[ad_1]
خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، پنجاب سمیت ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، بارشوں کی اس شدت کے باعث سیلابی صورت حال پیدا ہونے سے کئی مکانات منہدم ہوگئے، مختلف مقامات پر رابطہ سڑکیں بند ہونے سے لوگ پھنس گئے، چترال میں شدید بارشوں کے باعث کسی ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے فوری طور پر تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ ادھر بلوچستان میں جاری موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے اسکولوں کو مزید دو دن بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بارشوں کے باعث کئی قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔
ابھی تک بارشوں کا سیزن شروع نہیں ہوا ہے ، ڈیڑھ ماہ کے بعد مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوجائے گا، اس موسم میں شدید بارشیں ہونے کے باعث دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی اور سیلاب آ جاتے ہیں، یہ قدرتی عمل کروڑوں برس سے جاری ہے، اب چونکہ دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بارشوں کی شدت میں اضافہ ہوا اور بغیر سیزن کے بھی مسلسل بارشیں ہورہی ہیں، اب جو شدید بارشیں ہورہی ہیں، یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہی اور نقصانات کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جس کے منفی اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں جو حکومتوں اور انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے کیونکہ حکومتی بجٹ کاایک بڑا حصہ سیلاب سے پیدا ہونے والے نقصانات کے ازالہ پرصرف کرنا پڑ رہا ہے۔ادھر ہمارے بلدیاتی، ضلع اور صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا معیار بہتر ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے۔
مس منجمنٹ،ادارہ جاتی اختیارات و فرائض میں عدم توازن کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ ہمارے پاس سرکاری اداروں کی بھرمار ہے، میونسپل اور پراونشنل اداروں کے افسران اور ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سرکاری خزانے سے انھیں تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ہر ماہ کئی ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی کا معیار اور مستعدی انتہائی پست ہے۔
ہر برس مون سون بارشوں سے پہلے بڑے بڑے حکومتی اور انتظامی دعوے سامنے آتے ہیں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں توان تمام دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے اور تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی مسلسل تیسری بار صوبائی حکومت قائم ہوئی ہے، جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل چوتھی صوبائی حکومت ہے، حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ،ان صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا پوسٹمارٹم کرتے نظر آتے ہیں۔
لاہور میں شہری مسائل کا انبار ہے ، یہاں کبھی میونسپل کارپوریشن طاقتور ہوا کرتی تھی لیکن پھر اس کے ماتحت اداروں کو الگ الگ کرکے مختلف کمپنیاں بنا دی گئی ہیں، یوں میونسپل کارپوریشن اپاہج ہوچکی ہے۔ لاہور شہر کی گراونڈز اور پارکس اس کے ماتحت نہیں رہے، سیوریج سسٹم اس کے اختیار میں نہیں ہے، پارکنگ ایریاز اس کے پاس نہیں ہیں، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نام سے اتھارٹی بن چکی ہے ، شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں ہے، یوں لاہور میونسپل کارپوریشن محض نام کا ادارہ رہ گیا ہے۔ جس کے باعث لاہور بدترین آلودگی کا شکار رہتا ہے۔
سندھ میں ابھی پچھلے سیلاب کا پانی نہیں اترتا کہ ایک اور سیلاب آجاتا ہے۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ وفاقی حکومت کئی دوسری مدات میں اربوں روپے کی ادائیگی کرتی ہے لیکن ستر برس گزرنے کے باوجود یہ صوبے پسماندہ ہیں ، انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے، صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن ٹیکس کولیکشن نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ اربوں روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں، کچھ پتہ نہیں ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مون سون کی تیز بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں، جس میں سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔
گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟ سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کی ضرورت بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہے کیا اور ہمارے ماحول پر یہ کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ انسانی سر گرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی، جس سے پانی کی قلت پیدا ہوگی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پاکستان میں جنگلات کے خاتمے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ، جنگلی حیاتیات پر بھی اثر پڑرہا ہے، بہت سے جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک جنگلی جانوروں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ ہریالی کی کمی کی وجہ سے تازہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہورہی ہے۔ جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے کیونکہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف 4 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ اگر درست اور سائنسی پیمائش کی جائے تو جنگلات کا رقبہ دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
جنگلات کسی بھی علاقے کی آب و ہوا کو خوشگوار بناتے ہیں اور درجہ حرارت کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔ جنگلات کافی حد تک بارش برسانے کا باعث بھی بنتے ہیں کیونکہ ان کی موجودگی میں ہوا میں آبی بخارات میں اضافہ ہو جاتا ہے جو بارش برسانے کا باعث بنتے ہیں۔ درختوں کی جڑیں مٹی کو آپس میں جکڑے رکھتی ہیں،جس سے زمین کی زرخیزی قائم رہتی ہے۔ جنگلات کے نہ ہونے سے دریا اپنے ساتھ ریت اور مٹی کی بڑی مقدار بہا لے جاتے ہیں جس سے ہمارے ڈیم اور مصنوعی جھیلیں سلٹ سے بھر جاتی ہیں اور زراعت و صنعت کے لیے کم پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔
درخت سیم و تھور زدہ علاقوں میں بہت کارآمد ہیں کیونکہ یہ زمین سے پانی جذب کر لیتے ہیں جس سے زیر زمین پانی کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور اس کی سطح نیچے چلی جاتی ہے۔ جمالیاتی پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو پری مون سون کے موسم کو بلاشبہ پسند کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ یہ چلچلاتی گرمی کے خاتمے کا عارضی سہی لیکن سبب بنتا ہے اور تیز دھوپ سے ضروری راحت فراہم کرتا ہے۔ بارشوں کے نتیجے میں چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں سڑکوں پر جو پانی جمع ہوتا ہے ، اسے اترنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔
کراچی میں تو اگر ہلکی بارش بھی ہوجائے تو سڑکوں پر گڑھے پڑ جاتے ہیں، کیونکہ پانی کی نکاسی نہیں ہوتی دوسرا سڑکوں کی تعمیر میں انتہائی ناقص میٹریل استعمال کیا جاتا ہے۔فی زمانہ ہمارے ملک کو جن بڑے اور اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک پانی کی شدید قلت بھی ہے جس کی ایک وجہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی اور اقدامات ہیں، تاہم اس کا سب سے بڑا سبب اب تک پاکستان میں قائم رہنے والی حکومتوں کی جانب سے کسی بڑے آبی ذخیرہ کی تعمیر کے سلسلے میں غفلت بھی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سال بھر میں مختلف مہینوں میں ہونے والی بارشوں اور موسم گرما میں پگھلنے والے گلیشیئرز سے حاصل ہونے والے پانی کی کافی بڑی مقدار کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے بہہ کر سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے۔
بلاشبہ غربت و مہنگائی کے ستائے عوام پاکستان میں مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں اکثریتی علاقے گندگی اور گندے پانی کی لپیٹ میں ہیں۔ جب تباہی و بربادی ہوچکی ہوتی ہے تو حسب روایت حکومتی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے اور قومی خزانے سے کروڑوں روپے محض آنیوں اور جانیوں پر خرچ کر دیے جاتے ہیں۔
[ad_2]
Source link