[ad_1]
سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں ملازم ہے‘10مارچ کو اس کی ڈیوٹی کراچی ایئرپورٹ پر تھی‘ دن بارہ بج کر پانچ منٹ پر گلف سے ایک فلائٹ آئی‘فلائٹ کے ایک مڈل کلاس مسافر کا خاندان اسے ریسیو کرنے کے لیے انٹرنیشنل آرائیول پر کھڑا تھا‘ مسافر کی 3 سال کی چھوٹی بیٹی بھی ایئرپورٹ پر تھی‘ اس نے دور سے والد کو دیکھا تو وہ بے اختیار والد کی طرف دوڑ پڑی‘راستے میں اے ایس ایف کے اہلکار کھڑے تھے‘ بچی جب سبحان کے قریب پہنچی تو اس نے اسے بالوں سے پکڑا اور زمین پر دے مارا‘ بچی فرش پر گر گئی لیکن یہ اس کے باوجود اٹھی اور دوڑ کر والد سے لپٹ گئی۔
یہ منظر کسی نے ریکارڈ کر لیا اور عید کے دنوں میں اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا‘ ان دنوں بہاولنگر کا واقعہ وائرل تھا‘ یہ وڈیو بھی اس ریلے کا حصہ بن گئی اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی واٹس ایپ گروپوں اور پھر ٹی وی چینلز تک پہنچ گئی‘ میڈیا کے شور پر آخری اطلاعات کے مطابق اے ایس ایف نے سبحان کو معطل کر دیا لیکن اس کے باوجود اس واقعے میں ایک ’’مسنگ ایلیمنٹ‘‘ موجود ہے‘ وہ کیا ہے ہم اس طرف آنے سے پہلے بہاولنگر کے واقعے کی طرف آئیں گے۔
بہاولنگر سے دس کلومیٹر باہر بہاولپور چشتیاں روڈ پر منڈی مدرسہ نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے‘ اس قصبے کے تھانے کے دو اہلکار عید سے ایک دن قبل چک سرکاری گاؤں کے ایک گھر گئے‘ درمیانی عمر کا ایک شخص باہرنکلا‘ پولیس نے اس کے نام کی شناخت کی اور اسے تھانے چلنے کا حکم دیا‘ وہ نوجوان بھاگ کر اندر چلا گیا‘ پولیس بھی اس کے پیچھے گھر میں داخل ہو جاتی ہے‘ گھر میں اس نوجوان کے دو بھائی ہوتے ہیں۔
وہ پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر چارپائی پر بٹھا لیتے ہیں اور ان سے وارنٹ مانگتے ہیں‘ پولیس کے پاس وارنٹ ہوتا ہے اور نہ ہی لیڈی پولیس‘ وہ انھیں ایس ایچ او کو بلانے کا کہتے ہیں‘ اہلکار (اے ایس آئی اور کانسٹیبل) ایس ایچ او رضوان عباس کو کال کرتے ہیں‘ ایس ایچ او ایک اہلکار کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے‘ وہ دونوں بھائی ایس ایچ او سے اپنے بھائی کا جرم پوچھتے ہیں‘ ایس ایچ او بتاتا ہے ہم نے کسی شخص سے پستول برآمد کیا ہے‘ ملزم کا کہنا ہے اس نے یہ پستول آپ کے بھائی سے خریدا تھا‘ وہ ایس ایچ او سے پوچھتے ہیں‘ کیا آپ نے اس وقوعے کی کوئی ایف آئی آر درج کی؟ پولیس کے پاس ایف آئی آر بھی نہیں ہوتی۔
اس پر دونوں کے درمیان تکرار ہو جاتی ہے جس کے آخر میں وہ دونوں بھائی پولیس اہلکاروں کی وڈیو بناتے ہیں اور انھیں واپس بھجوا دیتے ہیں‘ ایس ایچ او باہر نکل کر وائرلیس کے ذریعے پولیس فورس منگوا لیتا ہے‘ بہاولنگر کے تھانے تخت محل سے 20 اہلکاروں کی فورس ایس ایچ او نوید نزاکت کے ساتھ اس گاؤں میں پہنچ جاتی ہے‘ پولیس اس خاندان کے 23افراد کے خلاف کار سرکار میں مداخلت سے لے کر دہشت گردی تک تمام دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرتی ہے‘ گھر پر ریڈ کرتی ہے‘پولیس خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرتی ہے اور دو بھائیوں اور ان کے والد کو اٹھا کر تھانے لے جاتی ہے۔
اس کش مکش کے دوران دونوں بھائی پولیس کو بتاتے ہیں ہم ایس ایس جی کے کمانڈوز ہیں مگر اس کے باوجود انھیں خوف ناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ ان پر اتنا تشدد ہوتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے‘ تشدد کے بعد انھیں پرائیویٹ ٹارچر سیل میں شفٹ کر دیا جاتا ہے اور وہاں بھی ان پر بار بار تشدد ہوتا ہے‘ اس دوران اہل خانہ ان کی یونٹ سے رابطہ کرتے ہیں اور یوں ہائی کمان بہاولنگر پہنچ جاتی ہے۔
ڈی پی او نصیب اللہ خان کو اطلاع دی جاتی ہے‘ وہ ایس ایچ او اور اے ایس آئی کو معطل کر دیتا ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دیتا ہے تاہم وہ دونوں فوجی جوان متعلقہ حکام کے حوالے نہیں کرتا اور یہ دونوں مزید ایک دن پولیس کے ٹارچر سیل میں رہتے ہیں‘ ان کی حالت جب زیادہ خراب ہو جاتی ہے تو پولیس انھیں سفید سوزوکی مہران میں بے ہوشی کی حالت میں ڈی ایچ کیو بہاولنگر کے گیٹ پر پھینک کر چلی جاتی ہے‘ یہ بڑی دیر تک وہاں پڑے رہتے ہیں‘ دونوں میں ایک کو ذرا سا ہوش آتا ہے تو وہ ڈاکٹر کو اپنی شناخت کراتا ہے اور ڈاکٹر متعلقہ حکام کو اطلاع دیتا ہے اور اس کے بعد کہانی کا دوسرا حصہ شروع ہو جاتا ہے۔
دونوں بھائیوں کا میڈیکل ہوتا ہے اور دونوں پر تشدد ثابت ہوتا ہے‘ ڈی پی او سے جواب طلبی کی جاتی ہے‘ اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اور اس کے بعد وہی ہوتا ہے جس کی وڈیوز اب تک پوری دنیا دیکھ چکی ہے‘ منڈی مدرسہ کی صورت حال کے بارے میں دو ورژن ہیں‘ پولیس کے مطابق ایس ایچ او اور اے ایس آئی کو حوالات سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ دوسرے فریق کے مطابق ایس ایچ او رضوان عباس اور اے ایس آئی دونوں سائیڈ روم میں بیڈ پر لیٹے تھے اور انھیں یوں آرام میں دیکھ کر اشتعال میں مزید اضافہ ہوگیا‘ بہرحال قصہ مختصر زیادتی دونوں سائیڈز سے ہوئی۔
پولیس کے پاس ایف آئی آر اور وارنٹ کے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونے کا اختیار نہیں تھا‘ دوسرا گھر پر ریڈ اور پھر لوگوں کو اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنانا اور پھر انھیں حوالات کے بجائے پرائیویٹ ٹارچر سیل میں رکھنے کی بھی کوئی جسٹی فکیشن نہیں تھی اور جب معاملہ ڈی پی او کے نوٹس میں آ گیا تھا تو بھی پولیس نے دونوں فوجی جوانوں کو حوالات میں شفٹ کیا اور نہ انھیں متعلقہ حکام کے حوالے کیا‘ کیوں؟ دوسری طرف پولیس اسٹیشن ریاست کا سمبل ہوتا ہے اور کسی بھی ادارے کے پاس (خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور مقدس ادارہ کیوں نہ ہو) اس میں داخل ہونے اور وہ سلوک کرنے جس کی فوٹیج پوری دنیا دیکھ چکی ہے کا اختیار نہیں ہوتا اور اگر یہ ہو جائے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اس صورت حال کے بعد نکلا‘ بہاولنگر کے تین تھانے تین دن بند رہے‘ شہر سے ٹریفک پولیس اور سیکیورٹی تک چلی گئی اور فورس کا مورال بہت ڈاؤن ہو گیا‘ اب دونوں اداروں کے درمیان اعتماد بحال کرنے میں بہت وقت لگے گا‘ پولیس اور فوج کی قیادت معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ کام یابی نہیں ہوئی‘ پولیس کے واٹس ایپ گروپوں میں بہت کچھ کہا اور سنا جا رہا ہے‘ وردیاں بھی جلائی جا رہی ہیں اور کام چھوڑ ہڑتال کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں‘ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے ہمارے اداروں میں انٹیلی جنس کا سسٹم بہت کم زور ہے‘ پولیس کی قیادت بھی صورت حال کی نزاکت کا اندازہ نہیں کر سکی اور فوج نے بھی نتائج کا تخمینہ نہیں لگایا اور اس کے نتیجے میں اداروں میں ٹکراؤ ہو گیا۔
آپ اس کے بعد ایک دوسرا المیہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ کراچی میں اے ایس ایف کے اہلکار سبحان کی تین سال کی بچی کے ساتھ بدسلوکی ہو یا پھر بہاولنگر کا افسوس ناک واقعہ ہو آپ کو وزیراعظم میاں شہباز شریف‘ وزیر داخلہ محسن نقوی‘ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیراعلیٰ مریم نواز کسی جگہ نظر نہیں آتے‘ پوری حکومت اس پر مکمل خاموش ہے‘ کسی نے کوئی بیان دیا اور نہ درمیان میں آنے کی جسارت کی‘حکومت کا یہ رویہ ثابت کرتا ہے حکومت ’’کور ایشوز‘‘پر سائیڈ پر ہو چکی ہے‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب صرف پروٹوکول‘ جہاز‘ ہیلی کاپٹرز اور تیس تیس گاڑیوں کے قافلے انجوائے کر رہے ہیں۔
یہ ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک اقتدار سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ملک میں کیا ہو رہا ہے اس سے ان کو کوئی کنسرن نہیں‘ ملک جانے اور ملک چلانے والے جانیں‘ یہ لوگ جہاں تک ہو سکے گا اقتدار کو انجوائے کریں گے اور جب بوجھ بڑھ جائے گا تو یہ چپ چاپ لندن واپس چلے جائیں گے اوربس۔ اب سوال یہ ہے کیا یہ ملک اس صورت حال میں چل سکے گا؟ جی نہیں‘ یہ ہائی برڈ سسٹم ملک کو مزید تباہ تو کر سکتا ہے لیکن یہ اسے چلا نہیں سکتا‘ اس سسٹم کو سب سے بڑا خطرہ دو کھلاڑیوں سے ہے‘ نواز شریف اور عمران خان‘ نواز شریف وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے باوجود سسٹم سے باہر بیٹھے ہیں اور صرف دو ماہ میں ان کے اندر غصے کا ابال دکھائی دے رہا ہے۔
یہ چند دنوں میں چین کا دورہ کریں گے لیکن یہ کس کیپسٹی میں یہ دورہ کریں گے یہ ابھی تک سمجھ نہیں آرہا‘ یہ پارٹی کی قیادت بھی میاں شہباز شریف سے واپس لے رہے ہیں جس کے بعد ایک سسٹم کے چار قائدین ہو جائیں گے‘ اسٹیبلشمنٹ‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور پارٹی قائد میاں نواز شریف‘ اصل طاقت کس کے پاس ہو گی اس کا فیصلہ میدان جنگ کرے گا اور دوسرا خطرہ عمران خان ہیں۔
یہ جیل میں بیٹھ کر بھی سسٹم کے لیے خطرناک ہیں اور ریاست ابھی تک ان کا کوئی توڑ تلاش نہیں کر سکی چناں چہ ہمیں ماننا ہو گا ہم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں‘ ایک ایسے دور سے جس میں حکمران درجنوں ہیں مگر حکمرانی کسی کے پاس بھی نہیں‘ صرف ڈنڈا چل رہا ہے اور یہ ڈنڈا کس وقت کس کے سر پر آ گرے یہ بھی کوئی نہیں جانتا چناں چہ ہم بحرانوں کی دلدلوں میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور اس صورت حال کا صرف ایک ہی حل ہوتا ہے ’’اللہ کے حوالے۔‘‘
[ad_2]
Source link