[ad_1]
علم و فن کے حوالے سے بیگم ثاقبہ رحیم الدین کا نام اور کام ادب کے افق پر جگمگاتا نظر آتا ہے ، ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے ، گویا علم وادب انہیں ورثے میں ملا ہے۔
وہ شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں ، ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں سے مالا مال ہیں ، حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے دوسروں کے دکھ درد انہیں اپنے معلوم ہوتے ہیں ، ان کے دوشعر ملاحظہ کیجیے۔
جی کی ویرانی کا عجب حال ہے کسی طور مٹتی نہیں
لاکھوں کام کرو ، ہزاروں جتن کرو سناٹا رہ جاتا ہے
زندگی زندہ ہے ، شدتیں اسے رنگ دیتی ہیں
جس نے سچا عشق کیا ، اس کی خاص کہانی ہے
ان کی شاعری عشق حقیقی اور عشق مجازی کے رنگ ونور سے آراستہ ہے ، یہ ہی خوبی ان کے افسانوں میں جابجا نظرا ٓتی ہے، مصنفہ کے فن پر ڈاکٹر فردوس انور قاضی نے ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے لکھا ہے’’وہ افسانہ نگاری میں کسی اچانک موڑ یا اچھنبے جیسی تیکنیکی کرشمہ سازی کی قائل نہیں ، انہوں نے زندگی کو کرداروں کے ذریعہ دیکھا اور من وعن پیش کردیا ہے ، زندگی کے عمومی رویے میں عورت کی نفسیات کو بطور خاص اپنے مطالعہ اور مشاہدے کا محور اور مرکزبنایا ہے ۔
ثاقبہ رحیم الدین کے فلاحی کام بھی قابل ذکر ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے اپنی ساری عمر مخلوق خدا کی خدمت کے لیے وقف کردی وہ ہر لمحہ ہر آفات میں گھرے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں ، ٹرکوں کے ذریعے ضروریات زندگی کی اہم چیزیں بجھواتی ہیں اور سچی خوشیاں حاصل کرتی ہیں ، حقیقی مسرتیں بھی قسمت والوں کے حصے میں آتی ہیں ، ورنہ تو وہ لوگ جو بظاہر ہشاش بشاش نظر آتے ہیں ، حقیقی زندگی میں تسکین دل کے لیے ترستے ہیں ۔
بیگم ثاقبہ کی خوش بختی کا سفر جاری وساری رہتا ہے اور وہ سفر کی اس منزل پر پہنچ جاتی ہیں جہاں کی زیارت کرنا ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے ، مقامات مقدسہ میں عبادت کے دوران ان کے دل میں خیال آتا ہے کہ پاکستان جاکر فلاں جگہ صدقہ کریں گے ، پھر اس خیال کے ساتھ ہی دوسرا خیال بھی ذہن کے نہاں خانے میں ابھرتا ہے کہ اگر ’’ہم یہاں صدقہ کرتے تو کتنا اچھا ہوتا ، کاش ہمارے پاس پیسے ہوتے تو ہم باہر بیٹھے ہوئے معذوروں کو خیرات دیتے ، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے ، وہ بڑا حیران کن ہے ، ایسی خاص مہربانیاں اور عنایتیں اللہ اپنے پیارے بندوں پر ہی نچھاور کرتا ہے۔
ہوا یوں کہ ان کے اس خیال کے غالب ہونے کے چند منٹ بعد ہی ایک مجذوب نما آدمی پیچھے کی طرف سے آیا اور ایک کپڑے کی بنی لمبی چھڑی نما سخت چیز ان کے گھٹنوں پر ڈال گیا اور پھر بڑے بڑے ڈگ بھرتا ’’یا حق یا حق‘‘ کی صدا لگاتا نظروں سے اوجھل ہوگیا ، بیگم ثاقبہ رحیم نے اس چھڑی کو واپس کرنے کے لیے اپنے اطراف میں نگاہیں دوڑائیں ، لیکن ناکام رہیں ، پھر گز بھر کی چھڑی کو ٹٹول کر دیکھا اور ان کا اندازہ اس وقت درست ثابت ہوا کہ واقعی اس میں تو اشرفیاں تھیں وہ اس ادھیڑ بن میں تھیں کہ انہیں واپس کس طرح سے کریں؟
ان کی اس پریشانی کا حل ان کی ہم وطن خواتین نے یہ بتایا کہ یہ سب رکھ لو ، یہ تمہارا تحفہ ہے ، مبارک و متبرک مقام ، نور کا سماں، تقدس سے لبریز ماحول ، دل میں ایمان کی روشنی اور یہ واقعہ سبحان اللہ ، بیگم ثاقبہ کا اللہ کی کرم نوازی اور تاجدار مدینہ کی محبت وعقیدت نے آنسوؤں کی شکل اختیار کرلی اور وہ اللہ کے دربار میں سر بسجود ہوگئیں اور پھر ان کے دل کو کسی نے سمجھایا کہ تم خیرات کرنا چاہتی تھیں ، جا کر فقیروں اور محتاجوں میں بانٹ دو، یہ مدینے کے سرکار ﷺ کی چیز ہے ، انہیں ضرورت مندوں میں پہنچا دو ، وہ سجدے سے اٹھیں ، درود شریف پڑھا اور صحن میں جاکر مسکینوں اور حاجت مندوں میں اشرفیاں بانٹ دیں ، یقیناً اللہ کے فقیروں کو دنیا کی حاجت نہیں ہوتی ، سو بیگم ثاقبہ نے اپنے عمل سے ثابت کردکھایا کہ وہ ایک پاکیزہ طبیعت ، نرم خو اور اوصاف حمیدہ سے آراستہ ہیں ، بے شک اللہ کی دین ہے ، جسے نواز دے ، وہ سخی داتا ہے اور مالک کل ہے ۔
بیگم ثاقبہ علمی وتخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں ، ان کو انہی فنی خوبیوں نے بچوں کے رسالے ’’روشنی کی مدیر‘‘ اور قلم قبیلہ (ادبی رسالہ ) کی سرپرستی سے روشناس کرایا ، ’’قلم قبیلہ ‘‘ ان کی ہی سرپرستی میں منظر عام پر آتا ہے ، ان کے ادبی کاموں کا اعتراف تعلیمی اداروں کے ماہرین نے بے حد خلوص کے ساتھ کیا ہے ، کراچی یونیورسٹی سے’’ بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی افسانہ نگاری‘‘ اور’’ بیگم ثاقبہ ہمہ جہت شخصیت ‘‘کے عنوانات مقالے لکھے گئے اور یہ کتابی صورت میں اہل علم کے ہاتھوں میں پہنچ گئے ہیں۔
بالترتیب عابدہ پروین نے نیشنل یونیورسٹی آف لینگویجز اسلام آباد اور شمائلہ اقبال نے کراچی یونیورسٹی سے اپنے مقالوں کو تکمیل کی صورت بخشی، ان مقالات کے علاوہ آمنہ مجید کا تحقیقی مقالہ ’’ ثاقبہ شخصیت اور فن ‘‘ مصباح شیریں کا مقالہ ’’بیگم ثاقبہ کی ادبی خدمات ، بھی ثاقبہ رحیم الدین کے ادبی امور پر روشنی ڈالتا ہے ، ان پر پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی کام کیا گیا ہے اور اس اہم کام کا سہرہ رقیہ بتول کے سرلگتا ہے او ر اس کا عنوان ہے ’’بیگم ثاقبہ ایک تحریک۔‘‘
بیگم ثاقبہ کی ادب سے بے پایاں محبت، لگن اور محنت نے انہیں ادبی سطح پر اعلیٰ مقام عطا کیا ، ان کی علمی اور ادبی بصیرت ، تخلیقی و تعمیری عمل نے اہم قلمکاروں کو متاثر کیا اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ، چنانچہ رشید امجد نے’’ تاروں بھرا آسمان‘‘، ڈاکٹر رشید نثار نے ’’دھنک‘‘ اور عابد رضوی نے ’’ممتا ہی ممتا‘‘ کے عنوانات سے کتابیں مرتب کیں ، بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے اپنی عمر کا تہائی حصہ ادب کو اوڑھنے ، بچھونے میں گزارا ، ان کی شادی اس وقت ہوئی جب وہ کم عمر تھیں اور انٹر کا امتحان پاس کیا تھا ، انہوں نے شادی کے بعد تعلیمی اور فلاحی کاموں کا سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرلی۔
انہوں نے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد سپاہیوں کی بہبود اور ان کی بہتر حالت بنانے میں اہم کردار اداکیا ، 28بر س کا عرصہ بے حد طویل ہوتا ہے، لیکن بیگم ثاقبہ نے ہمت نہ ہاری اور دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا فرض جانا ہے ،بے شک ان کے عملی کاموں میں جنرل رحیم الدین کا بھی تعاون شامل رہا ہوگا، انہوں نے کام کی ابتدا کی ، اللہ نے وسائل پیدا کردیے ، انسٹی ٹیوٹ فار اسپیشل چائلڈز جیسے اہم اور مثالی ادارے کی بیگم ثاقبہ تاحیات چیئر پرسن ہیں، اس کی ابتدا 1957ء میں ہوئی ، اس کی ترقی کے لیے جربی پٹیل نے بے حددریا دلی کے ساتھ بہت بڑی زمین عطیہ کی ، انہی حضرات اور صاحب حیثیت شخصیات کی ہی طرح ایک خاتون شیلا پٹیل نے کلی شابو کوئٹیہ میں انسٹی ٹیوٹ کے لیے 44ہزار مربع فٹ زمین عطیہ دیا۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی محترمہ کی انسانیت سے محبت کو دیکھتے ہوئے دس لاکھ کی رقم عطیہ کے طور پر دی اور اسی رقم سے عمارت کی تعمیر شروع ہوئی ۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی نے ٹھیک ہی کہا ہے ’’بیگم ثاقبہ رحیم الدین معاشرے میں تہذیبی اقدار کی سلامتی کی خواہاں ہیں، تاکہ دن بدن بڑھتی ہوئی خود غرضی کا حصا ر ٹوٹے ، آگہی کی روشنی پھیلے، ان کی ذات ایک روشنی کے مترادف ہے ۔‘‘
اس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ بیگم ثاقبہ نے اندھیروں میں چراغ جلائے ہیں اور ان مایوس و بے بس لوگوں کو راستہ دکھایا ہے جو بے شمار مسائل کے بوجھ تلے دب گئے تھے، کسی کا غم بانٹ لینا اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اچھی بات اور مثبت سوچ کو الفاظ کی شکل دینا عبادت ہے ، ان کی ادبی خدمات اور سماجی کاموں ، جذبہ صلہ رحمی کا ہر وہ شخص معترف ہے جو انسانی جذبوں اور دکھوں سے واقف ہے ، اور جو صاحب علم ہے ، وہ سالہا سال سے قلم کا حق ادا کر رہی ہیں قلم گویم کرمن شاہجانم اس حوالے سے وہ بادشاہیت کی کرسی پر براجمان ہیں اور لفظوں کے موتی رول رہی ہیں اور تقسیم کر رہی ہیں ۔
[ad_2]
Source link