[ad_1]
رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں اور نیکیوں کا موسم بہار رخصت ہو چکا ہے۔ ہر مسلمان نے اپنی محنت و کوشش کی بہ قدر اس بہار کے پھلوں اور پھولوں کی خوشہ چینی کی ہے۔
سرکش شیاطین کی قید، امت محمدی ﷺ کے لیے جہنم کے دروازوں کی بندش اور ابوابِ جنت کے کھلنے سے عبادت کی طرف میلان اور رغبت بڑھ گئی تھی۔ پانچ وقت کی فرض نمازوں کے علاوہ تراویح اور تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کے نوافل میں رب کے حضور سجدہ ریزی، اعتکاف میں محبوب کے در پہ حاضری اور اس کی چوکھٹ پر قیام کرکے رحمتوں و برکتوں کا انبار سمیٹنے کے بعد بندے عید کا انعام پانے چلے ہیں۔
روزے جیسے ایک مقدس فریضے سے سبک دوشی، زکوۃ جیسے ایک اہم دینی رکن کی ادائی اور اپنے مالک کے حکم کی بجاآوری سے دلوں میں خوشی کے جذبات موج زن ہیں۔ ساتھ ہی اس بہار کو خزاں میں تبدیل ہوتے دیکھ کر دل اس مہمان کی جدائی کے غم سے افسردہ بھی ہیں۔ روزانہ افطار کے وقت ستر ہزار بندوں کی بخشش اور پھر آخری دن پورے مہینے میں بخشے گئے افراد کی تعداد کی بہ قدر لوگوں کی مغفرت کا وعدہ پورا ہوگیا ہے۔
حق تعالیٰ کی وسیع رحمت اور فضل کامل سے امید رکھنی چاہیے کہ ہم بھی انھی افراد کی صف میں شامل ہوں گے۔ اب یہ بندے تمام گناہوں کی بخشش کا پروانہ لے کر گناہوں سے پاک عیدگاہ سے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔
اب یہ عید ہمیں ایک پیغام دے رہی ہے کہ رب کی رضا کے لیے اپنی جان کو مشقت میں ڈال کر جو عبادت و ریاضت آپ نے کی ہے وہ آپ کے گناہوں کی معافی اور عملی اصلاح و تربیت کا ذریعہ تھی۔ پچھلی زندگی میں جتنے گناہ ہوئے، نافرمانیاں اور من مانیاں کیں، کوتاہیاں اور غفلتیں سرزد ہوئیں، وہ سب نامۂ اعمال سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئیں۔
نیکیوں کا ایک انبار ہے جو آپ نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے، اس پر آپ کو عید کی خوشیاں انعام کے طور پر عطا کی گئی ہیں۔ اب گویا ایک نئی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔ اب رمضان کے علاوہ بھی پورا سال عبادت کے اس سلسلے کو برقرار رکھنا ہے۔ اپنے مالک کو راضی رکھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دینا ہے۔
اس مقدس مہینے میں ہر قدم پر اور ہر لمحے آپ کی تربیت و اصلاح کے مواقع پیش آتے رہے، مگر ان میں دو چیزیں نہایت اہم ہیں جن کی لاج رکھنے سے زندگی میں آسانی سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ پہلی چیز روزہ ہے جو اس ماہ کی اہم ترین عبادت ہے۔ یہ انسان کو بندگی، اخلاص اور تقویٰ سکھاتا ہے۔
آپ تصور کریں کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بندہ کھانے پینے سے رکا رہتا ہے، حالاں کہ اس کو کھانے اور پینے کی سخت حاجت ہے اور ہر چیز اس کو میسر بھی ہے۔ پھر بسا اوقات آدمی اکیلا ہوتا ہے، کوئی بشر دیکھنے والا موجود نہیں ہوتا مگر پھر بھی وہ کسی چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ یہ محض تقویٰ یعنی دل میں خوفِ خدا کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ پھر اس عبادت میں حکم الٰہی کا امتثال ہے۔
یہ ایسی عبادت ہے کہ عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن یہاں عقلیت کا تو سوال ہی نہیں۔ یہاں تو عبودیت، محبوبیت اور محویت کا عالم ہے کہ بندگی اور محبت میں حکم کی علت و حکمت نہیں پوچھی جاتی، بس حکم ملنے کی دیر ہوتی ہے فوراً بجاآوری ظہور میں آتی ہے۔ بندگی یہی ہے کہ اپنی عقل مانے یا نہ مانے بس اس کے حکم پر بلا چوں و چرا عمل پیرا ہونا ہے۔ اسی طرح روزے میں ریا اور دکھلاوے کی بھی آمیزش نہیں ہوتی، بل کہ یہ خالص اﷲ کی رضا کے لیے ہی رکھا جاتا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ روزہ بندگی، تقویٰ اور اخلاص کی ایسی عملی تربیت ہے کہ کوئی دوسری عبادت اس کی مثال نہیں۔ دوسری اہم چیز تراویح میں قرآن کریم کا سننا سنانا ہے۔
اپنے رب کے حضور قیام کی حالت میں اول تا آخر مکمل قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے سماعت سے کلام اﷲ کے ساتھ جو تعلق قائم ہوتا ہے وہ رمضان کی ہی خاصیت ہے۔ گیارہ مہینے جس کو تلاوت کا اتفاق نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے وہ بھی اس مہینے میں قرآن کی برکات سے مالامال ہوتا ہے۔
اب ان برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور عملی طور پر ان کا حصہ بننے کے بعد انہیں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں۔ پورا سال اخلاص اور تقویٰ جیسی عظیم صفات سے آراستہ رہ کر اپنے مالک کی بندگی و اطاعت میں اپنے آپ کو فنا و محو کر دیں۔ اپنے خالق کی عظمت و کبریائی کے سامنے جھک کر اپنی بندگی و محتاجی کا اقرار کریں۔ اس کے اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دیں۔ اس کے احکام کو وجہ، علت یا حکمت کا سوال کیے بغیر بلا چوں و چرا تسلیم کرکے ان پر عمل پیرا ہوتے جائیں۔
اخلاص اور تقویٰ کے ذریعے اپنے محبوب کے ساتھ حقیقی اور اصل عشق و محبت کی مثال قائم کر دیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنائیں اور اس کی تعلیمات کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونے کا عزم کریں۔ اب جب کہ ایمان کی ایک شمع دلوں میں روشن ہوچکی ہے اور نفس کی اپنے رب کے ساتھ لو لگ گئی ہے۔
اس شمع کو جلائے رکھیں، فتنوں کی آندھی اور گم راہیوں کے طوفان سے یہ بجھنے نہ پائے۔ یہ بے شمار رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے والا دامن نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے داغ دار نہ ہونے پائے۔ اس عظیم اور مقدس مہمان کی لاج رکھتے ہوئے زندگی میں تبدیلی لاکر اس کو ایسا رخ دیں کہ اس کی برکات ہمیشہ ہر موقع پر اپنا اثر دکھاتی رہیں۔ یہی عیدالفطر کا پیغام اور انعام ہے۔
[ad_2]
Source link