8

تین المیے اور سیاسی مداری

[ad_1]

ہمیں ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ کسی بھی انسانی المیے، وقتی خوشی، حادثے یا سانحے پر ہمارے پاس غم و خوشی بانٹنے کے الفاظ تھک ہار کر اپنی تاثیر کھوتے جارہے ہیں یا سماج مجموعی طور سے مختلف بخار کی بیماریوں تلے ایک ایسے بے حس و ساکت سماج کی تصویر کشی کر رہا ہے،جس کے درست ہونے کے عمل کی بظاہر کوئی سبیل نکلتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

مگر اس کے باوجود سماج کے روشن خیال ذہن اور ترقی پسند سوچ کے اہل دانش و فکر کو قوی امید ہے کہ سماجی سدھارک میں دہائیوں اور صدیوں کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ہر بھٹکا ہوا سماج اپنے تجربے اور وقت کے تھپیڑے کھا کر ہی درست سمت کا تعین کرتا ہے،پر امید سماج اور مثبت رویوں کی نوید ہی سماج میں پھلنے پھولنے والی بیماریوں کا علاج ہوا کرتی ہیں،جس میں’’وقت اور انتظار‘‘ کرنے والی قوتیں ہی آخر کار فتح مند ہوتی ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب سماج کے عام فرد کے ساتھ غیر انسانی،غیر اخلاقی اور غیر قانونی سلوک روا رکھنے والے طاقتوروں کے بے رحم ہاتھوںکوروکاجائے گا۔یہ ایک ایسافکرانگیز اوردردمندانہ سماجی رویہ ہے جس کا شکار مسلسل پاکستان کا عام فرد ہورہاہے۔ کسی بھی حادثے یا انسانی المیے پر پہلے سے ٹائپ شدہ تعزیت یا افسوس کے علاوہ کسی بھی عملی کام کو کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں،آخر کار عوام کے حقوق کا سیاسی،جمہوری،معاشی استحصال کب تک ہوتا رہے گا؟

آج کا سب سے دکھ بھرا سوال ہی یہ ہے،اس سارے معاملے کے اسباب و علل کا مختصر خاکہ عید کے تہوار کی تین یوم کی تین خبروں اور اس پرحکومتی ذمہ داران اور سیا ستدانوں کی بے حسی اور مفاد پرستانہ رد عمل بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہماری ریاست کے سیاستدان اور سماج کے افراد کسی قدر قومی المیوں پر سنجیدہ ہیں۔

(1) 10 اپریل 2024 عید کے روز جہاں بچے والد سے عیدی لیتے ہوئے خوشیاں بانٹ رہے تھے وہیں کوئٹہ میں گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ تپتی دوپہر میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج بنی ایک 9 سالہ بچی معصومہ بھی شامل تھی۔معصومہ کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ کی تھیں جب ان کے والد جہانزیب بلوچ کو 2016 میں کلی قمبرانی سے مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اب میری عمر 9 سال ہے، میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔میری دادی والد کے لیے ہر عید پر نئے کپڑے سلوانے کے علاوہ نئے چپل اس امید کے ساتھ خریدتی ہیں کہ کہیں میرے والد عید کی شب بازیاب ہو کر آ جائیں تو ان کی عید نئے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر نہ ہو۔‘

وائس فار بلوچ مسنگ کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کوئٹہ میں احتجاجی ریلی میں بتایا کہ آج کوئٹہ سمیت بلوچستان کے 25 شہروں میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں،ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے کرب اور اذیت کی شدت صرف وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کا کوئی پیارا لاپتہ ہو۔

جبکہ گمشدہ افراد کے بارے میں سرکاری حکام کا موقف دہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور عناصر لاپتہ افراد کے حوالے سے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے اُن کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن افراد کے بارے میں لاپتہ ہونے کا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ان میں سے کچھ افراد کے دہشت گردوں اور ریاست مخالف گروہوں کے ٹھکانوں پر موجودگی کے ثبوت ملے ہیں،یہ افراد لاپتہ نہیں بلکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خفیہ ٹھکانوں میں موجود ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

(2) 11 اپریل 2024 عید کے دوسرے دن بدھ کی درمیانی شب حب کے قریب درگاہ شاہ نورانی جانے والے زائرین ٹرک حادثے کے نتیجے میں جاں بحق اور زخمی ہوئے’اطلاعات کے مطابق 17 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ حادثے کے متاثرین کی عمریں 15 سے 55 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں،حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ویرآب کے علاقے میں موڑ کاٹتے ہوئے زائرین کی گاڑی ایک گہری کھائی میں جاکر گری،واضح رہے کہ شاہ نورانی کا مزار حب سے متصل بلوچستان کے دوسرے ضلع خضدار کے ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔

مقامی صحافی کے مطابق شاہ نورانی کراس سے لیکر شاہ نورانی تک کا علاقہ ایک دشوار گزار علاقہ ہے جہاں باہر سے آنے والے ڈرائیوروں کو راستے کے بارے میں معلومات زیادہ نہ ہونے اور سڑک کے ٹوٹنے کے باعث حادثات پیش آتے رہتے ہیں جبکہ علاقے میں کمیونی کیشن کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔انھوں نے بتایا کہ دشوار گزار علاقے میں حادثے کی صورت میں رابطے وغیرہ کے مسائل کے ریسکیو میں بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے جس کے باعث انسانی جانوں کا ضیاع زیادہ ہوتا ہے۔

(3) غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بہاولنگر کے مقامی نمائندے کے ذرائع سے عید کے دوسرے روز 11 اپریل کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جھگڑے کا آغاز تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او کی جانب سے ایک حساس ادارے کے اہلکار کے گھر پر چھاپے سے ہوا، جبکہ دونوں اداروں کے مقامی افسران نے صلح صفائی سے معاملہ سلجھا دیا۔ صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں مبینہ لڑائی کا معاملہ مذکورہ زیادہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے، جس میں سب سے زیادہ زور شور سے تحریک انصاف کے کارکن وی لاگر اور یو ٹیوبر حصہ لے کر پروپیگنڈہ کرکے ملک کے دو اداروں کو دست و گریباں کرنے یا دیکھنے پر مصر ہیں جبکہ دوسری جانب ان انتشار پسند تحریک انصافیوں کو نہ حادثے کا شکار ہونے والے 17 افراد کے جاں بحق ہونے کا دکھ ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے وی لاگر گمشدہ افراد اور جاں بحق ہونے والے افراد پر متحرک دکھائی دیتے ہیں،اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں کہ دو روز کے تین المیوں میں سے صرف ایک واقعہ کو سب سے زیادہ اچھالا جارہا ہے۔

اس ساری مہم سے تحریک انصاف کیا حاصل کرنا چاہتی ہے،یہ اہم گتھی سلجھنا بہت ضروری ہے تاکہ انتشار پسند قوتوں کے نادیدہ عزائم سے عام فرد آگاہ ہوسکے۔

سوال یہ ہے کہ اس سارے واقعے کی ویڈیو بنانے اور اسے محض پروپیگنڈہ یا انتشار پھیلانے میں وہ کونسی قوتیں ملوث ہو سکتی ہیں جو ملک کو مسلسل سیاسی اور معاشی انتشار میں مبتلا کرکے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پر امن ماحول نہیں دینا چاہتی ہیں اور صرف اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لیے انتشار کی سیاست کے مداری پن کا کردار ادا کرکے عقیدت پسند یوتھیوں کو مسلسل سرگرم عمل رکھے ہوئے ہیں،ہونا تو یہ چاہیے کہ بہاولنگر واقعے کی مکمل تفتیش کرکے سوشل میڈیا پر ویڈیو بنانے والوں تک پہنچ کر ان کے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کو آئین کے مطابق سزا دی جائے جو کسی بھی واقعے کو گمراہ کن مقاصد کے لیے استعمال کرکے اور جھوٹ بول کر صادق اور امین بنے ہوئے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں