[ad_1]
ہر نئی حکومت کے آنے پر جو چند بیانات بغیر کانٹ چھانٹ کے حسب حال رہتے ہیں ان میں یہ بیان ضرور شامل ہوتا ہے: ملک انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے۔ اصلاحات کے بغیر چارہ نہیں۔ اپنے اخراجات کنٹرول کرنے اور وسائل بڑھانے کی ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔
وزیراعظم شہباز شریف جو نگران حکومت کے درمیانی وقفے سے پہلے بھی وزیراعظم تھے اور اب نئی حکومت میں بھی وزیراعظم ہیں ، انہوں نے بغیر لگی لپٹی پہلے روز ہی بتا دیا تھا۔ پاکستان کی مجبوری ہے آئی ایم ایف بہت ضروری ہے۔ مجبوری اور ضروری اس قدر کہ اب کی بار ایک طویل اور بھاری بھر کم قرض پروگرام کے بغیر گزارا نہیں۔ ان کی جانب سے بغیر لگی لپٹی رکھے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام تیار رہیں، ان کی ماضی کی سی چھوٹی موٹی قربانیوں سے کام نہیں چلے گا، اب بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔
ہمیں ان کے اس سچ پر پہلے بھی اعتبار تھا لیکن جب انہوں نے واشگاف انداز میں اسے بار بار دوہرایا تو یقین کامل ہو گیا۔ وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق پاکستان کے پاس ان حالات میں ہفتے اور دن ضائع کرنے کی عیاشی نہیں تھی، اسی لیے پاکستانی وفد عید مناتے ہی اگلے ہفتے واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے روانہ ہو جائے گا۔
قربانی کی ابتداء گھر سے کرنے کی روایت قائم کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے وزیراعظم ہاؤس کے سینیئر آفیسرز کو چار اضافی تنخواہوں کے بونس سے نوازا۔ کچھ بد خواہوں نے ادھر ادھر کی ہانکی کہ یہ کیا! ایک طرف وزیراعظم عوام سے آئی ایم ایف کے نئے طویل مدت قرض پروگرام کے دورانیے کے برابر عوام سے قربانیوں پر مصر ہیں، لیکن دوسری طرف شاہ خرچی کا یہ عالم کہ وزیراعظم ہاؤس میں دوسری بار براجمان ہوئے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے ہیں۔مگر خسارے اور خالی خزانے کے باوجود عوامی وسائل کو اپنے ہی افسران پر دل کھول کر صدقے واری کرتے ہوئے ذرا بھی تامل نہ کیا۔
اکنامک گورننس ایک سائنس ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران درجنوں ممالک نے اپنی معاشی بداعمالیوں کی بیڑیوں کو پرے پھینکنے کے لیے اپنے ہاں اکنامک گورننس کے مسلمہ عالمی اصولوں اور پروگرامز پر عمل کیا۔چین ،ویتنام ،ملا ئیشیا ،انڈونیشیا، بھارت، ترکی اور کئی مزید ممالک نے طویل تپسیا کے بعد جا کر معاشی استحکام کا منہ دیکھا۔ اکنامک گورننس ایک سنجیدہ، پیچیدہ اور دور رس عمل ہے، اکنامکس 101 معیشت کا ایک بنیادی مضمون ہے جو یونیورسٹی میں اکنامکس کے کسی بھی طالب علم کے لیے پہلا ضروری سبق ہے۔
اس مضمون میں جو چند اصول پڑھائے جاتے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وسائل کمیاب ہیں، اس لیے ان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت میں طلب اور رسد کے درمیان میں توازن ہی مستحکم معیشت کی بنیاد ہے۔
عوام کو قربانیاں دینے پر آمادہ کرنے والے وزیراعظم آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل بڑے دھڑلے سے وزیراعظم ہاؤس کے بیوروکریٹس کے لیے اضافی تنخواہوں کی منظوری دیتے ہیں، وہ بھی ایسے عالم میں کہ حکومت کا ہر اضافی خرچ قرضوں سے پورا ہو رہا ہے۔ قول اور فعل کا یہ تضاد ہی ملکی معیشت کو یہاں تک لایا ہے۔ اگر ملکی معیشت اور گورننس کو اسی انداز میں جاری رکھنا ہے تو خاکم بہ دہن معاشی استحکام اور گورننس میں بہتری کا خواب شاذ ہی شرمندہ تعبیر ہو۔
ورلڈ بنک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ تبصرہ کیا کہ پاکستان کو اپنے اخراجات پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ آمدن اور اخراجات کے درمیان خوفناک فرق نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
نئی حکومت نے بھی پالیسی اصلاحات میں سر کھپانے کی بجائے دکھاوے کے پراجیکٹس کو ہی قابل ترجیح سمجھا۔ وزیراعظم نے طلبہ کے لیے بیرونی ممالک میں وظائف اور پنجاب حکومت نے طلبا و طالبات کے لئے اربوں روپے کے موٹر سائیکل قرض کا اہتمام کیا ہے۔ انرجی سیکٹر میں اصلاحات اور ٹیرف کو کنٹرول میں لانے کی بجائے پنجاب حکومت نے اپنے سیاسی وعدے کی تکمیل کے لیے اربوں روپے کے سولر یونٹس عوام کو فراہم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔
ابھی تک مقامی کاروبار اور انڈسٹری کی بحالی اور فروغ کے لیے دور رس پالیسیوں کا انتظار ہے۔ شرح مارک اپ بدستور 22 فی صد ہے ،بجلی اور گیس کے نرخ خطے میں بلند ترین اور تباہ کن سطح پر ہیں۔
رہے عوام تو ان کے لیے عید کے دنوں میں ٹی وی اسکرینوں پر وزیراعظم اور ان کے وفد کا سعودی عرب کا دورہ، حرمین شریفین میں عبادات اور شاہی خاندان کے ساتھ خوشگوار ملاقاتوں کی نوید ہی کافی رہی۔ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ سعودی عرب سے شرح مبادلہ کی سپورٹ کے لیے ماضی میں لئے گئے ادھار ایک ارب ڈالر ڈیپازٹ کو بڑھا کر اب پانچ ارب ڈالر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کے پہلے سے طے شدہ منصوبوں پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تھی۔
تاہم سرمایہ کاری کے ان پرانے وعدوں کو جھاڑ پھٹک کر اور مزید بڑھا کر یہ نوید دی گئی کہ سعودی عرب 21 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ عید پر اس خوشخبری سے مہنگائی میں کمی آئے یا نہ، بے روزگاری میں کمی آئے یا نہ لیکن حکومت کے اپنے مورال اور پبلک ریلشننگ کا چھکا ضرور لگ گیا۔ اور اس سے یہ گمان مزید پختہ ہو گیا کہ شاید یہ طے ہے کہ یہ سب ایسے ہی چلے گا!
[ad_2]
Source link