[ad_1]
وہ کتابت خانے میں آلتی پالتی مارے بیٹھے ‘جادہ پیما’ کے صفحات دیکھتے جاتے اور جہاں کہیں کوئی سہو دکھائی دیتا، سید محمد حسن واسطی کو اصلاح کی ہدایت کرتے۔ یہ ذکر ہے استاد محترم پروفیسر سید ارشاد حسین نقوی صاحب کا۔ انبالہ مسلم کالج میں ویسے تو ہر استاد خوش پوش تھا لیکن جسے حقیقی خوش لباسی کہا جا سکتا ہے، وہ ان پر ختم تھی۔ گھونگھریالے سیاہ چمکتے ہوئے بال اور ہلکی مونچھوں کے ساتھ دل کش چہرہ مہرہ۔ دائیں گال پر زخم کا ہلکا سا ایک نشان جو ان کی شان دار شخصیت پر بھلا لگتا۔ سردی ہو یا گرمی، موسم کے مطابق وہ سوٹ زیب تن کیا کرتے جس کے ساتھ رنگ کا خوش گوار امتزاج پیدا کرتی ہوئی ٹائی۔ اس وقت بھی وہ ایسے لباس میں ہی تھے اور نہایت بے تکلفی کے ساتھ پھسکڑا مار کر کاتب یعنی واسطی صاحب کے عین سامنے بیٹھے تھے۔ دیگر اساتذہ اور ان کے ہم عصر لیے دیے رہتے لیکن وہ ہمیشہ بے تکلفی اور سادگی سے کام لیتے۔ ان کے مزاج کی یہی خوبی تھی جو انھیں ممتاز ہی نہ کرتی بلکہ لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے مستقل جگہ بھی بنا دیتی۔
ایک بار دوران گفت گو رپورتاژ کا ذکر ہوا تو میں نے چند سوال کر دیے۔ نقوی صاحب کہنے لگے کہ ادھر آؤ، میں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ کیسی جادوئی چیز ہے۔ انھوں نے اپنی نشست کے دائیں جانب رکھے ہوئے ریک سے کوئی انتخاب نکالا اور ورق گردانی کر کے ایک تحریر نکال کر مجھے پڑھنے کے لیے دی۔ یہ ممتاز مفتی کی ‘ لبیک’ سے مسجد نبوی میں حاضری اور دوران نماز محسوسات اور اسی دوران میں کسی ‘ مرد قدیم’ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کی کیفیات کا بیان تھا، میں جس کے سحر کا شکار ہو گیا۔ اس کتابت خانے میں ‘ لبیک’ جب اچانک میرے ہاتھ لگی تو میں نے تقریبا چیخ مار دی۔ نقوی صاحب نے پلٹ کر میری طرف نیم مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور پوچھا کیا ہو گیا، برخوردار!
نقوی کا غصہ اور سرزنش بھی خوب ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنے مسکراتے ہوئے چہرے پر غصے کی مصنوعی کیفیت طاری کرتے اور کہتے:
‘ برخوردار، نیک اطوار بروز سوموار! خیریت تو ہے؟’
برخوردار یہ سنتے ہی محتاط ہو جاتے لیکن وقت انھوں نے اپنا پورا ڈائیلاگ دہرانے سے گریز کیا لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کرتے تو کوئی فرق نہ پڑتا، میری دریافت مجھے پرجوش کر چکی تھی۔ نقوی صاحب کو بھی لگتا ہے کہ اس کا اندازہ تھا لہٰذا انھوں نے میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے سوال کیا کہ کون سا مسئلہ فیثا غورث حل کر لیا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں سر! مفتی صاحب کے گھر کا پتہ مل گیا ہے۔ میں نے پیش لفظ کے آخر میں ان کے دستخط اور اس کے نیچے درج پتے پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔ بعد میں جب زیادہ کتابیں دیکھنے اور کسی قدر پڑھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ مصنفین اپنے قارئین سے ربط کے لیے پتہ تو لکھا ہی کرتے ہیں۔ نقوی صاحب چاہتے تو اس طرح کی کوئی بات بتا کر میرے جذبات پر ٹھنڈا پانی ڈال سکتے تھے لیکن انھوں نے بڑے اشتیاق کے ساتھ کہا کہ لاؤ، ذرا دکھاؤ۔ اس کے بعد ایک نظر انھوں نے پتے پر ڈالی۔ مجھے شاباش دی پھر فرمایا:
‘ نوجوان ہے نا، ایسی جگہ نگاہ ڈالی جسے عام طور نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔’
تو یہ انداز تھا ان کا حوصلہ افزائی کا۔
نقوی صاحب جیسے شخصی ندرت اور نفاست میں ممتاز تھے، اسی طرح سے ان کا پڑھانے کا انداز بھی منفردتھا۔ وہ طالب علم کو کسی جبر کے ضابطے میں کس کر لکیر کا فقیر نہیں بناتے تھے بلکہ اس کی اپنی صلاحیت کو ابھار کر اسے نئے اور منفرد راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس ضمن میں ان کا انداز کیا تھا، اس کی موزوں ترین مثال ان کی ایک کتاب ہے۔ اردو کے اساتذہ گرامر کی کتابیں تو لکھا ہی کرتے ہیں جن میں واحد جمع اور مذکر مؤنث کی مثالوں کے علاوہ نمونے کے مکالمے اور مضامین بھی لکھ دیتے ہیں جنھیں رٹ کر طلبہ امتحان میں نمبر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نقوی صاحب اس لگے بندھے طریقے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے طلبہ کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے منفرد طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے ایک کتاب لکھی، اس کا نام اگر میں نہیں بھول رہا تو اس طرح کا تھا، ‘ ورک بک آف اردو گرامر’
اپنی اس مختصر سی کتاب میں انھوں نے گرامر کی دیگر کتابوں کی طرح نمونے کے مضامین سے صفحے بھرنے کے بہ جائے وہ ضابطہ اور طریقہ سکھایا جس کی مدد سے طالب علم یہ کام ازخود کر سکے۔ اسی طرح مضمون نویسی کے شعبے میں بھی انھوں نے مضمون لکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ کسی موضوع پر لکھنے سے قبل سوچنے اور نوٹس لینے کا طریقہ سکھایا اور اس کی مشقیں کتاب میں شامل کیں۔ مضمون کی ابتدا، اٹھان، اختتام اور استدلال کا طریقہ سمجھانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جب مضمون لکھنے کا مرحلہ آیا تو انھوں نے دوسرے اساتذہ کی طرح سے نمونے کے مضامین لکھ کر کتاب میں شامل نہیں کیے بلکہ مختلف عنوانات متعین کر کے کچھ خالی صفحات چھوڑ دیے کہ طریقہ سکھا دیا ہے، اب خود لکھیے۔
میں ان خوش قسمت طلبہ میں شامل رہا ہوں جن پر شروع دن سے ہی ان کی شفقت رہی۔ یہی سبب تھا میری کسی تحریر پر خوش ہو کر انھوں نے مجھے اپنی یہ ورک بک عنایت فرمائی جو ان دنوں عنقا ہو چکی تھی۔ استاد سے کتاب ملنے کی خوشی سے میں ہواؤں میں اڑنے لگا لہٰذا اسی شام گھرپہنچ کر میں نے ایک مضمون لکھا ‘ اگر میں وزیر اعظم ہوتا’۔ اگلی صبح میں نے انھیں یہ مضمون دکھایا تو پڑھ کر خوش ہوئے اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر انعام کے طور پر عطا کیا۔ ویسے تو اس زمانے میں ایک روپیہ انعام بھی کچھ ایسا کم نہیں تھا لیکن یہ انعام لیتے ہوئے میں ان کے مزاج کی انفرادیت سے بھی لطف اندوز ہوا۔ فرمایا:
‘ ویسے اگر انعام میں ہمیں تھپڑ بھی پڑ جاتا تو ہم نہال ہو جاتے تھے، میں تو تمھیں ایک روپیہ پیش کر رہا ہوں۔’
حقیقت یہ ہے کہ آج اگر مجھ میں لکھنے کی جتنی کتنی کیفیت بھی پیدا ہو پائی ہے، اس کے پیچھے نقوی صاحب کی راہ نمائی اور شفقت تو ہے ہی لیکن ان کی ورک بک کا کردار بھی بنیادی ہے۔لکھنے پڑھنے کی تیکنیک سکھانے میں تو وہ منفرد تھے ہی وہ ادب اور تہذیب و تمدن کے نظریاتی پہلوؤں پر بھی اپنے طالب علم کو بہت مضبوط کر دیتے تھے۔ ایک دفعہ میری زبان سے لفظ بربریت ادا ہو گیا۔ فرمایا ٹھہرو اور سوچو کہ تم نے ابھی کیا کہا ہے۔ میں کچھ سمجھ نہ پایا تو انھوں نے نشان دہی کی اور بتایا کہ ظلم اور جبر کی کیفیت کے اظہار کے لیے تم نے ابھی ‘ بربریت ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیا جانتے ہو کہ ہم جب یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو دراصل مسلمانوں کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ ظالم و جابر ہوتے ہیں۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیا اور کہا کہ سر! یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کہنے لگے کہ ہر لفظ یا اصطلاح کی ایک تاریخ اور نظریاتی پس منظر ہوتا ہے۔ بربریت کا لفظ دراصل انگریزی لفظ Barbarism کی اردو شکل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو میں ایسا کوئی لفظ وجود رکھتا ہی نہیں۔ نقوی صاحب نے مجھے صرف اسی لفظ کے پس منظر نظر سے آگاہ نہیں کیا بلکہ تصویر کا دوسرا اور تیسرا رخ دیکھنے کا ہنر بھی سکھایا۔
نقوی صاحب اپنے طالب علموں کی تعلیمی کارکردگی اور سرگرمی پر نگاہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے ذاتی معاملات اور مسائل بھی ان کے علم میں رہتے تھے۔ ایک روز مجھے بلایا اور پوچھا کہ چار سو روپے ہوں گے تمھارے پاس؟ میں نے کہا کہ فوری طور پر تو اتنی رقم میرے پاس نہیں ہے لیکن دو چار روز میں ہو بھی سکتے ہیں۔ کہنے لگے کہ جب ہو جائیں، مجھے بتانا۔ مجھے یہ اندازہ تو تھا کہ پیسوں کی انھیں ضرورت نہیں ہوگی اور اگر ہوگی بھی تو وہ مجھ سے اس بارے میں نہیں کہیں گے۔ اس لیے ہمت کر کے پوچھ ہی کیا کہ سر، ان پیسوں کا کیا کرنا ہے؟ کہنے لگے کہ ابھی اس بات کو چھوڑو۔ پیسے ہو جائیں تو بتانا۔ والدہ سے کچھ رقم لے کر میں اگلے روز کالج پہنچا اور ان کے سامنے میز پر رکھ دی۔ رقم گننے اور اٹھا کر جیب میں رکھنے کے بہ جائے وہ اٹھ کھڑے ہوئے کہا کہ چلو۔ یہ کہہ کر وہ دفتر سے باہر نکل آئے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلتا رہا یہاںتک کہ ہم سائیکل اسٹینڈ پر پہنچ گئے۔ جیب سے سائیکل کی چابی نکالی اور اپنی سائیکل کی گدی کو تھپتپاتے ہوئے چابی میرے حوالے کی اور کہا کہ یہ آج سے تمھارا ہوا۔ حیرت سے میرا منھ کھل گیا اور میں نے کہا کہ سر! یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ذرا سی یعنی جیسی ان کی بناوٹی سی خفگی ہوتی تھی، اسے طاری کرتے ہوئے کہا:
‘ بس، کہہ دیا نا۔’
اس واقعے کا ایک پس منظر تھا۔کالج کے زمانے میں ؛ میں سائیکل پر کالج آیا کرتا تھا۔ یہ سائیکل میرے ابا جی مرحوم کی تھی جو اتنی کھٹارا ہو چکی تھی کہ اس پر چچا چھکن کی سائیکل کا گمان گزرتا تھا۔ تنگ آکر میں نے سائیکل پر آنا چھوڑ دیا۔ انھیں معلوم ہوا تو اپنی سائیکل میرے حوالے کر دی۔ اس زمانے میں نئی سائیکل کوئی ہزار بارہ سو روپے میں ملتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ میں نئی سائیکل خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، اس لیے مجھے پیدل چلتا دیکھ کر انھوں نے دو تین ماہ پہلے خریدیں ہوئی سائیکل نصف سے بھی کم قیمت پر مجھے بیچ دی۔
وہ چاہتے تو اپنی سائیکل مجھے بلا قیمت بھی دے سکتے تھے لیکن انھوں نے مجھ سے اس کی قیمت کیوں وصول کی؟ اس سوال نے مجھے اکثر پریشان کیا لیکن جلد ہی اس کی حکمت بھی سمجھ میں آ گئی۔ کالج میں داخلے سے تھوڑا عرصہ ہی پہلے میرے ابا جی کا انتقال ہوا تھا۔ ابا جی کے جانے کے بعد جب زندگی کے منجدھار میں پھنسنے کا تجربہ ہوا تو دو طرح کے رویے دیکھنے کو ملے۔ ایک لا تعلقی کا اور دوسرا رحم کھانے کا روّیہ۔ اب اگر میں اس رویے کو بیان کروں تو اس رحم دلی کی کیفیت کچھ بھیک دینے کی سی ہوا کرتی تھی جس سے یتیم بچوں کا اعتماد ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ اباجی کی وفات سے لے کر کالج میں آنے تک مجھے بارہا اس قسم کے روّیے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس روّیے سے بڑی تکلیف ہوا کرتی
لیکن نقوی صاحب نے جب باقاعدہ سودا کر کے مجھے اپنی سائیکل کا مالک بنا دیا تو اس کے ساتھ ہی میرا اعتماد بھی پورے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔
میں جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں، کسی سواری پر سوار ہوتا ہوں تو گھونگھریالے بالوں اور ہلکی مونچھوں والے نقوی صاحب کی شبیہ میری آنکھوں میں ابھر آتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ نقوی صاحب محض ایک انسان نہ تھے، محض ایک استاد بھی نہ تھے جو ابا جی وفات کے بعد میری زندگی کے اندھیرے میں داخل ہوئے اور اس میں اجالا کر دیا، ایک ایسا اجالا جو مجھے آج بھی راستہ دکھاتا ہے۔
[ad_2]
Source link