[ad_1]
اب تو افغانستان ہمارے لیے ایک خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے لیکن وہ بھی دن تھے جب ہم21 مارچ کے لیے دن گنا کرتے تھے۔یہ قدیم فارس کے شمسی کیلنڈر کے پہلے مہینے حمل کا پہلا دن ہوتا تھا اور یہ دن ایران‘ افغانستان ‘تاجکستان اور ملحقہ علاقوں میں ’’نوروز‘‘ کا تہوار ہوتا ہے۔
ان تمام علاقوں میں جشن نو روز تقریبات اور میلے ہوتے تھے ‘گھروں میں ایک خاص پکوان بھی بنتا تھا بلکہ اب بھی بنتا ہے نام تو اس پکوان کا اب یاد نہیں رہا ہے لیکن سات خشک پھل بادام، اخروٹ، کشمش،خوبانی، آلوبخارا، انجیر وغیرہ پڑتے تھے اور’’شیرخرما‘‘ جیسی ایک میٹھی ڈش بنائی جاتی ہے۔افغانستان میں سب سے بڑا میلہ ’’گل سرُخ‘‘ مزار شریف کے مقام پر منعقد ہوتا تھا۔جس میں ایران، افغانستان، پاکستان، سابق روسی ریاستوں اور دور دور کے اتنے لوگ جمع ہوتے تھے کہ ایک ہفتہ پہلے ہی ٹرانسپورٹ کی قلت پڑجاتی تھی، سرایوں ہوٹلوں وغیرہ میں تو کیا پارکوں،سڑکوں اور کھیتوں تک لوگ بھر جاتے تھے۔ جب حضرت علی کا مزار عراقی شہر نجف اشرف میں بھی ہے تو یہاں کیسے؟۔ایران اور افغانستان میں نو روز کو روایتی بادشاہ’’یامہ‘‘ یا جمشید سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی محض افسانہ ہے۔ جمشید کی کہانی زردشت کی کتاب’’اوویستا‘‘ اور شاہنامہ فردوسی میں تھوڑے فرق کے ساتھ لکھی ہے۔
وہ چل پڑے لیکن راستے میں اس ’’دن‘‘ کو ’’یما‘‘ کی نجات کا دن یا ’’نوروز‘‘منایا جاتا ہے۔ لفظ ’’یما‘‘ آہستہ آہستہ ’’جم‘‘۔پھر جمشید بن گیا، مزے کی بات یہ ہے کہ یہی کردار ہندیوں کے ہاں بھی ہیں۔ ایرانیوں کے لیے’’یم‘‘ اگر نجات دہندہ ہے تو ہندیوں نے اسے موت کا دیوتا ’’یم‘‘ بنایا ہے۔ دونوں کے درمیان لہجے کا اختلاف بھی ہے جو لفظ یا چیز ہندی (س) سے بولتے ہیں ایرانی اسے(ہ) سے بولتے ہیں۔ دیس کو۔ دیہہ، کس کو کوہ، سبت کو ہپت،دس کو دہ۔ماس کوماہ، سوما کو ہوما اور سندھ کو سیند کوہ۔کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی ٹی وی چینل جسے عجیب اور چونکا دینے والے پروگرام نشر کرنے کا شوق ہے۔
اس میں تقریباً پندرہ بیس دن تو پبلسٹی ہو رہی تھی کہ موت کے دیوتا ’’یم راج‘‘کا محل دریافت کرلیا گیا، پھر جب پروگرام شروع ہوا تو کیمرہ، پہاڑوں ریگستانوں اور طرح طرح کے مقامات کی منظرکشی کرتا ہوا کچھ ویران کھنڈرات پر پہنچا اور اعلان ہوا یہی ہے یم راج کا محل۔حالانکہ وہ ایران کے مشہور مقام تخت جمشید کے کھنڈرات تھے۔ویسے جس مقام کو’’تخت جمشید‘‘ مشہور کیا گیا ہے اس کا جمشید سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں کیونکہ جمشید کا وارہ اوپایہ تخت’’بلخ‘‘ تھا۔کیونکہ ’’بلخ‘‘ کا لفظ بھی ’’وارہ‘‘ سے بنا ہے وارہ،وہاڑہ ورہا،برھا نجدہ نجدی بلخ۔ اسی وارہ سے برھمن کا لفظ بھی مشتق ہے۔
پرانی اساطیر کے سارے دیوی دیوتا اصل میں ارضی و سماوی عوامل ہی ہوتے ہیں جن کو پرانے زمانے کے انسانوں نے ماورائی ہستیوں کے استعارے میں ڈھالا ہے۔ زمین، آسمان، بارش، زلزلے، چاند ستارے۔ مطلب یہ کہ جس چیز پر انسان کا بس نہیں چلتا تھا اسے دیوی دیوتا بناکر پوجنے لگتا تھا،اپنے سے طاقتور کے آگے سرتسلیم خم کرنا انسان کی فطرت ہے۔اور پھر ہستیاں اور شخصیات بناکر کہانیاں بنائی جاتیں مثلاً ’’اندر‘‘سیدھی سادی بارش ہے اور کہانی کے مطابق اس نے اپنے مخصوص ہتھیار وجر،یجر بجلی سے خشک سالی کے عفریت کو مار ڈالا۔ موسمی عوامل پر مشتمل کہانی یہ ہے کہ اس کا محبوب شوہر’’تموز‘‘ بیمار ہوجاتا تھا جو استعاراتی طور پر ایک گڈریا ہے لیکن اصل میں سورج اک استعارہ ہے۔
(تموز تمازت)۔ چنانچہ اپنے شوہر کا علاج کرنے اور دوا لانے کے لیے بہار اور سرسبزی کی یہ دیوی’’پاتال‘‘ چلی جاتی ہے اور اس کی غیرموجودگی میں دنیا کی سرسبزی اور ہریالی ختم ہونے لگتی ہے۔’ ’تموز‘‘ (سورج) بھی انتہائی نحیف ہوجاتاہے۔یہ سردی اور برف باری یا خزاں کا استعارہ ہے۔اور جب چار مہینے بعد لوٹ آتی ہے تو بہار ہوجاتی ہے اور تموز(سورج) بھی صحت یاب ہوجاتا ہے۔ ’’نوروز‘‘ اس کے لوٹ آنے اور بہار کے آغاز کا جشن ہے۔جسے بعد کے زمانوں میں ہر قوم و نسل نے اپنے اپنے نظریات کے مطابق لیا ہوا ہے۔ عشتار، عشتر، استر، اختر، استارِ سب کا مطلب ستارہ ہے۔ ایران میں اسے اناہتا (ناہید) کہاجاتا ہے۔عربوں میں یہ ’’زہرہ‘‘۔مصر میں است یا آئی سس ہے۔
روم میں یہ’’وینس‘‘ہے۔بہار کے آغاز میں دکھائی دینے والا ستارہ۔یونانیوں نے البتہ اس کہانی کو زیادہ اپ ٹوڈیٹ کیا ہوا ہے وہاں ’’دیمتر‘‘ فصلوں کی دیوی ہے اور جب پاتال کا دیوتا ہیبڈیز اس کی بیٹی پرسیفونی کو اغوا کر کے پاتال لے جاتا ہے تو دیمتر اس کی تلاش میں پاتال چلی جاتی ہے اور بیٹی کو بازیاب کرلیتی ہے، تب یہ مقدمہ دیوتاؤں کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ دیوتا فیصلہ کرتے ہیں کہ اگر پرسیفونی نے پاتال میں کچھ کھایا نہ ہو تو ماں کے پاس رہے گی لیکن وہ پاتال میں انار کے دانے کھاچکی ہوتی ہے تب فیصلہ ہوتا ہے کہ پرسیفونی چار مہینے پاتال میں ہیبڈیز کے پاس رہے گی اور آٹھ مہینے اپنی ماں کے پاس۔ سیدھی موسمی کہانی ہے۔ دیمیتر فصلوں کی دیوی ہے یا فصل ہے جب کہ اس کی بیٹی پرسیفونی’’بیج‘‘ ہے۔
فصل آٹھ مہینے میں پک جاتی ہے اور بیج پیدا ہوجاتاہے جو جھڑ کر مٹی میں مل جاتا ہے۔مٹی ہیبڈیز کو تاریکی دیتی ہے۔ چار مہینے مٹی میں دبا رہنے کے بعد بہار میں پھر پھوٹ جاتا ہے۔پر سیفونی پاتال کی دنیا سے نکل کر پھر ماں کے پاس آجاتی ہے۔اس دیوی کا عقیدہ ویسے تو تمام اقوام کی اساطیر میں موجود ہے اور وہاں کے موسم کے مطابق اس کی کہانیاں بھی تھوڑی بہت بدلی گئی ہیں۔لیکن جوبات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ ہریالی اور سرسبزی کی یہ دیوی ایک’’ستارہ‘‘ہے جو اس کے نام سے ظاہر ہوجاتا ہے۔
لفظ ’’اختر‘‘کی بنیاد’’یخ تیر‘‘ہے ’’یخ‘‘ یعنی سردی اور برف یا سرما۔اور تیر کے معنی ہیں ’’گزرنا‘‘’’یخ تیر‘‘ سے پھر اختر بن گیاہے۔جب کہ دوسرے لہجے میں’’آئس ٹر‘‘(ice.ter) سے ایسٹر اور اسٹر اسٹار کے الفاظ بنتے ہیں۔لیکن ’’ایسٹر‘‘ کوعیسائیوں نے اپنے مذہبی تہوار سے وابستہ کرلیا ہے۔ پشتومیں ’’اختر‘‘ عید کو کہتے ہیں یعنی ستارہ۔اختر وہی پرانے نام ہیں لیکن اب اسے قدیم مذاہب کی طرح بہار وخزاں کے بجائے دیگر تہواروں سے وابستہ کرلیا گیا ہے جن کا موسم یا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں۔بات جب عقائد کی آجاتی ہے تو پھر حقائق کتنے ہی روشن ہوں پس پردہ چلی جاتی ہے۔
ایک واقعہ ہمارے سامنے بھی ہوچکا ہے، پشتو کے ایک ادیب اور محقق کا بھی دعویٰ تھا کہ اسے ’’کشف القبور‘‘ کا علم یا صلاحیت حاصل ہے چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ وہ فلاں تاریخ کو پشتو کے مشہور صاحب دیوان شاعر کی قبر دریافت کریں گے۔جو چارسدہ میں ہو گزرے تھے ۔اس تاریخ کو شعراء وادباء کا ایک بہت بڑا اجتماع اس قبرستان میں جمع ہوا، ہم بھی اگرچہ مبتدی اور کسی شمار وقطار میں نہیں تھے لیکن اس میں شریک تھے۔
اس بزرگ نے کچھ پڑھتے ہوئے ایک مقام پر مراقبہ کیا ‘کافی دیر آنکھیں بند کیے ساکت کھڑے رہے پھر آنکھیں کھول کر کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف گن گن کر قدموں سے پیمائش کرتے اور ساتھ ہی مراقبے کی حالت بھی اپنے اوپر طاری کرلیتے تھے۔
اردگرد ایک بڑی خلقت جمع تھی، کافی دیر تک قدموں کے ناپ تول اور مراقبے سے فارغ ہوکر انھوں نے ایک جگہ کی نشان دہی کی کہ مرحوم شاعر یہیں دفن ہیں۔وہاں قبروں کے درمیان ایک خالی جگہ تھی جہاں قبریں مٹ چکی تھیں۔اور پھر وہیں پر اس شاعر کی قبر نئے سرے سے بنا دی گئی جو اب بھی ہے۔اکثر لوگوں کو اس سے اختلاف تھا لیکن عقیدت کے آگے کس کی چلتی ہے ۔
[ad_2]
Source link