[ad_1]
ویسے تو عام طور سے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے، کل کے دشمن آج کے دوست بن سکتے ہیں اور آج کے دوست کل ایک دوسرے کے سخت دشمن بھی ہوسکتے ہیں، اس خیال کی عملی تصویر ہم نے دیکھ لی جب بلوچستان سے شروع ہونے والی پی ٹی آئی کی تحریک تحفظ آئین پاکستان میں محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل ایک ہی مؤقف کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
ابھی دو سال پہلے یہ دونوں حضرات پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں نہ صرف پیش پیش تھے بلکہ اس تحریک کے اصل محرک اور روح رواں بھی تھے۔ اتنی جلدی کوئی اپنا نظریہ بدل ڈالے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ بانیِ پی ٹی آئی ابھی کچھ سال پہلے تک محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کا جس انداز میں مذاق اُڑایا کرتے تھے اُسے دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنے کو ہمارا ذہن تیار نہیں ہے کہ سیاست میں ایسا بھی اور اتنی جلدی یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کو شکوہ ہے کہ فروری 2024کے انتخابات میں جو شکست ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ موجودہ حکومت کے ساتھ چل نہیں سکتے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو اُنہیں جس صوبے میں شکست ہوئی ہے وہاں پاکستان تحریک انصاف نے کلین سوئپ کیا ہے۔ اُنہیں شکوہ کرنا تھا تو پی ٹی آئی سے کرتے جس نے اُنہیں اس شکست سے دوچارکیا۔ باقی صوبوں میں تو مینڈیٹ حسب توقع ہی سامنے آیا ہے۔ کسی کو دھاندلی کرنا ہوتی تو وہ ان صوبوں میں بھی کرتے ۔ بلوچستان میں تو تینوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ نون ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو تقریباً ایک جیساہی مینڈیٹ ملا ہے۔
خود مسلم لیگ نون کے بڑے بڑے بت اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے اور واضح مینڈیٹ نہ ملنے کی وجہ سے میاں نوازشریف بھی وزیراعظم نہ بن سکے۔ ان انتخابی نتائج نے تو اپوزیشن کے اس الزام کو بھی درست ثابت نہیں ہونے دیا کہ الیکشن سے پہلے میاں نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی سازش ہورہی تھی۔ اُن کا لندن سے واپس آنا اور تمام مقدمات سے بریت کا مل جانا بظاہر اس الزام کی وجہ تخلیق بنا۔
سیاست اور مقبولیت کا نشہ ایسا نشہ ہوتا ہے کہ کسی کو ایک بار لگ جائے تو پھر کبھی چھوٹتا ہی نہیں۔ سیاسی گھرانوں میں نسل درنسل سیاست کا شوق نہ صرف پروان چڑھتا رہا بلکہ ایک پیشے کی صورت بھی اختیار کرتا رہا۔ یہ مشغلہ یا شوق صرف ہمارے یہاں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں بھی عرصہ دراز سے پرورش پاتا رہا ہے۔ پیشہ کے اعتبار سے ذوالفقار علی بھٹو ایک وکیل تھے لیکن سیاست میں اپنے شوق کی وجہ سے وہ ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہوئے۔
اس کے بعد وہ اسی شعبے سے وابستہ ہوگئے اور آج اُن کی نسلیں بھی اسی شعبے میں اپنا مستقبل تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ وہ خود بھی ایک متنازعہ مقدمے میں پھانسی چڑھ گئے اور اُن کے بعد اُن کی صاحبزادی بھی کسی نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں لیکن اب اُن کی نسل کے دو بچے بلاول زرداری بھٹو اور محترمہ آصفہ بھٹو بھی سیاست ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔
اسی طرح میاں نوازشریف بھی جب سے سیاست میں داخل ہوئے ہیں ایک دن کے لیے بھی اس سے بیزار یا تائب نہیں ہوئے ہیں ، گرچہ اُنہیں یہ گلہ اور شکوہ بھی رہتا ہے کہ اُن کے ساتھ ہمیشہ زیادتی کی گئی اور اُنہیں بلاوجہ جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے سزائیں سنائی گئیں۔ وہ چاہتے تو آرام سے اپنی باقی ماندہ زندگی لندن میں یا جاتی عمرہ میں بیٹھ کر گزار سکتے ہیں لیکن سیاست کے نشے نے اُنہیں پھر سے اس میں قسمت آزمائی پر مجبور کر دیا ہے۔ یہی بات ہمارے اکثر لوگ عمران خان کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ وہ چاہتا تو آرام سے یورپ کے محلات میں اپنی زندگی گزار سکتے تھے لیکن پاکستان کے عوام کی خاطر وہ آج مشکلات سے دوچار ہیں۔
اس ملک کے غریب لوگوں کی خاطر تو شاید ہی کوئی اتنی بڑی قربانی دے ، ہاں البتہ اپنے سیاسی شوق اور مقبولیت کے نشے کی تسکین کی خاطر یہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت میں ساری دنیا میں معروف اور مقبول ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کرکٹ میں کامیابی اتنا سرور نہیں دیتی، جتنا وزیراعظم کی حیثیت میں ساری دنیا کے حکمرانوں کا مہمان بننا اور اقوام متحدہ کے ایوانوں سے خطاب کرنا دل کو تسکین اور سرور دیتا ہے۔
یہی بات ہے کہ لوگ جیلوں میں رہ کر بھی یہ تمام تکلیفیں اُٹھانے کو ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں۔ زرداری صاحب ہی کو لے لیجیے ، گیارہ سال تک قید و بند کی صعوبتیں اُٹھانے کے باوجود وہ ابھی تک اس ضعیف عمری میں بھی سیاست سے دور رہنا نہیں چاہتے۔ اپنے فرزند ارجمند کو وزیراعظم بناتے بناتے خود ایک بار پھر صدر مملکت بن گئے۔ اسی طرح میاں نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم تو نہ بن سکے لیکن سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کو ابھی بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ شاید ایسا کرنا بھی چاہتے ہوں لیکن اُن کے پیروکاروں کو یہ منظور نہیں ہے اور وہ اُنہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ سیاست سے ہرگز دور نہ رہیں۔ اسلام آباد کے چھ ججوں کے خط کو لے کر وہ سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس میں ایک فریق بن کر شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ اس طرح اُنھوں نے سیاست میں اپنی دوبارہ انٹری کی بنیاد رکھ لی ہے۔
2017 میں اُن کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی تھیں انھیں آج تک کسی عدالت نے ڈسکس نہیں کیا۔ چھ ججوں کے اس خط نے اُنہیں بھی یہ موقعہ فراہم کردیا ہے کہ وہ سب کے سامنے اپنامدعا بیان کرسکیں۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی غلط کوشش بھی نہیں ہے۔ اُن کے ساتھ اس زمانے میں جو کچھ بھی ہوا آج تک کسی عدالت نے اُسے ڈسکس ہی نہیں کیا،اگر آج اِن چھ ججوں کا مؤقف درست مانا گیا تو 2017 میں میاں صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو کس طرح جھٹلایا جاسکتا ہے، جب کہ آج تو وہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے جو اس زمانے میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہورہا تھا۔آج عدالتیں اس قدر دباؤ میں نہیں ہیں جتنی اس وقت ہوا کرتی تھیں۔
آج ویسے فیصلے نہیں ہورہے ہیں جیسے اس زمانے میں ہو رہے تھے۔ اگر کسی غیرقانونی مداخلت کا جائزہ لینا ہے تو پھر ہمیں2017 کے دور میں بھی جھانکنا ہوگا۔ نوازشریف کا مطالبہ کچھ غلط نہیں ہے، وہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز نہیں ہیں لیکن اپنے خلاف کی گئی زیادتیوں کا ازالہ تو مانگ سکتے ہیں، جس طرح ہماری سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کو عدل و انصاف کے مطابق قرار نہ دے کر اپنا تاریخی فیصلہ سنایا ہے اسی طرح 2017 میں کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف بھی فیصلہ آ سکتا ہے ۔
[ad_2]
Source link