[ad_1]
حکومت کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے چھوٹے تاجروں پر ٹیکس لگانے کی پالیسی لائی گئی ہے۔
یہ پالیسی کیا ہے ؟اس کے معیشت پر کیا اثرا ہونگے؟تاجر و بزنس کمیونٹی اس پر کیا رائے رکھتی ہے؟اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، تاجر برادری اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
آفاق احمد
(ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی و ترجمان فیڈرل ایف بی آر)
تاجر دوست سکیم کے تحت تمام غیر رجسٹرڈ ہول سیلرز، رٹیلرز، ڈیلرز اور دوکانداروں کو 30 اپریل 2024ء تک رجسٹریشن کرانا لازمی ہے، پہلے سے رجسٹرڈ دکانداروں کو نئے سرے سے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔ ابتدائی طور پر یہ پائلٹ پراجیکٹ 6 بڑے شہروں میں شروع کیا گیا ہے جہاں 10 لاکھ کے قریب تاجروں کو رجسٹر کیا جائے گا۔ پائلٹ کی کامیابی کے بعد اس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔
اس سکیم کے تحت تاحال تاجروں کیلئے ٹیکس کی شرح کا تعین نہیں کیا گیا البتہ کم از کم ٹیکس کی شرح طے ہوئی جو1200 روپے ہے۔اس سکیم کے تحت ٹیکس وصولی کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا جبکہ اس سے پہلے اس کے بارے میں تاجروںکوآگاہی دی جائے گی ۔ اس ضمن میں تاجروں سے ہر سطح پر براہ راست ملاقاتیں کی جائیں گی۔ تاجر دوست ایپ کے ذریعے تاجروں کی رجسٹریشن کی جائے گی اور ان کی مشاورت کے ساتھ ٹیکس کی شرح کا تعین کیا جائے گا۔
تاجروں پر ٹیکس یکساں نہیں ہوگا بلکہ ان کی استعداد اور حیثیت کے مطابق ٹیکس لاگو ہوگا۔ بڑے دکاندار اور پوش علاقوں میں موجود آوٹ لیٹس پر ٹیکس کی شرح زیادہ ہوگی جبکہ غیر آباد اور دوردراز علاقوں کے دکاندار اور تاجروں پر ٹیکس کی شرح کم ہوگی۔ اس سکیم کے حوالے سے مشاورت کے ساتھ تاجروں کے تحفظات دور کر دیے ہیں، وہ اس پر متفق ہیں تاہم اس میں مزید بہتری اور معاملات طے کرنے کیلئے تاجروں سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
تاجر دوست سکیم ٹیئر ون کے ساتھ ساتھ ریٹیلرز کیلئے بھی ہے۔ تاجر دوست سکیم میں ادائیگی کے وقت بجلی کے ماہانہ بلوں میں ادا کیا گیا انکم ٹیکس ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ تمام ہول سیلرز،ریٹیلرز، ڈیلرز مثلاً جنرل سٹورز، میڈیکل سٹورز، فرنیچر اور تزئین وآرائش کی دکانیں و دیگر شامل ہیں۔
اس سکیم کا اطلاق کمپنیوں، ایک یا ایک سے زائد شہروں میں واقع نیشنل اور انٹرنیشنل چین سٹورز پر نہیں ہوگا۔تمام رجسٹرڈ تاجروں کو یکم جولائی 2024ء سے ماہانہ ایڈوانس انکم ٹیکس تاجر دوست سکیم کے تحت جمع کروانا ہوگا۔پہلے سے رجسٹرڈ تاجر یکم جولائی 2024سے ماہانہ ایڈوانس انکم ٹیکس تاجر دوست سکیم کے تحت اور سال 2024 ء کا گوشوارہ معمول کے مطابق جمع کروائیں گے، جیسے پہلے جمع کرواتے رہے ہیں۔
دکاندار یا تاجر کو اِس سکیم کے تحت ماہانہ ایڈوانس ٹیکس دینا ہوگا جو تاجر سہہ ماہی ایڈوانس انکم ٹیکس دینے کے پابند ہیں وہ اپنا سہہ ماہی انکم ٹیکس جمع کرواتے وقت تاجر دوست سکیم میں دیا گیا ٹیکس ایڈجسٹ کرواسکتے۔ تاجر دوست سکیم انکم ٹیکس رجسٹریشن سے متعلق ہے، اس کا سیلز ٹیکس سے تعلق نہیں البتہ وہ تاجر جو سیلز ٹیکس میں رجسٹر ہونا لازم ہیں انہیں سیلز ٹیکس میں بھی رجسٹر ہونا چاہیے۔ تاجر دوست سکیم میں شامل ہونے کے لئے پوائنٹ آف سیل سسٹم کی رجسٹریشن لازمی نہیں ہے البتہ ٹیئر و ن ریٹیلرز کی پوائنٹ آف سیل میں رجسٹریشن لازمی ہے۔
شاپنگ مال سمیت جہاں کہیں بھی چھوٹی، بڑی دکانیں و کھوکھے قائم ہیں وہ سب تاجر دوست سکیم میں رجسٹریشن کے اہل ہوں گے کیونکہ یہ سکیم کیاسک(KIOSK)سمیت تمام دکانداروں کے لئے ہے۔ ٹیکس نیٹ سے باہر تاجروں کو تاجر دوست ایپ کے ذریعے رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ اس ایپ کے ذریعے ایف بی آر کو دکانداروں کی آمدن کا ریکارڈ موصول ہو گا۔ دکانداروں کیلئے سالانہ آمدن کے مطابق ٹیکس عائد ہو گا جو ماہانہ بنیادوں پر وصول کیا جائے گا۔
اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں ریٹیلرز پر ٹیکس لگا کر 100 ارب روپے تک کا ریونیو متوقع ہے۔ملک بھر کے 35 لاکھ ریٹیلرز پر ایف بی آر نے ٹیکس لگانے کیلئے سکیم تیار کی ہے جن سے 300 ارب سے زائد آمدن متوقع ہے۔ٹیکس کا حساب ایک مستقل دکان یا کاروبار کی جگہ پر دیے جانے والے کرائے کی بنیاد پر لگایا جائے گا اور یہ ٹیکس کاروباری جگہ کی مارکیٹ ویلیو کا 10 فیصد ہو گا جس کا تعین ایف بی آر کرے گا۔
ٹیکس نیٹ میں اضافے کے مشن کے تحت ماہانہ ایڈوانس انکم ٹیکس کی پہلی وصولی 15 جولائی سے ہو گی اور کم از کم ایڈوانس ٹیکس سالانہ 1200 روپے ہو گا۔ ایف بی آر نے اْن تاجروں کے لیے 25 فیصد ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا ہے جو مقررہ تاریخ سے پہلے اپنا پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں یا ٹیکس سال 2023ء کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کر چکے ہیں۔ ڈیجیٹائزیشن اور ٹیکنالوجی کا استعمال اس پالیسی کو منفرد بناتی ہے۔ سمارٹ فون کے ذریعے تاجر با آسانی رجسٹر ہوسکتے ہیں۔
احسن ظفر بختاوری
(صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، ’ایف بی آر‘ کی ’تاجر دوست سکیم‘ کا خیرمقدم کرتا ہے جس کے تحت تاجر اپنے موبائل فون یا ایف بی آر کے ویب پورٹل کے ذریعے ٹیکس آسان ایپ میں خود کو رجسٹر کرسکیں گے۔ تاجر برادری ہمیشہ ٹیکس کی پاسداری کرتی ہے اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی حامی ہے۔ ایف بی آر کو چاہیے کہ ٹیکس کو آسان بنائے ، دکانداروں کو سہولیات دی جائیں اور سال میں ایک بار سنگل پیج ریٹرن فائل کرنے کا پابند بنایا جائے۔
ملک کی معاشی ترقی کے لیے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا درست لیکن تاجر برادری کو بلاوجہ پریشان اور ہراساں نہ کیا جائے۔ تاجر رہنماؤں اور بزنس چیمبرز کو ایسے اقدامات کے حوالے سے پیشگی اعتماد میں لیا جائے۔ ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ تاجر برادری کے مسائل حل کیلئے بغیر ملک کے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ تاجر برادری کا اعتماد بڑھانے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنا ہونگے۔ چیمبر دکانداروں کو رجسٹر کرنے اور دستاویزی معیشت کو فروغ دینے کیلئے حکومت کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور توقع ہے کہ حکومت تاجر دوست ایپ سکیم بارے تاجروں کے تحفظات دور کرے گی۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنی بجٹ تجاویز میں ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے متعدد اقدامات تجویز کیے، حکومت انہیں سامنے رکھتے ہوئے قابل عمل پالیسیاں تشکیل دے۔ پاکستان کا ہر تاجر خوشی سے ٹیکس دینا اور ملکی معیشت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا چاہتا ہے، ٹیکس دہندہ کی سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ وفاقی حکومت نے ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے جن کی بزنس کمیونٹی مکمل تائید کرتی ہے اور یہ بھی توقع ہے کہ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے دی جانیوالی تجاویز کو سکیم کا کا حصہ بنایا جائے گا۔
تاجر دوست سکیم کے ڈرافٹ میں تمام تاجروں اور دکانداروں کیلئے ماہانہ ایڈوانس ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کیلئے زیادہ تر دکانداروں کا انحصار وکلاء پر ہے۔ ماہانہ فائلنگ سے ان پر انتظامی بوجھ پڑے گا اور قانونی فیسوں اور جرمانے کی وجہ سے کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا طویل المدتی حل برآمدات کے فروغ میں ہے۔پاکستان کو اگلے پانچ سال میں 120ارب ڈالر کے قرضے درکار ہوں گے۔ملکی معیشت کو قرضوں کے جال سے نکالنے کیلئے پاکستان کو برآمدات کے فروغ کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش،دنیا بھر میں پاکستانی سفارتی مشنز کو متحرک اور مقامی سطح پر انڈسٹری کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت تجارت کو ہدایت کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اور تاجروں کی مشاورت سے منصوبہ تیار کیا جائے اور آئندہ پانچ سالوں میں ملکی برآمدات کو دوگنا کرنے کے لیے ایکشن پلان پیش کیا جائے، یہ انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے،امید ہے کہ وزیراعظم کا یہ اقدام ملک کی برآمدات میں اضافے، زرمبادلہ کمانے اور موجودہ معاشی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، گھریلو مصنوعات، ٹیکسٹائل وغیرہ کی برآمدات کے فروغ کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے۔ پاکستان کو زراعت،معدنیات اور ای کامرس کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میڈ ان پاکستان برانڈز کو اجاگر کرنے اور برآمد کنندہ گان کے مسائل کے حل کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
وزیراعظم کی جانب سے فرانسیسی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت کا بھی خیر مقدم کیا۔ملک ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے اور کاروباری برادری اس صورتحال پر پریشان ہے، وزیراعظم کے اقدامات یقیناً ثمر آور ہوں گے اور ملکی معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی۔
فاد وحید
(نائب صدر اسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری)
ٹیکس نیٹ،ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکس ریونیو بڑھانا پاکستان کی ضرورت ہے جس کیلئے ہر پاکستانی کو اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس دینا چاہیے۔ہم نہ صرف تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے متعاراف کروائی جانے والی تاجر دوست ایپ سکیم کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے ہر اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم ہمیشہ سے ہمارے یہ تحفظات رہے ہیں کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے جو بھی اقدام یا سکیم متعارف کروائی جائے اس میں سٹیک ہولڈرز سے لازمی مشاورت کی جائے تاکہ اس پر عملدرآمد میں آسانی ہوسکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی اقدام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر اٹھایا گیا ہے وہ ناکام ہوا۔ ویلیو ایڈڈ جی ایس ٹی سمیت دیگر اقدامات کی ناکامی اس کا ثبوت ہے۔ اس کے برعکس خودتشخیصی سکیم سمیت دیگر اقدامات جو متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اٹھائے گئے وہ کامیاب ہوئے ۔
سیلف اسیسمنٹ سکیم رول ماڈل ہے۔ اب تاجروں کیلئے لائی گئی سکیم درست اقدام ہے اس کی بلاجواز مخالفت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس کے خلاف احتجاج ہونا چاہیے البتہ اس پر تاجروں کو آن بورڈ لینا ضروری ہے۔ تاجروں کے تحفظات دور کرنا ہوں گے تاکہ پوائنٹ آف سیلز کی طرح یہ سکیم ناکام نہ ہو ۔ڈنڈے کے زور پر کامیابی نہیں ہوگی، حکومت کو بہتر حکمت عملی سے آگے بڑھنا ہوگا اور اس سکیم کو مرحلہ وار لاگو کرنا ہوگا۔ پہلے مرحلے میں بڑے شہروں میں لاگو کی جائے کامیابی کے بعد بتدریج ملک کے دوسرے شہروں تک اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ تاجروں کو بھی چاہیے کہ ملکی حالات کا ادراک کرتے ہوئے خود کو رجسٹرڈ کروائیں اور ٹیکس دیں۔
اگر پہلے اتنے وقت سے ٹیکس نہیں دیتے رہے تو اب وقت آگیا ہے کہ وہ ٹیکس ادا کریں، اس سے ریونیو بڑھے گا تو ملک مالی طور پر مضبوط ہوگا اور مالی خودمختاری و خود انحصاری کی طرف جائے گا۔ اس طرح ٹیکس نیٹ میں پہلے سے شامل لوگوں کیلئے بھی ریلیف کی راہ نکلے گی۔ غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے بھی وسائل دستیاب ہوں گے۔ ٹیکس کولیکشن سے جو اضافی ریونیو اکٹھا ہوگا اس کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنے بجٹ زیادہ تر حصہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کیا ، ہمیں بھی اپنے وسائل کا رخ صحت،تعلیم اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر نہ تو ہم مضبوط قوم نہیں بن سکتے اور نہ ہی ملک ترقی کرسکتا ہے۔
تاجروں کیلئے متعارف کروائی جانے والی ا س سکیم کے تحت ٹیکس کا اطلاق رقبے یا کرائے کی بنیاد پر کرنے کی بجائے ٹرن اوور اور آمدنی کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ بڑی دکان کی سیل بھی زیادہ ہواور چھوٹی دکان کی سیل کم ہو، اس کے الٹ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے کیس ٹو کیس معاملے کو ڈیل کرنا چاہیے اور جس کی جتنی آمدن ہو اسی حساب سے ٹیکس لاگو کیا جائے۔ اس حوالے سے فارمولا سادہ اور آسان ہونا چاہیے اور پیچیدگیوں کو ختم کرنا چاہیے۔
کاشف چوہدری
(صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان)
ایف بی آر کی جا نب تاجر دوست سکیم کے نام پر جاری کیے گئے ایس آر او 420 کی موجودہ شکل خاصی پیچیدہ ہے البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایف بی آر نے اس سکیم بارے میں تاجروں کے بہت سے تحفظات دور کیے ہیں۔ میرے نزدیک ایف بی آر کو یہ سکیم چھ بڑے شہروں کے بجائے ملک بھر میں ایک ساتھ ہی شروع کرنی چاہیے تھی۔
حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے اور نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے،مرکزی تنظیم تاجران پاکستان حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی استعداد کے مطابق ٹیکس نیٹ میں آئے لیکن حکومت ملک سے ڈبل ٹیکسیشن ختم کرے اور لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔
اس وقت تاجروں اور صنعتکاروں کو انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس،فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹمز ڈیوٹی، پراپرٹی ٹیکس، سائن بورڈ ٹیکس سمیت چوبیس قسم کے ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ ٹیکس کے نظام کو سادہ اور آسان بنایا جائے اور ٹیکسوں کے چنگل سے نکال کر سنگل ٹیکس سسٹم لاگو کیا جائے۔ ملک بھر میں ایک جیسا ٹیکس لیا جائے اور اسے سنگل ونڈو آپریشن کے ذریعے آپریٹ کیا جائے ۔اسی طرح ٹیکس نیٹ بڑھا کر ریونیو بڑھایا جائے اور ٹیکس کی شرح کم کی جائے تاکہ لوگ با آسانی اور خوشی سے ٹیکس نیٹ میں آئیں۔ سیلز ٹیکس کو سنگل ڈیجٹ پر لانا چاہیے۔
اس کے بغیر نہ تو ملک سے مہنگائی کم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کرپشن روکی جاسکتی ہے۔ ملک میں 60لاکھ لوگوں سے جی ایس ٹی لینے کی بجائے مینوفیکچرنگ اور درآمدی سطح پر جنرل سیلز ٹیکس لاگو کرکے وصول کرلیا جائے ، اس سے سیلز ٹیکس کی لیکج رک جائے گی اور ریونیو بھی بڑھے گا۔ ساتھ ہی ایف بی آر کی ورک فورس کی ضروریات بھی کم ہونگی اور مقدمہ بازی میں بھی کمی آئے گی۔ اسی طرح پوائنٹ آف سیل سسٹم کو بھی معقول بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاں بھی پوائنٹ آف سیل سسٹم لگا ہے وہاں ٹیکس ریونیو میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس سسٹم کا سافٹ ویئر فروخت کرنے والی کمپنیاں پیسہ کما رہی ہیں اور وہی لوگوں کو ٹیکس بچانے کے طریقے بھی بتاتی ہیں۔
اب حکومت پوائٹ آف سیل سسٹم کا دائرہ کار ہسپتالوں،سکولوں،کالجز، بیوٹی پارلرز،جم، کلب سمیت دیگر شعبوں تک بڑھانے جارہی ہے، اس سے معاملات مزید پیچیدہ ہونگے۔ سسٹم کو آسان بنانے کیلئے آٹومیشن پر جانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ کاروبار اورر قبے کی بنیاد پر ٹیکس لاگو کرنے کی بجائے آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرے اور جس کی جتنی آمدنی ہے اس کے مطابق ٹیکس عائد کرکے وصول کیا جائے۔ اسی طرح اس سکیم کے تحت جائیداد کی مالیت کے دس فیصد کو بطور کرایہ تصور کرکے اس کے بیس فیصد کو بطور انکم ٹیکس وصول کرنے کا تصور بھی بہت پیچیدہ ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے اس کی پیچیدگیاں دور کرے، اس کیلئے تاجروں سے مذاکرات اور مشاورت کا عمل بڑھایا جائے۔
یہ ایس آر و مبہم اور غیر واضح ہے جو افسران کو زیادہ اختیارات بھی دے رہا ہے۔ میرے نزدیک اس سے کرپشن اور بلیک میلنگ کا نیا راستہ کھلے گا۔ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کا دس فیصد کرایہ تصور کرنے اور ٹیکس افسران کو کرایہ تعین کرنے کا اختیار دینا کسی صورت درست نہیں۔ کرایہ کی رقم کے ساتھ انکم ٹیکس مشروط کرنا اور اس کا طریق کار واضح نہ کرنا کئی اشکالات کو جنم دیتا ہے۔ ٹیکس دوست سکیم کے نام پر ماہانہ ٹیکس وصولی کی صورت میں بجلی کے بلوں میں وصول کیا جانے والا انکم ٹیکس ختم کیا جائے۔
بجلی کے بلوں میں وصول شدہ انکم ٹیکس کی رقم درحقیقت ایڈوانس ٹیکس ہے تو پھر نیا اضافی ٹیکس کیوں؟پہلے سے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے تاجروں کو اس نئی سکیم کا حصہ بنانا ناقابل فہم ہے۔ جس شخص کی آمدن قابل ٹیکس نہیں اور وہ بجلی کے بل پر انکم ٹیکس دے رہاہے، اس پر 1200 روپے (کم از کم )کا اضافی ٹیکس اور ڈاکومنٹیشن کا نفاذ کیوں ؟ آسان ٹیکس سکیم کے نام پر کرایہ کی شرح سے مشروط کر کے عام تاجروں کیلئے لاکھوں اور کروڑوں روپیہ ٹیکس لگانے کا منصوبہ ہے۔
کھربوں روپے کمانے والوں پر ٹیکس لگانے کی بجائے پرچون فروشوں کے گلے میں پھندا ڈالنا حکومت کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہر مہینے ٹیکس جمع کروانا، اس کا ریکارڈ رکھناچھوٹے تاجر کیلئے عملًا ممکن نہیں۔ملک چلانے کیلئے تاجر مزید ٹیکس دینے کو تیار ہیں مگر نظام سادہ اور آسان ہونا چاہیے۔ نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔پہلے سے موجود ٹیکس گزاروں کا مزید خون نچوڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔قومی آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس گزاروں کے اعتماد کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں۔تاجر دوست سکیم پر ایف بی آر ملک کی سب سے بڑی تاجر تنظیم، مرکزی تنظیم تاجران پاکستان و دیگرسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے ابہام کی وضاحت کرے۔
رجسٹریشن کا سسٹم آسان بنایا جائے اور ادا شدہ ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ محکمہ کے افسران اپنے اپنے علاقہ میں تاجر نمائندوں سے ملاقات کر کے آگاہی پروگرام ترتیب دیں جبکہ پاکستان بھر کے سینئر نمائندوں سے ایف بی آر کے چیئرمین اور وزیر خزانہ، تاجر نمائندوں سے مذاکرات کریں اور تاجر برادری کے تحفظات دور کئے جائیں۔ تاجر برادری ٹیکس نیٹ میں اضافہ کی خواہاں ہے اور ایف بی آر سے تعاون کرنا چاہتی ہے لیکن جمع کرائے گئے اعتراضات دور کئے جائیں۔ سکیم کو آسان بنانے کے لئے اردو کا گوشوارہ لایا جائے تاکہ تاجر کو ٹیکس دینے میں آسانی ہو۔
حکومت کا یہ کہنا کہ فکس ٹیکس، نیٹ میں اضافہ نہیں کرتا درست نہیں۔ اگر چھوٹے تاجر پر ٹیکس فکس کر دیا جائے تو خاطر خواہ ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ ایف بی آر گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے دکانداروں کو پی او ایس کی تنصیب کرے گا، یہ سراسر زیادتی ہے، یہ ایف بی آر میں کرپشن میں مزید اضافہ کا باعث بنے گا۔ایف بی آر کے اہلکار ڈیوائس کے نام پر تاجروں سے منتھلیاں وصول کررہے ہیں۔لیکن کرپشن کو روکنے کا کوئی طریقہ کار آج تک نہ بن سکا ہے۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف ایف بی آر کو حکم دیں کہ نئے قانون میں اضافہ نافذ کرنے سے قبل تاجر نمائندوں سے مشاورت کرے۔ تاجر برادری کو احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے۔ ہم سے مشاورت نہ کی گئی اور تحفظات دور نہ کیے گئے تو عید کے بعد احتجاج کا اعلان کیا جائے گا۔
[ad_2]
Source link