[ad_1]
مزید ایک کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔آٹھ کروڑ کے لگ بھگ افراد پہلے سے غربت کا شکار ہیں۔ مزدور کی دیہاڑی میں 5 فیصد جبکہ مہنگائی میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
عالمی بینک کی پاکستان کی معیشت کے بارے میں جائزے کے بعد جاری کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسراقتدار حکومت کے معیشت کے بحران کے حل کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔
عالمی بینک نے اپنی دو سالہ پاکستان ڈیولپمنٹ آؤٹ لک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اپنے میکرو اکنامک اہداف میں سے ایک کے علاوہ کوئی ہدف بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ عالمی بینک کے ماہرین اپنے تجزیے کی بنیاد پر اس رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ اگلے برسوں میں پاکستان میں شرح غربت 40 فیصد سے بڑھنے کا امکان ہے۔
ان ماہرین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ زرعی پیداواری اضافہ کا غریب طبقہ کو فائدہ پہنچنا چاہیے تھا مگر مہنگائی اور مختلف شعبوں میں محدود تنخواہوں کے باعث یہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ اس عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ روزمرہ کے بڑھتے اخراجات، اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ اور علاج معالجہ تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔ عالمی بینک نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں فوڈ سیکیورٹی کی صورتحال تشویش ناک حد تک خراب ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے مثلاً آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ امداد دینے کے علاوہ ممالک کی معیشت اور سیاسی صورتحال پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور اپنے اراکین کو ان ممالک کی امداد کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے اس ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال کا بغور مطالعہ کرنے کا کہتے ہیں اور پھر حقائق کے مطابق رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ کے مطالعے سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ معیشت کی بہتری کا امکان نہیں ہے۔ معیشت کا یہ بحران پاناما لیکس کے مقدمے اور سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد سے شروع ہوا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلے روپے کی قیمت میں کمی کی پھر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور بجلی، گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
عمران خان عوام کو ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا سبق دیتے ہوئے اقتدار سے رخصت ہوئے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات دوبارہ شروع کرلیے اور گیس، بجلی اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی سبسڈی ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی پالیساں میاں شہباز شریف کو پسند نہ آئیں۔
انہوں نے اپنے قریبی عزیز اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ کا قلم دان سونپ دیا مگر اسحاق ڈار نے معیشت کی بحالی کے لیے حقیقی اقدامات پر توجہ دینے کے بجائے آئی ایم ایف سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا، یوں رانا ثناء اﷲ کے مطابق ’’آئی ایم ایف نے لوہے کے چنے چبوا دیئے۔‘‘ اس دوران ڈالر کی قدر بڑھتی گئی، گیس، بجلی اور پٹرول کی مصنوعات میں کئی سو گنا اضافہ ہوا، یوں مہنگائی کی گاڑی کو ہارس پاور انجن لگ گئے۔ میاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے درآمدات کی فہرست کو کم کیا مگر پیپلز پارٹی کے وزیر آڑے آگئے۔
بارشوں، سیلاب اور گلوبل وارمنگ نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف نے عالمی رہنماؤں کی کانفرنس میں اربوں ڈالر کی مدد مانگی مگر صرف کروڑ ڈالر مل پائے۔ فروری کے انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت قائم ہوئی۔ نئے وزیر خزانہ اورنگزیب نے آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کیے اور ماضی کی طرح بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھنے لگے۔ نئے وزیر خزانہ نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کا منصوبہ پیش کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عدالتوں نے آئی ایم ایف کے خلاف 800 بلین روپے کے مقدمات میں اسٹے آرڈر دیے ہیں مگر پاکستان کے سیاسی ڈھانچہ کا مطالعہ کرنے والے صحافی کہتے ہیں کہ یہ رقم تجارت و صنعت کی بڑی بڑی مافیاز کوادا کرنی ہیںجن کی پشت پناہی سیاست دان اور منتخب اراکین کرتے ہیں۔ ایک صحافی نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آر کے نادہندگان کی فہرست میں کئی ایسے بااثر خاندان شامل ہیں جن کے قریبی عزیز پارلیمنٹ کے اراکین ہیں اور برسر اقتدار اتحاد میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔
بہرحال کراچی میں طبی تعلیم کے ترقی پسند پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کی قیادت میں باشعور شہریوں نے Cornered Citizen Alliance – A civil society movement قائم کی ہے۔ بائیں بازو کے رہنما اطہر جمیل اور پی ایم اے کراچی کے سابق صدر ڈاکٹر مرزا علی اطہر اور دیگر ماہرین نے ملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے ٹیکس اصلاحات پر ایک جامع رپورٹ تیار کی جس کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:
1)اس وقت انتہائی ضرورت ہے کہ امراء اور مراعات یافتہ طبقات سے ٹیکس وصول کیا جائے اور غریبوں اور ان لوگوں یا طبقات کی مدد کی جائے جنہیں نظرانداز کیا گیا ہے۔ بصورت دیگر نا صرف جمہوری نظام بلکہ ملک کی سالمیت اور استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
2)ہر طرح کی آمدنی بشمول زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے۔
3)ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان بنایا جائے اور FBR کی ویب سائٹ پر ایک صفحے پر مشتمل ڈیجیٹل فارم فراہم کیا جائے (جسے ہر پڑھا لکھا شخص باآسانی سمجھ کر پر کرسکے)
4)نان فائلر کے زمرے کو ختم کیا جائے۔
5)وہ شعبے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے یا کم کرتے ہیں انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
6)خوشحال طبقہ کو دی گئی تخمینہ 18ارب ڈالر کی مراعات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
7)وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں بشمول سول انتظامیہ، پارلیمان، عدلیہ اور دیگر اداروں کے اخراجات کو 25 فیصد کم کیا جائے۔ یہ قطعی طور پر ممکن ہے کہ اگر ان سب کو پٹرول، سفر، رہائش، بجلی، گیس اور پانی کی مفت سہولیات کی فراہمی بند کردی جائے جو ان کو پرتعش زندگی فراہم کرتی ہیں تو ملکی خزانہ پر بوجھ بہت کم ہوجائے گا۔
8)جائیداد کی حقیقی قیمت کا اندازہ لگانے کا کام شروع کیا جائے اور اسے ڈیجیٹل طریقے سے فراہم کیا جائے تاکہ کالے دھن اور منی لانڈرنگ کی حوصلہ شکنی ہو اور ٹیکس وصولی میں اضافہ ممکن ہو۔
9)پنشن کی کم از کم شرح پر معمول کی آمدنی کے مطابق ٹیکس عائد کیا جائے۔ پنشن کو بیواؤں اور معذور اولاد تک محدود کیا جائے۔ مزید یہ کہ پنشن صرف پاکستانی روپیہ میں ادا کی جائے نا کہ غیر ملکی زرمبادلہ میں۔
10)بلاواسطہ ایسے ٹیکس جن سے عام آدمی اور تنخواہ دار طبقہ پر بوجھ ڈالا گیا ہو ان کو معقول حد تک کم کیا جائے۔ ہر درجے کے لیے سیلز ٹیکس 10 فیصد سے کم کیا رکھا جائے مثلاً 6 فیصد تاکہ جعلی رسیدوں کا قصہ ختم ہو۔
11)ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ڈیجیٹل کیا جائے اور تمام اعداد و شمار کو یکجا کر کے نادرا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت خانہ، شماریات اور دیگر سرکاری اداروں کو مہیا کیا جائے تاکہ ٹیکس نہ دینے والے یا کم دینے والے طبقات یا شعبوں یا افرا دکی نشاندہی ہو سکے اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جس کے ذریعے 2 سال کی مدت میں ٹیکس آمدنی میں 50فیصد اور چار سال میں 100 فیصد اضافہ ممکن ہے۔
12)بیماریوں کا سبب بننے والے مشروبات اور سگریٹ بنانے والی صنعت اور آلودگی کا سبب بننے والی صنعتوں پر بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں تاکہ اس رجحان کا تدارک کیا جاسکے۔
13)سامان تعیش کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے یا ان پر بھاری کسٹم ڈیوٹی لگائی جائے جس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے۔
پارلیمنٹ کے اراکین کو چاہیے کہ ان تجاویز پر غور کریں اور جو قابل عمل تجاویز ہیں وہ آئندہ بجٹ میں شامل کی جائیں۔
[ad_2]
Source link