہیں۔
’عید روز تو نہیں آتی‘ کہہ کر ہمیں یوں بازاروں کے چکر لگواتی اور خریداری کرواتی ہے کہ سال بھر کی پونجی ’’ایک ہی دن‘‘ یعنی عید پر خرچ ہو جاتی ہے۔ واقعی عید تو پھر عید ہے۔
کہیں بچوں کے جوتے کپڑے، کہیں سوٹوں کے ساتھ میچنگ دوپٹوں کی خریداری و رنگوائی، کہیں درزیوں کے لگا تار پھیرے، کہیں میچنگ چوڑیوں کے لیے ہلکان، کہیں جوتوں تو کہیں برانڈ کے کپڑوں کے لیے سیل کی لائنوں میں کھڑے ہونے سے لے کر گھر کی آراستگی کے سامان کے لیے پورا رمضان اسی بھاگ دوڑ میں گزر جاتا ہے اور جونھی اعلان ہوتا ہے کہ ’’عید کا چاند نظر آگیا ہے!‘‘ تو یہ تیاریاں چاند رات کو عروج پر پہنچ جاتی ہیں، جسے دیکھو چاند کے جھلملاتے عکس میں اس کے فسوں میں ڈوبے ہوئے مع اہل و عیال بازاروں میں اس کی رونقیں سمیٹتے ہوئے کہیں کون مہندی سے ہاتھوں پر بنے ہوئے نقش و نگار اور کہیں رنگ برنگی نازک کانچ کی چوڑیوں کی کھنک میں ہر کلائی نئے گیت گاتی نظر آتی ہے۔
چوڑیوں کے ذکر سے ہمیں پچھلے سال عید کا ایک ایسا واقعہ یاد آیا کہ اب بھی لاکھ آنکھیں بند کرو، لاکھ ذہن سے جھٹکو، وہ بار بار نگاہوں کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔
عید کی انھی تیاریوں کے لیے پچھلے سال ہم بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ انار کلی جا پہنچے۔ ابھی گاڑی سے اترنے بھی نہ پائے تھے کہ ساتھ والی گاڑی نے اپنی گاڑی نکالنے کے لیے ہمیں روکا اور اس گاڑی روکنے نے ہمیں جو منظر دکھلایا وہ تو بس ذہن سے چپک کر ہی رہ گیا۔ عید کی تیاریوں سے لدھے پھندے، برانڈڈ لفافوں کے بنڈل اٹھائے، وہ فیملی اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو ایک چھوٹی سی بچی (یہی کوئی سات آٹھ سال کی ہوگی) نے انھیں روک کر اپنی چوڑیاں خریدنے پر اصرار کیا کہ ’’باجی دیکھیں آپ کے سوٹ کے ساتھ یہ چوڑیاں کتنی میچ کر رہی ہیں۔‘‘ اور ساتھ ہی چوڑیوں کا سیٹ ان کے ہاتھ میں پکڑایا۔
’’یہ گھٹیا چوڑیاں اور میں پہنوں، ان کی بیٹی نے تمسخرانہ انداز میں کہا اور ساتھ ہی چوڑیاں زمین پر پھینک دیں۔ چھن چھناک چوڑیاں تو ساری ٹوٹ ہی گئیں، لیکن اس بچی کے دل کے کتنے ٹکڑے ہوئے ہوں گے، یہ اس کے بہتے ہوئے آنسو اور زار وقطار رونا بتا رہا تھا۔ ’’باجی چوڑیاں بے شک نہ لیتی کم از کم انہیں توڑتی تو نہ۔ میری اماں آج مجھے کتنا مارے گی!‘‘ اسے روتے اور چوڑیوں کے ٹکڑے اٹھاتے دیکھ کر میرا خیال تھا کہ وہ اسے چپ کرا کے ضرور پیسے دیں گی یا اپنی بچی کو ہی ڈانٹیں گی، لیکن وہاں تو ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
ماں نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈال کر بڑی حقارت سے کہا ’’افوہ شاپنگ کا سارا مزا کرکرا کر دیا۔ یہ لوگ کسی جگہ بھی جان نہیں چھوڑتے!‘‘ یہ کہتے ہوئے پرس ہلاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ، یہ جا وہ جا۔ میرا تو اپنا دل یہ منظر دیکھ کر کرچی کرچی ہوگیا۔ اٹھتے ہوئے قدم من من بھرکے ہوگئے فوراً بازار کے بہ جائے اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سو کا نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھا تو وہ بولی ’’باجی، ہم غریب ضرور ہیں فقیر نہیں، آپ میری چوڑیاں خرید لیں۔‘‘ اور اس کی خودداری دیکھتے ہوئے میں نے پانچ سیٹ خریدے ان کے پیسے لیتے ہوئے اس کے چہرے پرجو خوشی تھی وہ بیان سے باہر ہے، جس نے میرا دل بھی ان جانی سی خوشی سے بھر دیا، شاید مخلوق خدا کی خوشی میں ہی دلی خوشی کا راز مضمر ہے۔
یہ تو میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے، لیکن ہر روز نہ جانے کتنے ہی ایسے واقعات ہیں، جو انسانیت کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن آپ ان سے نظریں چرا کر صرف اپنے بچوں پر ہی نظر رکھتے ہیں۔
ان ہی کا خیال اور ان ہی کے لیے شاپنگ کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے دنیا جہاں کی چیزیں خریدتے ہوئے لمحے بھر کو آپ کو خیال نہیں آتا کہ یہ بھی تو آخر بچے ہیں۔ ان کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے، ہم پر اور کچھ نہیں تو اپنے بچوں کا صدقہ خیرات کر کے ہم ان کے چہروں پر بھی تو مسکراہٹیں لاسکتے ہیں۔ انھیں وہ خوشی دے سکتے ہیں، جو ان کی معصوم عمر کا تقاضا ہے۔ ان کے چہروں پر بھی وہ مسرتیں بکھیر جائیں، جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات کبھی چوڑیاں بیچتے، کبھی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، کبھی بوٹ پالش کرتے ہوئے اور کبھی کھلونے، اسٹیکر و کتابیں بیچتے نظر آتے ہیں۔
ان کی تھوڑی سی امداد سے آپ کا پرس تو خالی نہ ہوگا، لیکن یہی تھوڑی سی امداد اور تھوڑا سا خیال ’ان کی بھی عید ہو جائے گی!‘ میں بدل جائے گا۔ یہ بھی ہمارے بچوں کی طرح بچے ہی ہیں اسی طرح معصوم ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ انھیں حوادث کی آندھی اور غربت نے سڑکوں پر دربدر کر کے ان کے بچپن کو رول دیا ہے۔ ان کی معصومیت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ روٹی کی تلاش اور پیٹ بھرنے نے ان معصوموں کو خوار کر کے رکھ دیا ہے۔
اگر چاروں جانب بکھرے ہوئے پھولوں میں سے چند ایک کو بھی سمیٹ کر ان کی جھولی میں کچھ ڈال دیں، ان کا دامن بھردیں، تو یقیناً انھیں معصومیت کی خوب صورت مسکان و خوش بو عطا کر سکتے ہیں، جو ان کا حق اور ہماری اخلاقی و دینی ذمہ داری ہے۔
کیوں کہ ان غربا مساکین مفلسوں کے سب ارمان، خواہش، تمنائیں، آرزوئیں اس تہوار سے منسوب و مشروط ہوتی ہیں۔ جہاں رمضان کی آمد غریب خاندانوں کو مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ وہیں عید ان کے لیے خوشی کے بہ جائے پریشانی کا سبب بن جاتی ہے، جب ان کے بچے دوسروں کی عید کی تیاریاں دیکھ کر ویسے ہی چیزیں لینے کے لیے ضد کرتے ہیں، تو ایسے میں ان معصوم بچوں کے دل توڑنے کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر۔۔۔ آج پھر گائوں میں آیا ہے غبارے والا!
اس لیے ان کے دکھ کو سمجھتے ہوئے ان پھیلے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکیے مت، یاد رکھیے ’’صدقہ خیرات کرنے سے رزق کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے، حدیث نبویؐ ہے ’’صدقہ خیرات کرو، ورنہ رزق رک جائے گا۔‘‘ ان معصوم بچوں کی چیزوں کو کوڑا کرکٹ سمجھ کر توڑئیے اور پھینکئے مت، اس طرح آپ نہ جانے کتنے گھروں کی روزی پر لات مار رہے ہیں۔ کتنوں کو فاقہ کشی پر مجبور کر رہے ہیں اور کتنوں ہی کے گھروں کے وہ چولھے بجھا رہے ہیں، جو دن بھر کی محنت سے کمائے ہوئے پیسوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ کر گھر بھر کا خرچہ چلاتے اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔
یہ بھی ہماری ہی طرح گوشت پوست کے انسان ہیں۔ سینے میں دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں۔ خواہشوں کے انبار رکھتے ہیں ان کے دل میں بھی اچھے کپڑوں اور اچھے کھانوں کی خواہش زندگی کرتی ہے۔ وہ جو اپنی غربت کی باعث پوری نہیں کر سکتے۔ سوائے ان للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کو جو وہ لوگوں کو گاڑیوں اور ہوٹلوں میں کھاتا ہوا دیکھ کر پوری کرتے ہیں۔
اگر ان کی آنکھوں میں چھپے ہوئے غم ، ان کے کپڑوں سے ان کی غربت اور ان کے ننگے پائوں دیکھ کر اگر آپ کے دل میں تھوڑا سا بھی ہمدردی کا جذبہ جاگ اٹھے کہ انہیں بھی اچھے کپڑوں اور جوتوں کی ضرورت ہے۔ انھیں بھی کھلونے بیچنے نہیں، کھلونوں سے کھیلنے کی ضرورت ہے۔
کتابیں بیچنے نہیں بلکہ ان کی یہ عمر کتابیں پڑھنے کی ہے تو یقین مانیں وہ دکھ درد سب دھل جائے گا جو انہیں یوں سڑکوں پر خوارکرتا ہے۔ اگر آپ ایک بچے کو بھی تھوڑی سی خوشی دے سکتے ہیں تو ضرور دیجیے کیونکہ خوشیوں پر صرف آپ ہی کا نہیں ان کا بھی حق ہے۔
عید صرف آپ ہی کے لیے نہیں ان کے لیے بھی ہے اور آپ کی عید اسی صورت میں مکمل ہو سکتی ہے ۔ ان خوشیوں کے مکمل حق دار آپ تبھی ہو سکتے ہیں، جب آپ ان کی مدد کر کے انھیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کریں۔ ان کی امید کے بُجھتے ہوئے چراغ کو ’کاش ہم بھی عید پر نئے کپڑے پہنیں‘ آپ ہی روشن کر سکتے ہیں جیسے دیے سے دیا جلتا ہے، اسی طرح آپ کا ان کی طرف بڑھایا ہوا امداد بھرا ہاتھ ، چاروں طرف وہ روشنی پھیلا سکتا ہے، جس میں ’مخلوق خدا سے محبت ہی اصل میں خدا سے محبت کرنا ہے‘ نظر آسکتا ہے۔
اس لیے عیدالفطر، جو اجتماعی خوشی، مل بیٹھنے اور خوشیاں بانٹنے کا نام ہے۔ اس میں ان بچوں کو اپنا سمجھ کر، ان کی خوشیوں کا بھی سامان کریں۔ ان کے مسکراتے، کھلکھلاتے چہرے کو بظاہر آپ کو دعا نہیں دیتے، لیکن اس کے بدل میں نہ جانے کتنی خوشیاں آپ کی جھولی میں غیب سے آگرتی ہیں، کیوں کہ جب آپ کسی غریب کی مدد کرتے ہیں، تو آپ اس کی مدد نہیں کرتے، بلکہ وہ غریب اپنی دعائوں سے آپ کی جھولی یوں بھرتا ہے، جو آپ کی خیرات سنوارنے میں مدد دیتا ہے اورآپ کے لیے توشۂ آخرت کا سامان کرتا ہے۔
یوں عید کی خوشی مناتے ہوئے آپ ان کی دعائوں میں شامل کہ آپ کی ذرا سی امداد و خیال سے ان کی بھی عید ہوگئی اور ان کا خیال رکھنے سے آپ کی عید بھی مکمل ہوگئی۔ پروردگار، ہم سب کو اس عیدالفطر پر خوشیاں بانٹنے کی اور مخلوق خدا کو ان خوشیوں میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
[ad_2]
Source link