[ad_1]
ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اور کروز میزائل فائرکرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے، جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔ پاکستان نے ایران اسرائیل کشیدگی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعات سنگین اثرات رکھتے ہیں، یہاں بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی قائم رکھنے میں ناکام ہوئی ہے۔
ایران، اسرائیل کشیدگی میں اضافے سے خطے میں جنگ کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگر خدانخواستہ اس صورتِ حال میں جنگ کی نوبت آتی ہے تو اس کرہ ارض کے ہر خطے میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کی بنیاد پر یہ انسانوں کے مابین آخری جنگ ہی ثابت ہوگی جس میں انسانی زندگی سمیت کچھ بھی نہیں بچے گا۔
آج اگر ایران نے حملہ کیا ہے توکل کو دوسرے مسلم ممالک بھی اسرائیلی جبر و تسلط کے بڑھتے ہاتھ روکنے کے لیے عملی اقدامات پر مجبور ہوں گے، عالمی قیادت کو اس کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ مغرب کے چار دہائیوں سے زیادہ کے معاشی بائیکاٹ نے ایران کوکمزورکرنے کے بجائے اسے ایک ایسی فوجی طاقت بنا دیا ہے کہ آج وہ امریکا اور اس کی حمایت یافتہ دہشت گرد ریاست کے سامنے مضبوطی سے کھڑا نظر آتا ہے۔
یعنی اہم بات کسی ملک کی صرف مالی امداد نہیں بلکہ اس کی اخلاقی حمایت اور اس کی عسکری مدد، تکنیکی مدد یا اس کی ترقیاتی سرگرمیوں کی حمایت ہے، تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر اپنے جائز حقوق کی حفاظت کر سکے۔ فلسطین کو مالی مدد دینے والی طاقتوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ یہ طاقتیں فلسطین کو اسرائیل کے مقابلے میں دفاعی اعتبار سے طاقتور ہوتے دیکھنا نہیں چاہتیں۔
عملاً ہزاروں فلسطینی اسرائیل کے شوقِ انتقام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوئے ہیں اور غزہ کا عملاً تورا بورا بنایا جا چکا ہے۔ کیا اس پر انسانیت کے ناتے کسی کا دل پسیجا ہے اور مسلم دنیا میں بھی سوائے رسمی مذمتی قراردادوں کے، کیا کسی آنکھ سے حقیقت میں آنسو بہے ہیں؟
اس وقت فلسطینیوں کا مقابلہ صرف صہیونیوں کی دولت و ثروت سے نہیں ہے بلکہ ان کی ایسی فوجی طاقت سے بھی ہے کہ جسے امریکا اور پوری مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے۔
اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کردیے گئے ان مظلوموں کو صرف پیٹ بھرنے کے لیے روٹی ہی نہیں چاہیے، فلسطینیوں کو ایسی مالی امداد دینے کا ڈرامہ تو مغربی ممالک بھی برسوں سے کر رہے ہیں کہ جو اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں، لیکن یہ ممالک اپنا اسلحہ اور ٹیکنالوجی اسرائیل کو دے رہے ہیں ۔
ظاہر ہے اس پالیسی کا مقصد روٹی کے چند ٹکڑے فلسطینیوں کو دے کر ان پر احسان جتانے کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ مالی امداد تو ’خون بہا‘ کی شکل میں ایک قاتل بھی مقتول کے اہل خانہ کی کر سکتا ہے لیکن مرنے والوں کے آنسو پونچھنا اور انھیں مضبوطی سے قاتلوں کے مقابل کھڑے رکھنا زیادہ بڑا کارنامہ ہے۔
یہ درست ہے کہ امن کی حمایت زیادہ اہم ہے لیکن یہ حمایت قاتل کے جرم کو نظر اندازکرکے نہیں کی جا سکتی، فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی عملی حمایت میں یہ ممالک کبھی آگے نہیں آئے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں مشرق وسطیٰ کی مسلم اکثریت کو اپنا غلام بنانے اور وہاں اپنے فوجی اڈے قائم رکھنے کا ان کا منصوبہ کمزور ہوتا ہے۔ مظلوم فلسطینی نصف صدی سے زیادہ سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں، ان کی عسکری مدد کو proxyکہنا دراصل مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی توہین ہے۔
اب تک اس چھوٹے سے لیکن بہت گنجان آباد علاقے کی مجموعی طور پر تیئس لاکھ کی آبادی کا بہت بڑا حصہ بے گھر ہوچکا ہے جب کہ عام شہریوں کو اشیائے خوراک، پینے کے صاف پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا بھی ہے۔ اس جنگ میں اب تک غزہ پٹی کے 1.7 ملین باشندے بے گھر ہوچکے ہیں، جو اس خطے کی مجموعی آبادی کے 75 فیصد سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی امداد کے ذمے دار اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کے مطابق تقریباً 17 لاکھ بے گھر فلسطینیوں میں بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اس جنگ کے دوران بے گھر ہونے کے بعد کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں اب تک نو ہزار سے زائد خواتین ماری جا چکی ہیں، جب کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ کی جنگ میں اب تک اس خطے کے کُل 36 اسپتالوں میں سے زیادہ تر اپنا کام بند کر چکے ہیں۔ اسرائیل کا پراپیگنڈہ ہے کہ حماس کے جنگجو ان اسپتالوں میں ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں اور وہ شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔اس وقت ہزاروں زخمی و مریض ایسے ہیں، جنھیں جنگ کے دوران آنے والے زخموں یا جنگی صورت حال کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کی اشد ضرورت کے پیش نظر غزہ سے باہر منتقل کرنا ضروری ہے۔
اب تک اسرائیل نے اگرچہ امدادی سامان کی کچھ ترسیل کی اجازت دی ہے، تاہم بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے مطابق یہ امداد کسی بھی طورکافی نہیں اور سخت سیکیورٹی انتظامات اور کڑی نگرانی کے عمل کی وجہ سے بھی غزہ کی شہری آبادی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل اور دیگر امدادی کاموں میں شدید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، اگر یہ جنگ طویل ہوتی ہے تو کسی حد تک روس اور چین، بڑی حد تک ایران اور شام اور دیگر عرب ممالک اس میں براہ راست یا بالواسطہ فلسطینیوں کی پشت پناہی کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک کے لیے بھی آزمائش پیدا ہوگئی ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام سے پہلے فلسطین تاریخی، سیاسی اور مذہبی طور پر ایک مسلم علاقہ تھا، حالانکہ عیسائیوں اور کچھ یہودیوں اور دروز جیسی دیگر مذہبی اقلیتیں بھی وہاں موجود تھیں۔ 1947 میں تاریخی فلسطین کی آبادی کا تخمینہ تقریبا 1.9 ملین لگایا گیا تھا۔ فلسطین سولہویں صدی کے اوائل سے پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ مقامی آبادی عثمانی حکومت کے تابع تھی۔
عرب کسان اور زمیندار زیادہ تر زمین کے مالک اور کھیتی باڑی کرتے تھے، اور یہ زمین اکثر اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی تھی۔ قلیل تعداد میں غریب یہودی بھی کاشت کاری کرتے تھے۔ فلسطین کی معیشت بنیادی طور پر زرعی تھی۔ گندم، جو، زیتون اور ترش پھلوں جیسی فصلوں کی کاشت سمیت زراعت نے مقامی معیشت میں اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر یروشلم اور دیگر شہری مراکز میں تجارت بھی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کی انتظامی مشینری مقامی حکام اور اہم سماجی شخصیات کی مدد سے نظم حکومت چلاتی تھی۔
اس وقت 57 مسلم ممالک ہیں جن کی آبادی تقریبا 1.8 ارب ہے، جن میں 22 عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ ان 22 ممالک میں لبنان، شام، اردن، مصر، عراق، سعودی عرب، یمن، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت، سوڈان، لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، ، جبوتی، فلسطین اور صومالیہ شامل ہیں۔ اسرائیل کے شمال میں لبنان ہے، جنوب میں مصر، مشرقی اردن اور شام اور مغربی بحیرہ روم ہیں۔ یہ سب ناتواں اور کٹھ پتلی ہیں حالانکہ ان کے پاس عالمی توانائی پرکنٹرول ہے۔
اس وقت جو عالمی طاقتیں یا قومیں فلسطین کے عوام کے موقف کی حمایت کرتی ہیں یا وہ چاہتی ہیں کہ فلسطینی عوام مزید اسرائیلی جارحیت کا شکار نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ وہ فوری جنگ بندی کے لیے کوششیں کریں کیونکہ نہ صرف فلسطینی عوام خصوصاً غزہ کی پٹی پر عوام بہت درد ناک صورت حال سے دوچار ہیں ۔ زیادہ تر عرب ممالک غیر جمہوری حکومتوں یا بادشاہت کے زیر اثر ہیں اور ان کا بہت عرصے سے امریکا پر انحصار ہے، وہ کھل کر فلسطینیوں کی جنگ میں نہیں کود سکتے، اگر شام جیسے ممالک اس جنگ میں کود بھی جائیں تو بھی نتائج امریکا اور عالمی سامراجی سرمایہ دار قوتوں کے حق میں ہوں گے۔
مظلوم فلسطینیوں کو مزید قہر اور عذاب سے بچانے کے لیے جنگ بندی پر زور دیا جائے۔ امریکا ڈالر اور تیل کی قیمتیں گرنے کا عمل روس یوکرین کی جنگ کے بعد اسرائیل فلسطین جنگ کے ذریعے روکنا چاہتا ہے۔
مسلم دنیا میں یہ احساس تو پیدا ہوگیا ہے کہ اسرائیل کی ریاست ایک حقیقت ہے لیکن اسرائیل اور اس کے حواری سامراجی ممالک میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ فلسطینی ریاست بھی ایک حقیقت ہے اور فلسطینیوں کو صہیونی سوچ کے قہر سے آزاد اور پر امن طور پر رہنے کا حق ہے۔ یہ احساس پیدا کرنے کے لیے اس خطے کے ممالک کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ جیسے ایران سعودی عرب میں تعلقات نارمل ہوئے، جیسے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک چین اور روس کے ساتھ مل کر نئے معاشی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، ویسے ہی ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
اس تباہی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے دیرینہ مسائل فلسطینیوں اورکشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کر دیے جائیں ورنہ اس روئے زمین پر نخوت و تکبر میں ڈوبے انسانوں کے ساتھ جوکچھ ہونا ہے، وہ نوشتہ دیوار ہے۔
[ad_2]
Source link